آئی جی اسلام آبادمحمد احسن یونس کی تعیناتی کے بعد جرائم میں اضافہ

 
0
283

اسلام آباد 16 جنوری 2022 (ٹی این ایس): اسلام آباد پولیس کی ناقص کارکردگی سے شہریوں کو مشکلات۔سیف سٹی کے دعوئے دھرےکے دھرے رہ گئے۔۔جرائم پیشہ افراد کیلئے اسلام آباد جنت۔۔شہریوں کیلئے جہنم بن گیا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈاکوؤں نے پولیس کی وردی میں 2 ڈکیتیاں کیں اور شہریوں کو قیمتی اشیاء اور غیر ملکی کرنسی سے محروم کر دیا۔ذرائع کے مطابق ماڈل پولیس کی طرف سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے تمام دعوئے جھوٹے ثابت ہورہے ہیں اسلام آباد میں تھانہ کوہسار کے علاقے میں وفاقی پولیس کی وردی میں 2 ڈکیتیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ ملزمان نے دونوں گاڑیوں کو تلاشی کے لیے روکا اور اپنا تعارف بطور پولیس اہلکار کروایا۔

بلیو ایریا میں 2 لوگ وفاقی پولیس کی وردی میں ایک شہری سے 500 ڈالر لے کر فرار ہوگئے جبکہ سعودی پاک ٹاور کے قریب 3 مبینہ اہلکار ایک فیملی سے 2400 ڈالر لوٹ کر فرار ہو گئے۔ ایف آئی آر درج کرانے والے شہریوں کا کہنا تھا کہ ملزمان پولیس کی وردی پہنے ہوئے تھے اور ان کے پاس وائرلیس بھی تھے۔ اسلام آباد پولیس میں سفارشی تعیناتیوں کی وجہ سے سارا نظام خراب ہوا پڑا ہے، سفارشی تعیناتیوں کی وجہ سے تفتیشی نظام بھی صحیح نہیں چل رہا، ایک افسر کی تعیناتی ہوتی تو اسکی جگہ دوسرے کو لگا دیا جاتا، ایک ایس ایچ او کا تبادلہ ہوتا اگلے چند روز میں اسے تھانے میں من پسند ایس ایچ او لگوا دیا جاتا اس کی تازہ مثال تھانہ سبزی منڈی کے ایس ایچ او کی ناقص کارکردگی پر معطلی کے صرف چند گھنٹوں سیاسی بنیاد پر دوبارہ تعیناتی ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد میں جرائم بے قابو ہو رہے ہیں اورمحکمہ پولیس صرف تبادلوں میں مصروف ہے گزشتہ دو ہفتوں میں تقریبا چار پولیس مقابلے ہو چکے ہیں، ڈکیتی ،چوری کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ،

آئی جی کھلی کہچری لگاتے ہیں ،عوام کو انصاف کی یقین دہانی کرواتے ہیں اگلے ہی روز پھر ڈاکو دن دہاڑے پولیس کو للکارتے ہوئے ڈکیتی کی واردات کرتے ہیں اور پولیس ڈاکوؤں کے جانے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچتی ہےاسلام آباد میں سال کے پہلے مہینے کےپندرہ روز میں ہی جرائم کے گراف میں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملاہے ڈکیتی ،نقب زنی ،راہزنی ،چوری ،فراڈ اور خیانت مجرمانہ کی 50سےزائد وارداتوں میں لاکھوں روپے کی نقدی ،زیورات اور دیگر قیمتی سامان کے علا وہ 5 کاریں اور 10مو ٹرسائیکل اڑا لیے گئے گزشتہ سال دو ہزار اکیس میں چار سو افراد زخمی ہوئے ،دوہزار اکیس میں اسلام آباد سے تین ہزار افراد کے موٹرسائیکل چوری ہوئے۔ دو ہزار بیس میں یہ تعداد صرف دو سو ستاسی تھی اغوا برائے تاوان کی چار وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جبکہ ڈکیتی اور رابری کی 2174 وارداتیں اورچوری اور نقب زنی کے پانچ سو واقعات رپورٹ ہوئے۔، 2022 میں اسلام آباد پولیس نے پرانے واقعات کے 84 مقدمات بھی درج کیے ہیں,گزشتہ کئی وارداتوں کی ایف آئی آر بھی نہیں درج کی گئی اور کہاجاتاہے صرف پولیس رپٹ ہی درج ہوگی گزشتہ روز ایک سینئر صحافی کی دوران خریداری جیب کٹ گئی جب وہ تھانہ آبپارہ گئے تو بتایاگیاکہ اسلام آباد میں جرائم کی شرح کو کم دکھانےکیلئے ایف آئی آر کا اندراج آئی جی اسلام آباد کی ہدایت پر نہیں کیاجاتا ہے بلکہ ایسی واردتوں کا سدباب کرنے کے بجائے کرائم کی وارداتوں کو گمشدگی میں ظاہر کرکے شہریوں کو ٹال دیاجاتاہے

اسلام آباد میں شہری خود کو غیرمحسوس محفوظ کررہے ہیں,واضح رہے کہ چند روز پہلے وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی بھی اسلام آباد پولیس کے خلاف بول اٹھے .اعظم سواتی نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے ایک بے گناہ شہری کو 6 دن کیلیے جیل بھیجا ،آئی جی کو بلایا جائے کمیٹی سب سے اہم فورم ہے کوئی اسے نظر انداز نہیں کرسکتا چیئرمین کمیٹی محسن عزیز نے کہا کہ ہم ایوان کو 21 رپورٹس ارسال کر چکے ہیں ہم نے 6 ماہ میں کمیٹی کے 15 اجلاس کیے قاضی جمیل الرحمان کی جگہ محمد احسن یونس کو آئی جی اسلام آباد تعینات کیا گیا لیکن تاحال اسلام آباد پولیس جرائم پر قابو نہ پاسکی۔سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت اسلام آباد کی تمام مرکزی شاہراہوں پر 11 سو سے زائد کیمرے نصب کیے گئے تھے لیکن پولیس ذرائع کے مطابق اس وقت 35 فیصد کیمرے خراب ہیں اور صرف 65 فیصد ہی کیمرے کام کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد افضال احمد کوثر نے انکشاف کیا ہے کہ سیف سٹی کیمرے اسلام آباد کو صرف 30 فیصد کور کرتے ہیں، پورے وفاقی دارالحکومت کو نہیں۔واضح رہے کہ سیف سٹی کا منصوبہ گزشتہ ایک دیہائی سے موضوع بحث ہے اور برسراقتدار رہنے والی جماعتیں تواتر کے ساتھ دعوے کرتی رہی ہیں کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ بنا دیا گیا ہے۔افسوسناک امر ہے کہ گزشتہ دنوں شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کے باعث شہریوں کے اذہان میں ایک مرتبہ پھر یہ سوال پوری شدت سے پیدا ہوا ہے کہ سیف سٹی منصوبے کی موجودگی میں جرائم پیشہ عناصر کیسے اور کیونکر کامیاب ہو رہے ہیں؟