چینی کمیونسٹ پارٹی کےرہنما کی آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقات میں سی پیک پر اہم پیش رفت

 
0
2670

اندر کی بات؛ کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 02 جولائی 2022 (ٹی این ایس): چینی کمیونسٹ پارٹی کےرہنما کی آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقات میں سی پیک پر اہم پیش رفت کے اشارے ملے ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاعید باجوہ کے کامیاب دورہ چین کے بعد ماہرین چینی راہنما کو دورہ پاکستان کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں اور شنید ھے سی پیک سے متعلق تمام خدشات پاک فوج کے سربراہ نے دور کردئیے ہیں جس کے باعث سی پیک پروجیکٹ کے مختلف منصوبے پر کام تعطل کا شکارتھا۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی مرکزی کمیٹی کے پولٹ بیورو کے رکن اور خارجہ امور کے مرکزی کمیشن کے ڈائریکٹر چائنا یانگ جیچی کی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گزشتہ دنوں جی ایچ کیو میں چینی رہنما پر مشتمل وفد ن ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور، دفاعی تعاون، سی پیک پر پیش رفت ۔ علاقائی سلامتی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرباجوہ نے کہا کہ پاکستان عالمی اور علاقائی معاملات میں چین کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہم اپنی تزویراتی شراکت داری کو بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ چینی رھنگ نے پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی اور علاقائی استحکام کی کوششوں کے لیے کیے گئے خصوصی اقدامات پر جنرل قمر جاوید باجوہ کا شکریہ ادا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی مرکزی کمیٹی سیاسی بیورو کے رکن اور مرکزی کمیٹی برائے خارجہ امور، چین کے ڈائریکٹر یانگ جیچی نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کیلئے محفوظ ماحول کی فراہمی اور علاقائی استحکام کی کوششوں کے لئے کئے گئے خصوصی اقدامات پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا۔ خیال رہے کہ 14 جولائی 2021 کو کو خیبرپختونخوا (کے پی) کے علاقے داسو میں زیر تعمیر 4 ہزار 300 میگاواٹ کے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر تعمیراتی ٹیم کو لے کر جانے والی ایک کوچ بالائی کوہستان میں دھماکے کے بعد دریا میں جا گری تھی جس کے نتیجے میں 9 چینی، 4 مقامی افراد ہلاک اور 28 زخمی ہوئے تھے۔داسو منصوبے پر کام کرنے والی چینی تعمیراتی کمپنی نے کچھ وقت کے لیے ڈیم منصوبے پر کام معطل کردیا تھا اور منصوبے پر کام کرنے والے پاکستانی ملازمین کو برطرف کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔پاکستان اور چین داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سمیت چین کے اشتراک سے جاری دیگر ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کےلئے پرعزم ہیں۔اس سے قبل چینی حکومت کی جانب سے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی وفد نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز اور نئے سیکیورٹی منصوبے پر نظرِ ثانی کے لیے جائے وقوع کا دورہ کیا تھا۔چینی وزارت خارجہ کے شعبے بیرونی سیکیورٹی امور کے ڈائریکٹر جنرل وو ویی، دیگر چینی عہدیداروں کے ہمراہ بالائی کوہستان کے ضلعی ہیڈ کوارٹر پہنچے اور وہاں سے بارسین گئے’۔ خارجہ امور کے مرکزی کمیشن کے ڈائریکٹر چائنا یانگ جیچی نے پاکستان کیساتھ ہر سطح پر سفارتی تعاون میں مزید بہتری کیلئےکردار ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان عالمی اور علاقائی معاملات میں چین کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہم اپنی تزویراتی شراکت داری کو بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کیلئے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کیساتھ تعاون کیلئے پرعزم ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ پاک فوج ہمارے دوست چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی بہت قدر کرتی ہے اور پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں سے مکمل تعاون اور سلامتی کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کراتی ہے۔انہوں نے کہا کہ گوکہ ہم امن کے لیے کوشاں ہیں لیکن ہمیں ملک دشمن عناصر خصوصاً پاک چین اسٹریٹجک تعاون کے لیے خطرہ بننے والے تمام عناصر کے خلاف مضبوط رہنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں یانگ جیچی نےوزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں خارجہ اُمورکمیشن کے ڈائریکٹر یانگ جیچی نے کہاکہ چینی قیادت کانیک تمناؤں کا پیغام لایا ہوں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے چین کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے،چین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کیلئے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کیساتھ تعاون کیلئے پرعزم ہے۔ خیال رہےکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی)کو چینی کمیونسٹ پارٹی بھی کہا جاتا ہے، یہ عوامی جمہوریہ چین کی بانی اور حکمران سیاسی جماعت ہے۔ کمیونسٹ پارٹی برعظیم چین کے اندر واحد حکومتی جماعت ہے، جس نے صرف آٹھ دوسری مختص شدہ سیاسی جماعتوں کو قائم رہنے کی اجازت دی ہے۔ اسے 1921 میں چیف ڈوچی اور لی دوظو کی طرف سے قائم کیا گیا تھا۔ تھوڑے عرصے میں پارٹی تیزی سے بڑھ گئی اور 1949ء کے دوران اس نے چین خانہ جنگی کے بعد قوم پرست کومتانگ حکومت کو برعظیم چین سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہ پارٹی دنیا کی سب سے بڑی مسلح افواج، پیپلز لبریشن آرمی کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ پارٹی کو سرکاری طور پر روسی مارکسی لینن کے وضع کردہ جمہوری مرکزیت کے اصول کی بنیاد پر منظم کیا جاتا ہے، اس اصول کے مطابق پالیسیوں پر متفق اتحاد کے لیے جمہوریت اور کھلی گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔ پارٹی کا بالائی ادارہ قومی کانگریس ہے جس کا اجلاس ہر پانچ سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ جب قومی کانگریس کا سیشن نہ ہو رہا ہو تو مرکزی کمیٹی سب سے زیادہ بااختیار ہے لیکن چونکہ مرکزی کمیٹی کا اجلاس عام طور پر سال میں صرف ایک بارہوتا ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر فرائض اور ذمہ داریاں پولٹ بیورو اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کے پاس ہیں جن کی مستقل کمیٹیاں موجود ہیں۔ پارٹی کا رہنما جنرل سیکریٹری (سیاسی معاملات کے ذمہ دار)، چیئرمین مرکزی فوجی کمیشن(فوجی معاملات کے ذمہ دار) اور رسمی ریاستی صدر ہوتا ہے۔ پارٹی کا موجودہ رہنما شی جن پنگ ہے جسے اکتوبر 2012ء میں میں منعقد 18 ویں قومی کانگریس میں منتخب کیا گیا۔علاوہ ازیں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے چین کے اعلیٰ سطحی وفد کا دفتر خارجہ میں استقبال کیا جس کی قیادت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی مرکزی کمیٹی کے پولٹ بیورو کے رکن اور خارجہ امور کے مرکزی کمیشن کے ڈائریکٹر نے کی۔ اس موقع پر دونوں فریقوں نے دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر وسیع پیمانے پر گفت و شنید کی اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا جامع جائزہ لیا۔ ڈائریکٹر یانگ کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا دورہ حالیہ مہینوں میں اعلیٰ سطح کے تبادلوں کی مضبوط رفتار کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں فریقوں کی جانب سے غیر متزلزل اور سدا بہار اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ کو مزید مستحکم کرنے کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ۔ انہوں نے “ون چائنا” پالیسی اور تائیوان، تبت، سنکیانگ، ہانگ کانگ اور بحیرہ جنوبی چین سمیت چین کے تمام بنیادی ایشوز پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا خیال رہےکہ سی پیک وہ منصوبہ ہے جس کو جتنی بھی گہرائی میں جس بھی طریقے سے اور جیسے مرضی پڑھ لیں یہ منصوبہ پاکستان کے مفاد میں نظر آئے گا گزشتہ حکومت نے گوادر کی ترقی کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا، جبکہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد گوادر کی ترقی کو تیز کرنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی اور اس سلسلے ایک جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے سی پیک پاکستان اور چین کی کئی دہائیوں پرمحیط قریبی اور مضبوط تعلقات کا مظہر ہے ۔ باہمی تعاون کو مزید آگے بڑھانے کے لیے سی پیک سیکرٹریٹ کو ایک اتھارٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، جو وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کے نیچے کام سر انجام دے گی ، جس کا کام مختلف شعبہ جات میں تعاون بڑھانا اور مستقبل میں سی پیک کے منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا سی پیک کے مفاہمتی یادشت کے تحت پاکستان کی طرف سے وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کا کلیدی کردار برقرار رہے گا جبکہ چین کی جانب سے این ڈی آر سی کا کلیدی کردار ہو گا ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کو یہ منصوبہ کسی بھی صورت قبول نہیں وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے شب و روز ایک کیے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت الحال کو خراب کرنے کے لیے دہشت گروں کی مالی سپورٹ کر رہا ہے جسکا واضح ثبوت کلبوشن یادو ہے جسے ہمارے خفیہ و عسکری اداروں نے بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔سی پیک(چین، پاکستان اکنامک کوریڈور)میں چین کی طرف سے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی جارہی ہے جو کہ 46ارب ڈالر ہے ۔یہ منصوبہ اک طرح سے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کہ طاقتوں کا توازن پاکستان اور چین کی جھولی میں ہوگا۔اس وقت جنگیں معاشی لحاظ سے لڑی جارہی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اسی ملک کا پلڑا بھاری ہوگا جس کی معیشت مضبوط ہوگی ۔سی پیک منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے پاک چین اقتصادی راہداری تجارتی منصوبہ کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے موجودہ حکومت سی پیک کے تحت تمام منصوبوں اور معاہدوں کی تکیمل کے لیے پر عزم ہے چین پاک بزنس کونسل کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جس سے دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کے درمیان کاروباری روابط قائم ہونگے اور صنعتی تعاون میں تیزی آئے گی جس کا فائدہ سی پیک کے جاری منصوبوں کوہو گا ۔ چین کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ فیز 2 ہو چکا ہے جس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا پاکستان چین کے ادارے سیڈکا کی جانب سے دیے جانے والے سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے 1 ارب ڈالرز کی گرانٹ وصول کرنے والا پہلا ملک ہے جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے اور دونوں مماملک کے درمیان مظبوط دوستی کا عکاس ہے ۔ سماجی و معاشی ترقی کی گرانٹ کے تحت 4 ہزار سولر جنریٹر یونٹس پاکستان میں آ چکے ہیں جو بلوچستان کے مختلف شہروں بشمول گوادر میں تقسیم کیے جائیں گے موجودہ حکومت سی پیک کے تحت اسپیشل اکنامک زون کی جلد تعمیر کے لیے پر عزم ہے اور اس مقصد کے لیے 18 ارب روپے کی لاگت کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں پی ایس ڈی پی ایک کثیر رقم مختص کی گئی ہے سال 2015 سے لے کر آج تک پاکستان نے توانائی کے 21 منصوبوں پر دستخط کیے اور ان میں سے 15 مکمل ہوچکے ہیں۔ دیگر قلیل مدتی منصوبے جو سڑکیں ہیں ، گوادر کی ترقی اور آپٹیکل فائبر کیبل 2022 میں مکمل ہوجائے گی۔ 2025 تک کے درمیانے منصوبے اور صنعتی زون اور 2030 تک کے طویل مدتی منصوبے ، صنعتی زون ، زراعت ، سیاحت وغیرہ کی تکمیل ھوگی۔ منصوبے پر 5.34 بلین ، سی پیک ریلوے منصوبوں پر 8.327 بلین ڈالر اور فائبر آپٹکس کیبل پر $ 44 ملین ڈالر شامل تھے۔ اس کے علاوہ خصوصی اقتصادی زون پر 793 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔ جس میں توانائی کے تقریبا تمام منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔اس کے بعد سی پیک میں بہت سارے منصوبے شامل ہوئے اور اس میں مجموعی طور پر 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہےچین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) دُنیا میں جاری اس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جسکی ابتدائی مالیت چھیالیس ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر باسٹھ ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر و انصرام شامل ہے جسکی تکمیل، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔سی پیک کے تحت پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔32 منصوبے اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان منصوبوں میں توانائی کے 22 پروجیکٹ شامل ہیں جبکہ بیس ارب ڈالر کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگا واٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔اقتصادی منصوبوں کے لیے چھیالیس ارب ڈالر کی رقم میں سے تینتیس ارب ڈالر کی چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے جبکہ بارہ ار ب ڈالر کا سستا ترین قرضہ بھی دیا جائے گا جو پندرہ سے بیس سال کی مدت میں آسان ترین شرائط پر واپس کیا جاسکے گا۔ یہ راہداری منصوبہ(سی پیک) پندرہ سال کے لیے ہے۔ پاکستان، ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس اقتصادی راہداری منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ گوادر پورٹ مکمل ہونے پر دوہزار تیس تک پاکستان کو تقریباًنو سے دس ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہو گا سی پیک (چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور) پاکستانی معیشت اور اس کے عوام دونوں کے لیےامید کی روشنی ہے۔ پروجیکٹ جو چینی صدر کے اپریل2015 میں پاکستان کے دورہ سے شروع ہوا۔سی پیک چائنا میگا پروجیکٹ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک حصہ ہے جو 70 سے زیادہ ممالک اور دنیا کی تقریبا 65 فیصد آبادی کو جوڑتا ہے سی پیک کے تحت پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔32 منصوبے اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان منصوبوں میں توانائی کے 22 پروجیکٹ شامل ہیں جبکہ 20 ارب ڈالر کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگا واٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔ پاکستان کا آج جو جی ڈی پی ہے وہ آج سے40 سال قبل چین کا تھا۔ چین اقتصادی لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال مکمل ہونے پر انتہائی شان و شوکت سے جشن منایا گیاضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے بڑے منصوبوں کے لیے محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیےیہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے علاوہ چینی حکومت خطے میں پانچ اور کوریڈور بھی بنارہی ہے ۔ ان کوریڈورز میں (1) چین سینٹرل ایشیاء،ایسٹ ایشیاء اکنامک کوریڈور ، (2) چین منگولیا اکنامک کوریڈور ، (3)چین انڈو چائنا پیننسیولااکنامک کوریڈور،(4) چین بنگلہ دیش انڈیا میان مارکوریڈوراور (5) نیو ایروایشیاء لینڈبرج کوریڈورشامل ہیں۔ یہ کوریڈورز زیادہ ترانفراسٹکچر سے متعلق ہیں جبکہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور میں توانائی کے منصوبے اس کوریڈور کو دیگر کوریڈورز سے منفرد بناتے ہیں ۔