بہترین معاشرے کی تشکیل میں خواتین کا کردار

 
0
53347

تحریر:عاصمہ فضیلت

کہا جاتا ہے ،جس گھر میں تعلیم یافتہ عورت ہو وہ گھر بذات خود ایک یونیورسٹی ہے ۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی خواتین میں تعلیم کے حصول کا شعور کافی حد تک اجاگر ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ پاکستان کے ان علاقوں میں بھی تعلیم کی اہمیت کا شعور اجاگر ہونے لگا ہے ۔ یہاں والدین لڑکی کی پیدائیش سے ہی ذر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں گھلنا شروع ہو جاتے تھے ،کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ جبکہ اب ایسا نہیں ہے۔ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہاتوں میں بھی خواتین کی تعلیم پر خاصی توجہ دی جارہی ہے۔
نپولین نے کہا تھا مجھے تعلیم یافتہ ماں دے دو میں تمہیں ایک مہذب اور تعلیم یافتہ قوم دونگا۔ شاید کسی حد تک ہم بھی نپولین سے اتفاق کرنے لگے ہیں۔ اور ہمارے معاشرے میں بھی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی سوچ پر عمل ہو رہا ہے۔ لیکن نپولین کے جو الفاظ تھے ہم نے انہیں اپنی سوچ بنا لیا ہے ۔ ہم لڑکیوں کو تعلیم تو دلوا رہے ہیں ۔لیکن صرف اس سوچ سے کہ اگر بچی پڑھ لکھ جاے گی تو اس کا رشتہ اچھے گھر ہو جاے گا۔ یا اپنی آنے والی نسل کی بہتر تربیت کر سکے گی ،اپنے بچوں کیلئے راہنمائی کا ذریعہ بن پائے گی۔یعنی کہ ہم تسلیم توکر چکے ہیں کہ عورت کے لئے بھی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی مرد کیلئے ،لیکن ہمارے ہاں دونوں کو تعلیم دلوانے کے نظریے مختلف ہیں۔عورت کو تعلیم مرد کی خدمت کرنے کیلئے دلوائی جاتی ہے، جبکہ مرد کو گھر معاشرے اور ملک کی معیشت میں اضافہ کرنے اور اس کی باگ دوڑ سمبھالنے کیلئے دلوائی جاتی ہے۔اب بھی ہمارے ذہنوں پر یہ خیال مسلط ہے کہ سماجی زندگی میں عورت کم درجہ رکھتی ہے۔ ہم عورت کو معاشرے میں مساوی درجہ دینے کیلئے کسی صورت بھی تیار نہیں ہیں ۔ اسی سوچ کی بنا پر ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم ایک حد تک دلوائی جاتی ہے ،جس سے ان میں کچھ سمجھ بوجھ آجائے۔ تاکہ وہ اپنے شوہر اوربچوں کو راحت پہنچا سکے۔ اتنی تعلیم جس سے وہ ایک اچھی باورچن یا دھوبن بن جائے،یا خانہ داری میں کمال دیکھا سکے۔اس سے آگے وہ نہیں جا سکتی۔ یہاں تک کہ بہت ساری معصوم بچیوں کو انٹر یا گریجویشن کے بعد اعلی تعلیم کے خواب آنکھوں میں چھپائے پیا جی کے گھر روانہ ہونا پڑتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کثیر تعداد میں ایسی لڑکیاں ہیں جو اعلی تعلیم تو حاصل کر لیتی ہیں،لیکن وہ اس تعلیم کو ملک وقوم یہاں تک کہ اپنے خاندان کی بھلائی کیلئے بھی استعمال نہیں کر سکتی ہیں ۔انہیں جاب یا کاروبار کی اجازت اس ڈر کی بنا پر نہیں دی جاتی ،کہ اگر عورت با اختیار ہو گئی تو مرد کے مدمقابل گھڑی نا ہو جائے۔مرد خوفزدہ ہو جاتا ہے کہیں مرد کے اختیارات اس سے چھن نہ جائیں۔ وہ جو ہر وقت محنت مشقت کرنے اور عورت کو سکون پہنچانے کا ٹھنڈورا پیٹتا تھا، اگر عورت با اختیار ہو گی تو وہ کس پر رعب جمائے گا۔مرد کی احساس کمتری عورت کی ساری صلاحیتوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔اسطرح بائیس تئیس سال انتہائی محنت کرنے کے بعد بھی وہی گھر، بچے اور شوہر کی ذمہ دریاں ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں ۔ کاروبار اور جاب کے سپنے باورچی خانہ اور بچوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔
میری ان سب باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں خواتین کے ان کی روائتی ذمہ دریاں نبھانے کے خلاف ہوں۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ، کیا خواتین اپنی روائتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کردار ادا نہیں کر سکتی؟ کیا وہ اپنی صلاحتیں ملک و قوم کی ترقی کیلئے استعمال نہیں کر سکتی؟ کیا وہ ملکی معیشت میں اصافہ کا ثابب نہیں بن سکتی؟ نہیں ایسا بلکل نہیں ہے کہ ایک عورت میں مرد جیسی صلاحیتیں نہیں پائی جاتی یا ایک عورت ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کر سکتی۔ بلکہ ہم نے عورتوں کو محدود کر دیا ہے کہ وہ ان حدود سے آگے جا ہی نہیں سکتی ۔
اللہ تعالی نے عورت کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ ہے اور وہ بھی اپنے مادہ تخلیق کی رو سے مردوں سے کسی طرح کمتر یا حقیر نہیں ہیں، بلکہ عورتوں میں اللہ تعالی نے مردوں کی نسبت حوصلہ اور برداشت ذیادہ رکھی ہے۔وہ مردوں کی نسبت مشکل حالات کا سامنا باآسانی کر سکتی ہیں۔کسی دانا نے میاں بیوی کو ایک گاڑی کے دو پہیوں سے تشبہ دی تھی۔ میاں بیوی دونوں مل کر زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں ۔ہر دکھ ، سکھ،کا مل کر مقابلہ کرتے ہیں۔اگر کسی ایک کی بھی کارکردگی کم ہو جائے تو زندگی کی گاڑی چلنے کے بجائے ڈگمگانے لگتی ہے۔جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے ، تو پھر ہمارے معاشرے اور ملک کے سب سے بڑے مسئلے کی ذمہ داری اکیلے مرد پر کیوں ڈال دی جاتی ہے۔اس مشکل میں بیوی اپنے شوہر کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتی۔ہمارے معاشرے میں ایک کمانے والا دس کھانے والے کی سی صورتحال ہونے کے باوجود ہم نے آبادی کے نصف باصلاحیت حصہ کو ملک و قوم کی معیشت سے دور رکھا ہوا ہے۔ہمارے معاشرے اور قومی ترقی کی اڑان اس چڑیا کی پرواز کی سی ہو گئی ہے جو صرف ایک بازوں سے ہوا پر قائم رہنا چاہتی ہو۔ دنیا میں معیشت بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، اور وہی قومیں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں، جو بہتر حکمت عملی سے کام کر رہی ہیں ۔ جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان نے اپنی خواتین کو با اختیار بنایا ہے۔ شعوروآگہی کے اس جدید دور میں خواتین کو با اختیار بنانا نہ صرف ایک ناگزیر تقاضا ہے، بلکہ اس کی اشد ضرورت بھی ہے۔کیونکہ جب تک ملک و قوم کی اتنی بڑی آبادی ملکی تعمیرو ترقی میں شرکت نہیں کرتی ،معیشت کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی۔تیز رفتار ترقی کیلئے خواتین اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ پروفیشنل امور میں عورت جج،قاضی، ڈاکٹر،انجئینر، استاد، طب، ہوم اکنامکس، تحریروتصنیف وغیرہ کی ذمہ داریاں زیادہ احسن انداز میں ادا کر سکتی ہیں۔
اکثرسننے میں آتا ہے، کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی یا عورت کی کمائی حرام ہوتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ذرا سوچئے! کیا نبی پاک ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال اسلام کی راہ میں خرچ کرتے ۔ اس سے ذیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عرصہ تک حضور علیہ اسلامﷺ کے ذریعہ معاش میں حضرت خدیجہ کا مال تجارت اور اکتساب دولت ہی شامل رہا ہے۔حضرت خدیجہ ایک عورت ہی تھیں ، جن نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور اسلام کی راہ میں اپنا مال خرچ کیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت پر اکتساب دولت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔حضرت خدیجہ بہت بڑی تاجر تھیں، اور آپ ﷺ نے ان کیلئے کاروبار پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی ۔ اسی طرح اگر پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو خواتین کی بے پناہ قربانی اور جرات کی مثالیں ملتی ہیں۔ جن میں محترمہ فاطمہ جناح سر فہرست ہیں، جن نے قیام پاکستان سے قبل انگریزوں اور ہندووں کی سازوشوں کو ناکام بنانے کی خاطر بر صیغر کے طول و عرض میں سفر کر کے مسلمان خواتین کو مسلم لیک کی حمایت پر آمادہ کیا تھا۔فاطمہ جناح ایک عورت ہی تھیں جن نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں اپنے بھائی کا ہر قدم پر ساتھ دیا تھا۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حصول پاکستان کی طویل جدوجہد میں مسلمان خواتین اپنے مردوں کے پیچھے کس طرح مضبوطی سے ڈٹی رہی ہیں ۔ اگر حضرت خدیجہ کئی ممالک پر محیط کاروباری سر گرمیاں مستعدی سے انجام دے سکتی ہیں۔ اور حضرت عا ئشہ حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ مرتب کرنے کی استعداد رکھتی تھیں، اسی طرح محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی کے ہمراہ ہر مشکل جھیل ؂ سکتی ہیں ، تو پھر ہماری بیٹیاں بھی اپنی گھریلو زندگی اور کاروبار چلانے میں توازن پیدا کر کے ان کے نقش قدم پر چل سکتی ہیں۔ایک مشہور بھارتی فلم کا ڈائیلاگ ہے ! (ماری چھوریاں ، چھوروں سے کم ہیں کہ) مطلب ہماری لڑکیاں لڑکوں سے کم ہیں کیا ۔ واقعی ہماری چھوریاں چھوروں سے کم نہیں ہیں ،بس انہیں حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں تو اپنی چھوریوں کو چھوروں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت دینی ہو گی ، انہیں با اختیار بنانا ہو گا۔