“میں تمہیں رلاؤں گا”

 
0
424

تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214
میں تمہیں رلاؤں گا یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو موجودہ وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے الیکشن کمپئین کے دوران اپنی تقریروں اور جلسوں میں کہے اس وقت شاید ہی کسی کو ادراک ھو کہ عمران خان جو کہہ رہا ہے وہ کرکے بھی دکھائے گا کیونکہ اسکی فطرت میں ہی ہار ماننا نہیں ہے۔ 2005 کی بات ہے اس وقت میں میٹرک کا طالب علم تھا ھمارے گاؤں میں لاھور سے تحریک انصاف کے رہنماء آئے ھوئے تھے تب اسکی تنظیم سازی جاری تھی
(طلال چوھدری والی تنظیم سازی نہیں بلکہ حقیقی تنظیم سازی)
اس رہنماء نے ایک مقامی سیاسی وڈیرے کے ڈیرے پر اجتماع کیا اور لوگوں کی کثیر تعداد اس میں شامل ھوئی اس کا خطاب شروع ھوا کہ تحریک انصاف کو نوجوانوں کی ضرورت ہے یہاں کے نوجوان تحریک انصاف کو جوائن کریں اور عمران خان کا ساتھ دیں ھم چونکہ کرکٹ کے دیوانے تھے اور پریکٹیکلی کرکٹ کے میدان میں قدم بھی رکھ چکے تھے لہذا ہمیں سیاسی باتوں کی تو کوئی خاص سمجھ نہ آئی لیکن عمران خان کا نام سن کر ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ھوا چونکہ میں بھی آل راؤنڈر تھا بولنگ ٹپس لینے کیلئے میں نے اس رہنماء سے درخواست کی کہ مجھے عمران خان سے ملنا ہے اور ان سے بولنگ ٹپس لینی ہیں وہ کہنے لگے آپ تحریک انصاف جوائن کرلیں ھمارے ممبر بن جائیں آپ کی ملاقات ھوجائے گی میں نے کہا آپ تحریک انصاف کو چھوڑیں مجھے صرف ان سے ملوا دیں مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں مجھے تو بس عمران خان سے دلچسپی ہے وقت گزرنے لگا الیکشن آتے رہے اور تحریک انصاف وہاں سے ہارتی رہی کیونکہ دیہاتوں میں نظریاتی ووٹوں کو دیکھا جاتا ہے وہاں شاہ جی,سردار صاحب,خان صاحب اور پیر صاحب کے نام کو دیکھا جاتا ہے اور حقیقت میں یہی لوگ پھر لوگوں کے مسائل بھی حل کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ایم پی اے صاحب اور ایم این اے صاحب تو ووٹ لیکر غائب ھوجاتے ہیں اور اگر کوئی غلطی سے ان سے ملنے کیلئے چلا جائے تو سارا دن بیٹھ بیٹھ کر سوکھ جاتا ہے مجال ہے کہ پانی کے ایک گلاس کا بھی پوچھا جائے۔ یہ روایت سالہا سال سے چلی آرہی تھی لیکن عمران خان نے اس روایت اور وڈیرہ ازم کلچر کو پاش پاش کرکے رکھ دیا وہ دیہات اور گوٹھ جہاں نسل در نسل وڈے میاں اور سردار صاحب کو ووٹ جاتے تھے اب کے بار ووٹ مانگنے پر ان سے کارکردگی کے سوالات ھونے لگے پہلے ووٹ اس لیے دیے جاتے تھے کہ ھماری گلی کی نالیاں اور سولنگ پکے ھوجائیں گے ھمارے بجلی اور گیس کے میٹر لگ جائیں گے علاقے دا تھانیدار وڈا ظالم اے ساڈے منڈیاں تو پھڑ لیندا اے اونہاں نوں چھڈان لئی وڈے میاں تے سردار صاحب دی ضرورت پیندی سی تے اوہ منڈیاں نوں چھڑا آندے سن۔
عمران خان نے خواب غفلت میں سوئی قوم کو جگا دیا اور ان کی احساس محرومیوں کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا عمران خان نے ماؤزے تنگ کی طرح قوم کو یہ بتایا کہ کس طرح اپنے آپ کو بدلنا ہے اور پھر ایسا ہی ھوا جی حضوری کرنیوالی قوم نے حکمرانوں سے سوال پوچھنے شروع کردیے ان سے کارکردگی کا پوچھنا شروع کردیا ظاہر ہے یہ بات روائتی سیاستدانوں کو کیسے ہضم ھوسکتی تھی انہوں نے عمران خان کیخلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا لیکن قوم اب جاگ چکی ہے عمران خان نے قوم کو جگادیا ہے عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی کہا تھا کہ میں کسی چور یا ڈاکو کو NRO نہیں دوں گا اور جب میں ان پہ ہاتھ ڈالوں گا تو یہ سب اکٹھے ھوجائیں گے اس وقت سب کو یہی لگا کہ آہستہ آہستہ معاملات کنٹرول میں آجائیں گے اور کھایا پیا ہضم ھوجائے گا لیکن کھانے والے شاید بھول گئے کہ عمران خان جو کہتا ہے اس پہ ڈٹ جاتا ہے عمران خان مستقل مزاجی کا نام ہے لہذا جب فرداً فرداً کسی کی دال نہ گلی تو سب نے اکٹھے ھونے کا فیصلہ کیا اور PDM کی شکل میں گیارہ جماعتوں کا اتحاد قائم ھوا لیکن اسکے باوجود بھی عمران خان کے قدم متزلزل نہ کرسکے۔
دوسری طرف عمران خان نے جو واعدے قوم سے کیے تھے ان کی تکمیل دن بدن ھوتی جارہی ہے پچاس لاکھ گھروں کیلئے بڑے پیمانے پہ کام جاری ہے ایک کروڑ نوکریوں کیلئے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں جس وقت تحریک انصاف کو حکومت ملی خزانہ خالی ھوچکا تھا اور ملک قرضوں میں گھرا تھا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب آہستہ آہستہ معاشی استحکام آتا جارہا ہے اور ملک ترقی کی جانب گامزن ہے اپوزیشن کہتی تھی کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی لیکن اسی اناڑی شخص کی سیاست کی بدولت بھارت پوری دنیا میں بدنام ھوچکا ہے پاکستان میں اس وقت پینتالیس ممالک کی افواج امن مشقوں میں مصروف ہیں جبکہ بھارت کو یوم جمہوریہ بغیر کسی مہمان کے منانا پڑا کیونکہ کسی نے بھی آنے سے انکار کردیا۔
عمران خان نے اس ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کردیا ہے اپوزیشن نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ملکی سالمیت تک کو داؤ پہ لگایا ھوا ہے جس کی واضح مثال میاں نوازشریف اور مسلم لیگ ن ہے جنہوں نے اپنی سیاست بچانے کیلئے ملکی اداروں پر تنقید کے نشتر برسائے اور انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی تاکہ دوبارہ اقتدار حاصل کیا جاسکے مگر انہیں ناکامی ھوئی۔
الغرض مسلم لیگ ن,مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم کی سب جماعتیں باوجود کوشش کے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ھوسکیں لہذا ان کو اب یہ روش چھوڑنی ھوگی اور افہام و تفہیم کا رستہ اپنانا ھوگا ورنہ جس طرح کی سیاست ھورہی ہے یہ سب بند گلی میں جائیں گے اور واپسی کے تمام راستے بند ھوجائیں گے بہتری اسی میں ہے کہ تمام سیاست دان اس ملک کیلئے سیاست کریں کیونکہ یہ ملک ھوگا تو یہ سیاست بھی رہے گی اپنی سیاسی تحریک میں ملکی سلامتی کے اداروں کو نہ گھسیٹیں ان کا احترام کریں کیونکہ ادارے ہی اس ملک کی بقاء کی آخری لکیر ہیں پوری قوم اپنے اداروں کیساتھ ہے اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ھوئے انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے آپ بیشک عمران خان سے اختلاف کریں اور ان کی غلط پالیسیوں پر انہیں تنقید کا نشانہ بنائیں مگر اچھی اپوزیشن کی ایک خوبی ھوتی ہے کہ وہ اچھے کاموں پر تعریف اور غلط کاموں پر تنقید کرتی ہے آپ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا کی مثال ہی لے لیں جیسے ہی اس نے غلط کام کیا امریکی سیاستدانوں نے ان کیخلاف مواخذے کی تحریک پیش کردی یہ ھوتی ہے اپوزیشن یہ ہے زندہ قوم کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے شور مچانے اور دھاندلی کی رٹ لگانے کے باوجود انہوں نے اس کی ایک نہیں سنی اور اسے سیاست سے باہر پھینک دیا۔ امید ہے اپوزیشن اور حکومت بھی ملکر اس لڑائی جھگڑے کا خاتمہ کریں گے اور سب مل کر صرف اور صرف پاکستان کیلئے سیاست کریں گے۔