کشمیریوں کی حمایت میں پاکستانی حکمت عملی بہت موثر ہے، بھارتی فوج کے سابق جنرل کا اعتراف

 
0
8488

ممبئی 18 مئی 2020 (ٹی این ایس): لوگوں کی حمایت کے بغیر کہیں کوئی مسلح شورش 30 برسوں تک باقی نہیں رہتی۔ بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق جنرل ڈی ایس ہوڈا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا طویل المدتی حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کی حمایت کو کمزور اور تشدد کے جاری واقعات کو قابو کرنے کی کوششوں کے علاوہ سِول آبادی اپنی توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور اس سے پہلے کہ کوئی میری طرف سے ‘دہشت گردی کی بجائے ‘شورش’ کا لفظ استعمال کرنے پر کوئی اعتراض کرے، میں واضح کرنا چاہوں گا کہ دہشت گردی بھی شورش میں استعمال ہونے والا ایک ہتھیار ہی ہے۔

جنرل ڈی ایس ہوڈا کے مطابق ‘انسدادِ شورش کو اکثر ‘دل و دماغ’ کا کھیل قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان آپریشنز میں دل سے زیادہ دماغ کا کام ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں اطلاعات، پروپیگنڈہ اور فرضی خبر کی بہتات ہے، تنازعات میں اصل مقابلہ لوگوں کے دماغ کو اثر انداز کرنے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘حکومت اور دہشت گرد، دونوں اطلاعاتی حکمتِ عملی کے ذریعہ لوگوں کو اپنی جانب لانے اور ان کا بھروسہ جیتنے کے لیے مقابلے کی ایک دوڑ میں ہیں۔ فوجی زبان میں ہم اسے ‘انفارمیشن وار فیئر’ یا بیانئے کی لڑائی ‘بیٹل آف نیریٹیوز’ کہتے ہیں۔ جنرل ہوڈا نے بتایا کہ ‘اس لڑائی میں دہشت گرد، جو بنیادی طور فیک نیوز پر انحصار رکھتے ہیں وہ فائدے میں ہیں۔

ونسٹن چرچل نے کہا ہے ‘اے لائی گیٹس ہاف وے ارانڈ دی ورلڈ بیفور دی ٹروتھ ہیز اے چانس ٹو گیٹ اِٹس پنٹس آن(سچائی کو جب تک پتلون پہننے کا موقع ملتا ہے ایک جھوٹ آدھی دنیا کا چکر کاٹ کے آگیا ہوتا ہے)۔ چرچل نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب عالمی مواصلات ریڈیو اور ٹیلی گرافی پر مبنی تھیں۔ آج اسمارٹ فونز کی بدولت پلک جھپکنے میں بات چند منٹ میں دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہے۔2018جنرل ہوڈا نے بتایا کہ ‘جموں و کشمیر کی عوام کو ان کے مذہبی عقائد اور ان کی تہذیبی شناخت کو لاحق کسی بھی خطرے کے حوالے سے یقین دہانی کرانا بہت اہم چیلنج ہے۔

پاکستان اور علیحدگی پسند مسلسل ان خدشات پر کھیلتے رہے ہیں اور دفعہ 370کے ارد گرد گھومنے والے مسائل، شہریت ترمیمی قانون اور راوں برس ماہ فروری میں دہلی میں ہونے والے تشدد نے انہیں مزید موقع فراہم کیا ہوا ہے۔ ڈی ایس ہوڈا کے مطابق ‘بدقسمتی سے حکومت نے پاکستان کے پروپیگنڈہ کا توڑ کرنے یا اپنا بیانیہ سامنے لانے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ایک جانب جموں و کشمیر میں بظاہر فرضی خبروں کو روکنے کے لیے، تیز رفتار انٹرنیٹ بند ہے تو دوسری جانب باقی ملک میں شدت پسند مسلم مخالف مواد کے خلاف کارروائی کیے جانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ مقامی لوگوں کے جذبات کا خیال رکھنے کے لیے سرکار کی مواصلت غیر موجود یا پھر غیر موثر ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘یہ سمجھنا بھی لازمی ہے کہ ایک موثر بیانیہ فقط پیغام رسانی سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کی حمایت میں، اس پیغام سے مطابقت رکھنے والی، نظر آنے والی کارروائیاں بھی لازمی ہیں۔ اگر ہمدردی اور معاشی ترقی کے وعدوں کے ساتھ قابلِ فہم پروگراموں کی تعمیل نہ کی جائے تو اس کا بہت کم اثر ہوگا۔