چینی شہریوں کا تحفظ پاک فوج کی ترجیح

 
0
637

اندر کی بات؛ کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 02 جولائی 2022 (ٹی این ایس): حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ متعارف کراتے ہوئے تقریباً 14 نکات پر خاص زور دیا گیا ۔ان میں سے ایک سی پیک کے تحت نئے منصوبے شروع کرنے کے بارے میں ہے۔ جس کے بارے میں حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ ان منصوبوں کے لیے مزید فنڈز جاری کیے جائیں گے اور ان پر جلد کام شروع کیا جائے گا۔ سی پیک منصوبوں میں محتاط رویے کی ایک واضح کڑی چینی افراد پر ہونے والے حملوں سے جڑتی ہے14 جولائی ، 2021کو برسین لیبر کیمپ سے داسو جانے والی گاڑی حادثے میں چینی شہریوں سمیت 12 افراد جاں بحق ہوگئےتھےدوسری جانب چین نے کہا کہ اگر چینی انجینیئرز کی بس کو پیش آنے والا حادثہ دہشتگردوں کا حملہ تھا تو اس میں ملوث مجرموں کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جانی چاہیے اور اس واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے چین، پاکستان تعاون کے منصوبوں پر سکیورٹی کو مزید بڑھانا چاہیے تاکہ ان منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔خیال رہے کہ 19 جولائی‬‮ 1202 کو آرمی چیف نے داسو بس حادثے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چینی سفیر سے داسو بس حادثے اور چینی شہریوں کی ہلاکت پر چینی حکومت اور عوام سے واقعے پر دلی ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہہ پاک فوج اپنے دوستانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتی ہے اسی لیے پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ امن کےلیے کام کرتے ہوئے ہمیں دشمن کے عزائم ناکام بنانے ہوں گے، پاک چین اسٹراٹیجک تعاون میں خطرہ بننے والی سازشیں بھی ناکام بنانا ہوں گی رواں سال جنوری سے بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے جاری حملوں میں سے ایک حملہ کراچی یونیورسٹی میں چینی انسٹیٹیوٹ پر اپریل میں ہوا تھا۔ ان حملوں کا ایک اثر اس بات پر پڑا کہ منصوبوں پر کام کرنے والے چینی مزدوروں یا انجینئیرز کو فوری طور پر پاکستان سے واپس چین بھیجا گیا اور ’افسران کو اسلام آباد تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی۔‘ .وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے، اس نے ہمیشہ ہماری حمایت کی، چینی شہریوں ک اتحفظ اولین ترجیح ہے، کراچی حملے کے ملزمان کٹہرے میں لائیں گےکمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کےڈائریکٹر خارجہ امور کمیشن سے ملاقات میں شہباز شریف نے سی پیک منصوبوں کی جلد تکمیل کے عزم کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ چین کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا، عوام کی بہبود کے مشترکہ وژن کوعملی جامہ پہنچانے کیلئے چین کے ساتھ مل کرکام کرنے کیلئے تیار ہیں، دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی تعاون پاک چین شراکت داری کی بنیاد بن چکا ہےخیال رہے کہ گزشتہ حکومت کے پونے چار سال میں اس منصوبے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔پچھلے تین سال میں سی پیک کے کسی نئے منصوبے پر کام شروع نہیں ہوااب تک وزیرِ اعظم شہباز شریف دو بار گوادر کا دورہ کر چکے ہیں اور سی پیک کے منصوبوں سے متعلق کئی بار بات کی گئی ہے۔ باور کرایا گیا ہے کہ اس بار یہ منصوبے بر وقت پورے کیے جائیں گے۔ یہ بات وہ کسی وجہ سے کررہے ہیں۔ انھیں چین کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہو گی وزیر اعظم نے کہنا تھا کہ جو چینی سرمایہ کاری ہو رہی ہے وہ یہاں کی ترقی کے لیے ہو رہی ہے اور یہ سب کچھ پاکستان کی ترقی کے لیے ہے۔ ہم 75 سال میں اپنے پاﺅں پرکھڑے نہیں ہو سکے۔ چین نے دو ارب ڈالر سے زائد کے اچھے شرائط پر قرضہ دیا۔ ہم کب تک قرضہ لیں گے ان کا کہنا تھا کہ چین کے وزیر اعظم سے میری ایک گھنٹہ بات ہوئی۔ پونے گھنٹے تک بات چیت کے دوران چینی وزیراعظم نے مجھے کہا کہ آپ سے پہلی بار گفتگو ہوئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ ہچکچا رہے ہیں۔میں نے چینی وزیر اعظم کو انگریزی میں کہا کہ آپ یہ سمجھیں گے یہ اچھے دوست ہیں کہ پھر کشکول لے کر آئے ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر ہمیں اچھی شرائط پر خطیر رقم کا قرض دیا۔

انھوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک بات ہے کہ دوست آکر مدد کریں اور پھر دشمنان پاکستان ان کے انجنیئروں کو نشانہ بنائیں ۔یہ ہو نہیں سکتا۔ اس کی نہ مجھے اجازت دینی چائیے اور نہ آپ کو۔خدانخواستہ ایسی بات نہیں کہ چین ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح یہاں اپنی اجارہ داری قائم کر رہا ہے۔ قطعاً ایسی بات نہیں ہے بلکہ چین ہمارامخلص دوست ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں سرمایہ کاری، کروڑوں لوگوں کو روزگار دینے کی ضرورت ہے اور جو لوگ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں اور بدلے میں ہم یہ رویہ اختیار کریں کہ ان کے انجینیئروں اور کارکنوں کو ماریں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ کسی کو الزام نہیں دینا چاہتے ہیں لیکن ایسا کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں جو یہاں دوست ممالک کے خلاف آکر کسی کو آلہ کار بناتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کرنے والا کوئی دوست ملک ہو یا کوئی اور ملک ہو ہمیں ان کے لوگوں کو اپنا مہمان سمجھنا چاہیے اور ان کا اسی طرح تحفظ کرنا چاہیے جس طرح ہم اپنا اور اپنے بچوں کی تحفظ کرتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت جس میں مسلم لیگ نون بھی شامل ہے، سی پیک کے منصوبوں میں خاص دلچسپی اس لیے بھی لیتی ہے کیونکہ سی پیک کی ابتدا ان کے دورِ حکومت یعنی سنہ 2013 میں ہوئی تھی۔ اس وقت سی پیک کے تحت منصوبوں کی تعداد 21 ہے، جن میں سے 10 پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ چھ منصوبے زیرِ تعمیر ہیں اور باقی رہ جانے والے زیرِ غور ہیںان تمام جاری یا زیرِ غور منصوبوں میں بجلی (ہائیڈرو پاور، سولر، تھر کول (یعنی کوئلہ) اور وِنڈ پاور) منصوبوں کی تعداد زیادہ ہےان منصوبوں میں 70 فیصد سرمایہ بجلی میں لگایا گیا ہے اور رہ جانے والے اور زیرِ غور منصوبوں میں بھی بجلی کے منصوبے زیادہ ہیں۔ گزشتہ روز720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی منصوبے نے کام شروع کر دیا ہے سی پیک منصوبوں کی کُل تعداد کے حوالے سے حکومت نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان منصوبوں پر لگنے والی رقم 49 ارب ڈالر ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف سے چینی سرکاری کمپنی نورینکو کے وفد نے ملاقات کی، چینی وفد کی قیادت نورینکو انٹرنیشنل کے نائب صدر مسٹر وانگ شیاؤ بنگ اور سی ای او نورینکو انٹرنیشنل (پاکستان) مسٹر لی چن نے کی۔،وزیراعظم نے دونوں دوست ممالک کے باہمی فائدے اور ترقی کے لیے سی پیک کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ وزیراعظم نے چینی کمپنیوں کو پاکستان میں قابل تجدید توانائی بالخصوص شمسی توانائی کے وسیع امکانات میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی۔ نورینکو کمپنی پاکستان میں بجلی اور قابل تجدید توانائی، انفراسٹرکچر، ٹیلی کام، کان کنی اور آئی ٹی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہےوفد نے پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی انتھک کوششوں کی تعریف کی۔وزیراعظم شہبازشریف کی کاروباری دوست پالیسیوں نے اقتصادی تعاون کو مضبوط کیا اور ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنایا۔نورینکو کے وفد نے پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے وسیع میدان میں سرمایہ کاری کرنے میں گہری دلچسپی ظاہرکی۔سی پیک دنیا کا سب سے بڑا معاشی و تجارتی منصوبہ ہے یہ ہزاروں کلومیٹر ریلویز، موٹرویز، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔ یہ منصوبوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کے تحت جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل ممکن ہو جائے گی۔ اس سے قبل چین مشرق وسطیٰ کی منڈیوں تک اپنا جوسامان بھیجا کرتا تھا وہ جو بحیرہ جنوبی چین کے طویل راستے سے ہوتے ہوئے بارہ ہزار کلو میٹر کی مسافت طے کرکے وہاں پہنچتا تھا۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کی بدولت یہ فاصلہ بمشکل تین ہزار کلو میٹر رہ جائے گا۔ فاصلے کے گھٹنے سے چائنہ کو سالانہ 20 ارب ڈالر بچت صرف تیل کی درآمد میں ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مد میں 5 ارب ڈالر یعنی پانچ کھرب روپے سالانہ ملیں گے۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل دے گا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے سے کئی ممالک کی ترقی منسلک ہے۔ چونکہ چین سے یورپ تک کا سمندری سفر 42 دنوں کا ہے جبکہ اس منصوبے کی تکمیل سے یہی سفر 10 دنوں کا رہ جائے گا۔ وقت، وسائل اور اخراجات کی کمی سے تجارت کو منفعت بخش بنایا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو روس سمیت کئی وسط ایشیائی ریاستیں اور دوسری طرف بھارت، ایران اور کئی یورپی ممالک اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترک صدر طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقعہ پہ پاکستان نے پیشکش کی کہ ترکی بھی اس منصوبے کا حصہ بنے۔اس منصوبے میں دیگر کئی منصوبہ جات شامل ہیں۔ 32منصوبے 2018ء تک مکمل ہو جائیں گے ان منصوبوں میں توانائی کے 22 پروجیکٹس بھی شامل ہیں۔ 20 ارب ڈالر کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگاواٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا بڑی حد تک خاتمہ ہو سکے گا۔ وفود میں مذاکرات کے دوران جن منصوبوں پر دستخط ہوئے ان میں، گوادر پورٹ، مواصلاتی انفراسٹرکچر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور غذائی تحفظ سمیت متعدد شعبوں میں تعاون بڑھانے کے منصوبے شامل ہیں اور قراقرم ہائی وے کی اَپ گریڈیشن کی جائے گی۔ اقتصادی منصوبوں کیلئے 46 ارب ڈالر کی رقم میں سے 33 ارب ڈالر کی چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے جبکہ 12 ارب ڈالر کا سستا ترین قرضہ دیا جائے گا جو 15سے 20 سال کی مدت میں آسان ترین شرائط پر واپس کیا جائے گا۔
سی پیک کی افادیت سب پر عیاں ہے اور اسکی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ خاص طور پہ امریکہ اور انڈیا کو اس منصوبے سے مروڑ اٹھ رہے ہیں کیونکہ چین اس منصوبے کی تکمیل سے ان دونوں ممالک کی محتاجی سے نکل آئے گا۔ چونکہ ایشیا اور افریقہ دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے تو روس بھی اس خطے میں تجارت کرنا چاہتا ہے۔ اس کیلیے اس کے پاس صرف دو راستے ہیں ایک ایران کی چاہ بہار اور دوسری گوادر پورٹ، مگر چاہ بہار کی گہرائی محص 11 میٹر ہے جو وسیع تر تجارتی مقاصد کیلیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ اس لیے روس بھی اس منصوبے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ اگرچہ بھارت اور ایران ملک کر چاہ بہار پورٹ بنا رہے ہیں مگر جلد یا بدیر وسط ایشیائی ریستوں اور روس کو گوادر کی وجہ سے پاکستان پہ انحصار کرنا پڑے گا۔اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک اندازے کے مطابق روزانہ اسی ہزار ٹرک چین، روس اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک سے گوادر کی طرف آمدورفت کرینگے۔ پاکستان کو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں 20 سے 25 ارب کی بچت ہوگی۔ اکنامک کوریڈور کے قریب بہت بڑے انرجی زون بنیں گے، کئی صنعتی اور تجارتی مراکز قائم ہونگے تو لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔ اس کے علاوہ اتنے لمبے روٹس پر صرف کینٹین، ٹائر پنکچر اوردیگر سروسزسے بھی ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار مل جائیگا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان پوری دنیا کے تیل، گیس اورایگریکلچرل،صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن چکا ہے۔سی پیک منصوبے کی تیزی سے تکمیل کیلیے کام تیزی سے شروع ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ گودر پورٹ کے مکمل ہونے پر پاکستان کو تقریباً 9,10 ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہو گا اور 20,25 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا اور صنعتی ترقی کا پہیہ چلے گا اور عوام کی خوشحالی کا باعث بنیں گے۔حکومت اور چین کی سیکوریٹی اتھارٹیز نے سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے چائنیز شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے صوبے میں سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے چائنیز کی فول پروف سیکورٹی کےلئے جامع میکنزم تیار کیا جائے گا