“جھوٹ کا پلندہ”

 
0
311

تحریر: اعجازعلی ساغر
Twitter: @SAGHAR1214

کل ایک خاتون کو ٹی وی پہ روتے ھوئے دیکھا کہ مہنگائی اور غربت اس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے کہ گھر چلانے کیلئے عزت داؤ پر لگانے کی نوبت آگئی ہے گھر کی واحد کفیل اس مجبور اور لاچار عورت کے آنسوؤں نے تبدیلی سرکار کے دودھ اور شہد کی نہروں کے سب دعوؤں کو جھوٹ ثابت کردیا مسلسل فاقہ کشی نے میری سب سمجھ بوجھ ختم کردی ہے اس عورت کے اس دل سوز وڈیو کلپ نے سب اچھا ہے کی گردان کرنے والوں کو آئینہ دکھا دیا سوشل میڈیا اور ٹی وی پر سب اچھا ہے کے بھاشن دینے والے حکومتی وزراء کو تو شاید یہ بھی پتہ نہ ھو کہ مارکیٹ میں سبزی اور دالوں کا ریٹ کیا ہے؟ خیر یہ عوام کا اپنا مسئلہ ہے اس میں حکومت یا وزراء کو گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ﷲ پاک نے روزے ایک مہینے کے فرض کیے جبکہ باقی 11 مہینے کے روزوں سے تمام پاکستانیوں کو روحانی سکون ملے گا اور سارا دن بھوکا رہنے سے بیماریاں کم ھوں گی اور اس قناعت پسندی پر ﷲ پاک جنت میں جگہ دیں گے۔ اس فلسفے کے پرچار کیلئے تحریک انصاف نے پاکستان کے مذہبی رہنماؤں,مفتیوں اور پیروں کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے مولانا طاہر اشرفی اور پیر نورالحق قادری صاحب ان سب کو لیڈ کریں گے تاکہ پاکستانی عوام کو روزوں اور صبر کی افادیت پہ لیکچرز دیے جاسکیں زیادہ بولنا اور تحریک اتصاف کے خلاف بولنا ایک جیسا ہی ہے جس سے منع کیا گیا ہے لہذا تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کے نقصانات پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
معذرت تشبیہاً سمجھانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ان نکموں کو شاید ان تلخ جملوں سے عقل آجائے اور وہ عوام کا دکھ درد سمجھ جائیں۔ مہنگائی اور غربت نے عام آدمی کا جینا محال کردیا ہے اور اس پر کورونا کے ڈھونگ نے رہی سہی ساری کسر نکال دی ہے اگر کورونا واقعی حقیقت ہے تو سب سے پہلے صدرپاکستان,وزیراعظم, حکومتی وزراء اور اپوزیشن آن کیمرہ یہ ویکسین لگوائیں پھر بیشک پوری قوم کو لگا دیں لیکن یہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کو تو اپنی جان پیاری ہے یہ تو عام آدمی کی زندگی سے کھیل رہے ہیں جب سے کورونا آیا ہے لوگوں نے طبعی اور ایکسیڈنٹ کی موت مرنا چھوڑ دیا ہے لوگوں نے حضرت عزرائیل علیہ سلام سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی جان بیشک نکال لیں لیکن ہر موت کا الزام کورونا پر لگنا چاہیئے چنانچہ ﷲ کے پیارے فرشتے نے لوگوں کی آخری خواہش بھی پوری کردی اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے 9,10 ماہ سے اموات کا الزام صرف ظالم کورونا پہ ہی لگ رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک ایسا واقعہ بیان کروں گا جو میرے قریبی رشتہ داروں کیساتھ پیش آیا۔
میرے کزن کی پچھلے سال کورونا کی وجہ سے ڈیتھ ھوگئی تھی (بقول ڈاکٹرز کے) حالانکہ وہ ایک نارمل بچہ تھا ان کو سانس کا مسئلہ تھا اور یہ مسئلہ 8 سال کی عمر سے چلتا آرہا تھا بچپن میں ہی ان کی ماں وفات پاگئیں تھیں اور خدا نے ان کو بہن جیسی نعمت سے بھی محروم کیا تھا ان کی کوئی بہن نہیں تھی وہ 4 بھائی تھے (مظہر (جس کی سانس بند ھونے سے ڈیتھ ھوئی) سب سے چھوٹا تھا لہذا وہ چاروں بھائی اپنے والد (میرے ماموں) کیساتھ سروس اسٹیشن (گاڑیاں واش کرنے) پر لگ گئے یہ کام بہت مشکل کام ہے جس میں سروس بوائے کو بعض اوقات ڈیزل اور پٹرول بھی پینا پڑ جاتا ہے کیونکہ جس پائپ سے پٹرول یا ڈیزل گاڑیوں کی ٹینکیوں سے نکالتے ہیں اس کو نکالنے کیلئے سانس اندر کھینچنا پڑتا ہے جس سے ڈیزل اور پٹرول کے چند گھونٹ سروس بوائے کے حلق میں اتر جاتے ہیں یہ تقریباً روزانہ کی پریکٹس ھوتی ہے مظہر بیچارے کو بھی یہی ڈیزل اور پٹرول نے دائمی مریض بنادیا تھا اور اسکی بعض اوقات سانس بند ھوجاتی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد خودبخود بحال ھوجاتی۔ اس روز
جب ان کی طبیعت خراب ھوئی تو انہیں مقامی سرکاری ہسپتال میں لیجایا گیا ڈاکٹروں اور عملے نے مریض کو دیکھتے ہی کہا کہ اس کو کورونا ھوا ہے اور فوراً اس کو انجکشن لگا دیا جس کا ڈیتھ رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ حالانکہ ابھی تک انہوں نے مظہر کو چیک ہی نہیں کیا تھا ماموں لوگ اور کزنز انتہائی سادہ لوگ تھے جیسے انہوں نے سنا وہ مریض کو لیکر وہاں سے آگئے اس کے بعد مختلف ہسپتالوں میں لیجاتے رہے مگر ضلعی انتظامیہ کے سخت نوٹس کی وجہ سے کسی نے ان کو ایڈمٹ نہ کیا کیونکہ اس وقت کورونا عروج پر تھا اور ہسپتال والوں کی چاندی بنی ھوئی تھی کوئی بھی ہسپتال آتا تو کورونا کا رولا ڈال کر اسکو لمبے سفر پر بھیج دیا جاتا مظہر کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی ھوا اسے نامعلوم انجکشن لگ چکا تھا جس سے بالاخر وہ معصوم زندگی کی بازی ہار گیا۔ حکومت کو ایک اور کورونا کا مریض مل چکا تھا جس کا نام درج کرکے وہ بل گیٹس اور اس کے آقاؤں سے معاوضہ وصول کرنے کے حقدار بن چکے تھے۔
اس واقعے کا ذکر اس وجہ سے کیا ہے تاکہ عام آدمی کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جاسکے کہ یہ سب جھوٹ اور فراڈ ہے تمام لوگ اپنے ذہن سے اس ڈر کو ختم کردیں معمولی نزلہ زکام ہر کسی کو ھوتا ہے اور کورونا نزلے زکام کی ہی ایک قسم ہے جو آج سے نہیں ہے یہ بہت پرانی ہے جسے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ عام آدمی کی زندگی کتنی متاثر ھوئی ہے اس تبدیلی کے نام پہ,2018 کے الیکشن کے وقت لوگوں نے یہ سوچ کر عمران خان اور تحریک انصاف کو ووٹ دیا کہ وہ اس فرسودہ نظام سے انہیں نجات دلائیں گے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ھوگا ملک ترقی اور خوشحالی کی طرف جائے گا اشیائے خورونوش کی قیمتیں نیچے آئیں گی مطلب ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ھوگی عوام پرانے نظام سے تھک چکے تھے وہ اب تبدیلی چاہتے تھے کیونکہ دوسری تمام سیاسی جماعتیں عوامی امنگوں پر پورا اترنے میں ناکام ھوگئی تھیں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم تھا نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے جاب کیلئے جگہ جگہ ٹھوکریں کھا رہے تھے ان سب مایوس افراد کو عمران خان امید کی ایک کرن کے طور پر نظر آئے اور عوامی طاقت کے سمندر نے آخرکار عمران خان کو وزیراعظم بنادیا اب عوام کے اس احسان کو چکانے کا وقت تھا جو اس نے عمران خان اور تحریک انصاف پہ کیا تھا۔
وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے تمام اداروں میں اصلاحات لانے اور عوامی مسائل فی الفور حل کرنے کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شخص پاکستان اور اسکی غریب عوام کیلئے درد رکھتا تھا اور وہ نچلے اور غریب طبقے کو اوپر اٹھانا چاہتا تھا اس کیلئے بہت سے پروگرام شروع کیے گئے جس میں احساس پروگرام شیلٹر ھومز,صحت انصاف کارڈ, کامیاب جوان پروگرام اور اپنا گھر اسکیم وغیرہ شامل تھے لیکن وقت گزرنے کیساتھ ان تمام منصوبوں میں کام کی رفتار Slow ھونے لگی اور اس میں بھی کرپشن اور اقرباء پروری کو ترجیح دی جانے گی مثلاً کامیاب جوان پروگرام میں منظور نظر لوگوں کو قرض دیا جانے لگا اور عثمان ڈار اندھا بانٹے شرینیاں والی مثال کی طرح اپنے خاص لوگوں کو نوازنے لگے احساس پروگرام جوکہ بہت بڑا پروگرام تھا اس میں بھی کرپشن اور بد انتظامی عروج پر رہی پیسے نکلوا کر دینے والے حصے بٹورتے رہے اور 12 روپے کا میسج بعض اراکین اسمبلی کو بھی بھیجا گیا جبکہ بہت سے مجبور خاندان حکومتی امداد کی آس میں دفاتر کے چکر لگا لگا تھک گئے گوکہ ثانیہ نشتر صاحبہ نے خفیہ چھاپے بھی مارے مگر کرپشن جوں کی توں رہی,
اپنا گھر اسکیم بھی بس دعوؤں کی حد تک رہی ان اڑھائی سالوں میں ایک بھی چھت کسی کو فراہم نہیں کی گئی۔ تبدیلی سرکار بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح عوامی مسائل اگنور کرنے لگی بیوروکریسی جو تقریباً قیام پاکستان سے لیکر اب تک مسئلہ بنی ھوئی ہے اور ماضی کی حکومتوں کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی لاڈلی بنی ھوئی ہے نے تحریک انصاف کی حکومت میں پچھلی حکومتوں کا بھی ریکارڈ توڑ دیا پہلے کرپشن منظم طریقے سے ھوتی تھی اور بیوروکریسی کو تھوڑا بہت ڈر ھوتا تھا اب وہ ڈر بھی ختم ھوچکا ہے موجودہ حکومت میں کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے جس میں سرعام کرپشن نہ ھو نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے شاید سیاستدانوں اور عام عوام کیلئے بنائے گئے ہیں یہ وہ واحد حکومت ہے جس کا ایک عام چپڑاسی پہ بھی کنٹرول نہیں ہے تمام وزراء مست الست پھر رہے ہیں جبکہ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں اس حکومت کی کارکردگی سوشل میڈیا اور چند واہ واہ والے نیوزچینل تک ہی محدود ہے آپ یہ بتائیں ان اڑھائی سالوں میں بدلا کیا ہے مہنگائی اور غربت کہاں کی کہاں پہنچ گئی ہے چلو پہلے تو عوام ٹیکس نہیں دیتی تھی اور اوورسیز پاکستانی بھی پیسوں پہ ناگ بن کے بیٹھے تھے مگر اب تو عوام سانس کے لینے پہ بھی ٹیکس ہے اوورسیز پاکستانیوں نے آپ کی آواز پہ لبیک کہا ہے اور وہاں سے ڈالروں کی بارش کردی ہے اب تو تبدیلی لے آئیں اور عام آدمی کی زندگی بہتر بنادیں اگر سوشل میڈیا پر ہی کارکردگی دکھانی تھی تو پھر حکومت میں آنے کی زحمت کیوں کی عوام کو خواب اور سبزباغ کیوں دکھائے؟ خان صاحب تاریخ بہت ظالم ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی آپ کے اڑھائی سال گزر چکے ہیں بقیہ اڑھائی سال بھی عوام روتے دھوتے گزار دے گی لیکن اگر ذرا سا بھی شعور اس عوام میں ھوا تو آئندہ کسی بھی پاکھنڈی خواہ وہ کسی جماعت یا طبقے سے ھو اسے سر پہ نہیں بٹھائے گی وقت کبھی کسی کی میراث نہیں ہے آپ اگر دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں تو براہ راست عوام سے ٹچ ھونا ھوگا۔
کرپٹ بیوروکریسی جو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس کا قبلہ درست کرنا ھوگا تمام پرانے پاپیوں کو جبری ریٹائرڈ کرکے ان کی جگہ نوجوانوں کو نوکریاں دینی ھوں گی جو ڈگریاں ہاتھ میں لیے گھوم رہے ہیں اور وہ اس ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اگر کوئی بھی نوجوان پیسے دیکر نوکری لے گا تو وہ اس ملک اور قوم کی خاک خدمت کرے گا وہ تو اپنے پیسے پورے کرے گا۔ کرپشن اور رشوت ستانی نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے اس کو ختم کرنے کیلئے سخت قوانین بنانے ھوں گے اور جزا و سزا کے عمل کو یقینی بنانا ھوگا۔ جس ملک کی عدلیہ سست ھو وہاں جرائم رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں اور سرعام ھوتے ہیں معزز عدلیہ کو عالمی سطح پہ اپنا اسکیل بہتر بنانا ھوگا تمام سپریم کورٹس,ہائی کورٹس اور سیشن کورٹس سمیت تمام کورٹس کے معزز ججز صاحبان کو کافر ججوں کی طرح پہلے نمبر پر آنا ھوگا کیونکہ جب آپ بغیر کسی دباؤ یا لالچ کے فی الفور فیصلے کریں گے تو پھر اس کا Impact پورے ملک میں پڑے گا جس سے جرائم کی شرح بالکل ختم ھوجائے گی اور ایک عام آدمی کسی بھی معاملے پر فخر اور اعتماد سے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔
حکومت وقت عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ مایوسی کے یہ بادل چھٹ سکیں اور مرجھائے ھوئے چہروں پر رونق آجائے۔