امریکی صدر کے پاکستان پر الزامات:اپوزیشن کا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے اور قراردادلانے کا مطالبہ

 
0
387

اسلام آباد:اگست30(ٹی این ایس) جنوبی ایشیاءکے لیے نئی پالیسی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات پرقومی اسمبلی بحث جاری ہے قائدحزب اختلاف سیدخورشید شاہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا مشترکہ اجلاس ہوتا تو مشترکہ اور طاقتور قرارداد لائی جاسکتی تھی ’ہماری تجویز تھی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا، عید کے بعد مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ہمسائیوں کو سامنے رکھ کر قرارداد لانی چاہیے،اور جذبات میں آکر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ آج کی بحث وزیر خارجہ خواجہ آصف کو شروع کرنی چاہیے تھی، چار سال میں جو ناکامی ہوئی اسے ماننا چاہیے ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے خارجہ سفارتی چینل کو بالکل استعمال نہیں کیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ ہماری سیاسی جنگ ہے اس میں توپیں نہیں کھڑی کرنی چاہیئیں بلکہ سوچنا ہوگا کہ امریکا ہمیں کیوں دھمکیاں دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے پڑوسی ممالک اور ماضی کو بھی سامنے رکھنا چاہیے پاکستان کی آزادانہ حیثیت کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمنشر عبدالباسط کی جانب سے امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کو لکھے گئے خط پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عبدالباسط کا خط حکومت کی ناکامی ہے۔امریکا میں پاکستانی سفیر کے لیے جو خط لکھا گیا یہ مذاق ہے، کیاواشنگٹن اور دہلی کے پاس یہ خط نہیں گیا ہوگا، یہ گورننس کی ناکامی ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی پالیسی کمزور ہو تو خارجہ پالیسی بھی کمزور ہوتی ہے، بجائے جذبات کے ٹھنڈے ذہن کے ساتھ معاملات کو دیکھنا چاہئے۔1971 میں ہم نے ہتھیاروں کی جنگ ہاری ،5ہزار مربع میل زمین چلی گئی۔اپنی غلطیوں سے ہم پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن گنوا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ گزشہ چار سال میں خارجہ پالیسی کیوں کمزور ہو گئی،ہم اپنی غلطیوں سے اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں،جن کے ساتھ ہمارے بارڈر لگتے ہیں ان سے ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں، ہمارے ہمسائے ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں،ہتھیاروں سے زیادہ سیاسی جنگ اہمیت رکھتی ہے۔

خورشید شاہ نے کہاکہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر اسمبلی کا اجلاس ہونا چاہئے تھا، پاکستان کی آزادانہ حیثیت کو سامنے رکھنا چاہئے،ہمیں اپنے ہمسائیوں کو بھی سامنے رکھ کر قرارداد لانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا مطالبہ تھاوزیر خارجہ لگایا جاتا، مسلم لیگ میں کافی با صلاحیت لوگ موجود ہیں، لیکن ایک وزیر خارجہ نہیں ملا،دفتر خارجہ لاوارث تھا۔مسلم لیگ نون کے سنیئرراہنماءاور سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ان الزامات کے ثبوت پیش کیے جائیں بغیر ثبوت کے اعتماد بحال نہیں ہوسکتا۔

چوہدری نثار نے مطالبہ کیا کہ امریکا سے 10 سال میں جتنی امداد آئی ہے اس کا آڈٹ ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ میں 500 ملین ڈالر کی بات کی جاتی ہے جبکہ صرف 200 ملین ادا کیے جاتے ہیں، ’پچھلے 20 سال میں پاکستان کو لاکھوں ڈالر نہیں مونگ پھلیاں ملی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تعاون چاہتا ہے لیکن یہ تعاون یک طرفہ، اور دشمنوں کے ایجنڈے پر نہیں ہوسکتا ۔قائم مقام نائب وزیر خارجہ اور پاکستان افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی ایلس ویلز کے دورہ پاکستان ملتوی کرنے کو اچھا اقدام قرار دیتے انہوں نے کہا کہ ایسا نہ ہو عید کے بعد وہ پھر دورہ کریں اور وزیر خارجہ، وزیراعظم اور آرمی چیف کو کال آن کریں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ پہلے مرحلے میں رابطہ سرکاری ہونا چاہیے الزامات پر ثبوت دیے جائیں ہم انہیں کلیئر کریں گے۔افغانستان میں عدم استحکام پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ افغانستان میں حالات پاکستان کی وجہ سے خراب نہیں بلکہ لاغر حکومت کی وجہ سے ہیں جس کا ملک کے ستر اسی فیصد حصے پر کنٹرول ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس معاملے میں شامل کرنا افغانستان کو غیرمستحکم کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے ’بھارت کی نہ افغانستان سے کوئی سرحد ملتی ہے نہ کوئی تعلق ہے لیکن ہم نے راستہ دیا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا افغانستان کے استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا۔

چوہدری نثار کے مطابق مفاد کی خاطر چپ رہنے کی وجہ سے بار بار قیمت ادا کرنا پڑی ہے لیکن اس بار سب یک زبان ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ قرارداد سے کچھ نہیں ہوگا بیانیہ بنائیں، وزارت خارجہ کو بلائیں، حکومت اپوزیشن ادارے بیٹھیں اور یک زبان ہو کر جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تباہی میں ہمارا اپنا ہاتھ بھی ہے ،پاکستان کو یہاں پہنچانے میں ہمارا اپنا کردار بھی بہت واضح ہے۔تاہم پاکستان کوئی خستہ حال مکان نہیں ،بھارت میں کیا ہورہا ہے ،امریکا اس کو نہیں دیکھتا ، ایک پٹاخہ بھی چلے تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان ملوث ہے،افغانستان میں امریکی ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان نہیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ کیاامریکا پاکستان سے پوچھ کر افغانستان میں نہیں آیاتھا؟امریکا کی افغانستان میں مذاکرات ،سفارتی ہر پالیسی ناکام ہوئی۔ امریکا خود مذاکرات کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کرے تو مخالفت کرتاہے۔امریکا کی افغانستان میں پالیسی پاکستان کی وجہ سے ناکام نہیں ہوئیں۔ہمیں محاذآرائی نہیں کرنی چاہیے ،دلائل اور حقائق سے لڑنا چاہیے۔چوہدری نثار نے کہا کہ جب یہاں ڈکٹیٹر کی حکومت تھی تو امریکااربوں ڈالر دیتاتھا ،کم از کم دس محفوظ پناہ گاہیں افغانستان کی سرحد میں ہیں،کمیٹی بنائی جائے جوافغانستان میں ان ٹھکانوں کی نشاندہی کرے جہاں کارروائیاں ہوتی ہیں۔

انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سے امریکا میں اپنے ہم منصبوں کو خطوط لکھنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ امریکی صدر کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں۔ معاملات پاکستان کی عزت وقار ملحوظ خاطر رکھ کرمعاملات وزارت خارجہ میں طے ہونے چاہئے۔ اس سے قبل عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو اندر سے تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے،بھارتی میڈیا غیر ذمہ دارانہ بیانات کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے،ٹرمپ اور مودی کے بیانات ایک جیسے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات اتنے برے کبھی نہیں تھے جتنے آج ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان امریکا کے ساتھ بیک ڈور چینل کھولے، افغانستان میں لڑنے والے تمام 40 ممالک امریکا کے زیر اثر ہیں۔امریکی پالیسی کا جواب مظاہرہ کر کے دیاجارہا ہے۔انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے۔دنیا میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس کے ڈانڈے پاکستان سے نہ ملتے ہوں۔

شیخ رشید نے کہا کہ ایل این جی کےایسے ایسے پارٹنرنکلیں گے کہ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔دنیا کی سب سے مہنگی ایل این جی پاکستان نے لی ہے چار سالوں میں 35 ارب ڈالر قرضہ لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا پر دفتر خارجہ سے متعلق خبریں شرمناک ہیں۔سابق وزیرخارجہ اور پاکستان تحریک انصاف کے راہنماءشاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے یک زبان ہوکر صدر ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کیا،چوہدری نثار سے اتفاق کرتا ہوں کہ وزیر خارجہ کو دوست ممالک بھی جانا چاہئے،حکومت نے وزیر خارجہ کو ترکی چین اور روس بھیجنے کا بالکل درست فیصلہ کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ٹرمپ نے ہم پر دہشت گردی کے فروغ کا الزام لگایا،ہم تودہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، ٹرمپ ایک ملک بتادیں جوپاکستان سے زیادہ دہشت گردی کی جنگ میں متاثرہواہو۔انہوں نے کہا کہ امریکا آئے اور حساب کرے اس نے دیا کتنا اور ہم نے بھرا کتنا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا 120 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا،ہمارے اخراجات کی واپسی ہی بہت دقت کے ساتھ ہوتی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ بیان سے مثبت پیغام جائے گا، افغانستان میں امن بذریعہ دلی نہیں آسکتا ،کیا امریکا نے ماضی میں پاکستان کے کردار کی تعریف نہیں کی ؟افغانستان کے امن سے پاکستان کا مستقبل جڑا ہے۔

پاکستان نے دہشت گردوں کےخلاف7فوجی آپریشنز کیے، ہم نے ہمیشہ کہاپاکستان بارڈر مینجمنٹ کے لئے تیار ہے،پاکستان نے ہمیشہ کہادہشت گردی کی کسی شکل میں مددنہیں کرےگا، امریکا بتائے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے لئے کتنی امداد دے رہا ہے۔