اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان،اساتذہ کی شدید کمی

 
0
79267

اسلام آباد جنوری30(ٹی این ایس)وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سکول اور کالجز میں بنیادی سہولیات کا فقدان ، اساتذہ کی کمی اور مروجہ طریقہ کار کے برعکس تقرریاں عروج پر ہیں۔لگ بھگ تین بلین روپے سے زائد مالیّت کا وزیر اعظم تعلیمی اصلاحات پروگرام کھچوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ دسمبر 2015سے لے کر اب تک اسلام آباد کے 422تعلیمی اداروں میں سے صرف 22سکولوں کی اپ گریڈیشن ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم تعلیمی اصلاحات پروگرام کی نگران محترمہ مریم نواز شریف اپنی دیگر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئی ہیں اور پروگرام کو حکومت کے چند دیگر اراکین نے سیمینارز اور پروگراموں تک محدود کردیا ہے ، جہاں وقتاً فوقتاً ان کے اعلانات سامنے آتے ہیں لیکن سکولوں کی حالت زار میں کوئی خاص بہتری نظر نہیں آرہی۔
اسلام آباد کے سیکٹر I-8/4میں واقع عمیر ارشد شہید سکول اس وقت شدید مسائل کا شکار ہے۔ جہاں اساتذہ اور دیگر عملے کی
مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے ۔ اساتذہ کی کمی کی وجہ سے صبح کے سیشن کے علاوہ ایوننگ سیشن میں بھی کلاسز متاثر ہورہے ہیں۔ سکول کی لائبریری میں کتابیں بہت کم ہیں جبکہ لیبارٹری میں تجرباتی سامان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ سکول میں صفائی کا عملہ پورا نہیں
ہے جبکہ مالی کی آسامی کئی برسوں سے خالی پڑی ہے۔”ٹی این ایس” نے جب اس سلسلے میں سکول کے پرنسپل خالد چنا سے بات کی تو انھوں نے نہایت افسوس کے ساتھ سکول میں بنیادی سہولیات کے فقدان اور Human Resourcesکی قلّت کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا
“وزیراعظم تعلیمی اصلاحات پروگرام اس وقت جاری ہے لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے۔ اس پروگرام میں پہلے مرحلے میں 22سکولوں کی اپ گریڈیشن کی گئی جس میں ہر ایک سکول میں تقریباً 2,2کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ اس وقت فیز 2یعنی دوسرے مرحلے پر کام ہورہا ہے ، لیکن ہمارے سکول کی باری تیسرے مرحلے میں آتی ہے ۔ اورمعلوم نہیں ہمیں سکول کی بہتری کے لئے کب تک انتظار کرنا ہوگا۔ ” انھوں نے سکول میں دیگر عملے کے علاوہ اساتذہ کی کمی پر بھی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ سکول میں شام کی کلاسز کے لئے اساتذہ دستیاب
نہ ہونے کے باعث حکومت نے صبح کے سیشن میں پڑھانے والے ٹیچرز کی خدمات حاصل کرنا چاہی لیکن ان کا معاوضہ نہایت کم رکھا گیا جو کہ ماہانہ بمشکل آٹھ یا دس ہزار روپے تھا۔ اس وجہ سے ان اساتذہ نے سکول کو اضافی وقت دینے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی اور یوں شام کے سیشن کی پڑھائی بہت متاثر ہوئی۔

گذشتہ سال جون میں Capital Administration and Development Division (CADD) نے ٹھیکہ داروں کے ذریعے تقریباً 200سکولوں کا ڈھانچہ بہتر کرنے کے لئے کام شروع کیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ کام روک دیا گیا۔ CAADکے وزیر ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے وزیر اعظم تعلیمی اصلاحات پروگرام پر براہ راست کنٹرول کے لئے Project Management Unit (PMU)بھی قائم کیاہے ۔ اس کے بارے میں انھوں نے کئی مواقع پر یہ کہا ہے کہ اس یونٹ کے قیام کا مقصد تعلیمی پروگرام کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ لیکن ان کی پالیسی کارگر نظر نہیں آرہی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں 200سکولوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری کا کام اس وجہ سے آغاز کے فوری بعد رک گیاہے کہ ٹھیکیداروں کو پیشگی ادائیگیوں کے بعد 30جون کو مالی سال 2016-17اختتام پذیر ہونے کے بعد وزارت کیڈ کو فنڈز وفاقی حکومت کو لوٹانا پڑے ،جس کی وجہ سے سکولوں میں تعمیراتی کام رک گیا۔ شہری علاقوں کے علاوہ اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں واقع اسکولوں کی حالت مزید خراب ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سکولوں کی اپنی عمارتیں تک نہیں ہیں اور وہاں بچّے کرایے کی عمارتوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ شکریال میں 1988سے ایک پرائمری سکول کرائے کی عمارت میں کام کر رہا ہے۔ جبکہ بھارہ کہو ، کھنہ پل اور اقبال ٹاون میں بھی ایسے اسکول موجود ہیں۔ دیہی علاقوں میں قائم ان اسکولوں میں اساتذہ کی کثیر تعداد انگریزی زبان میں مطلوبہ مہارت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے بچوں کا مستقبل مزید مخدوش حالات سے دوچار ہے۔

اسلام آباد کے متعدد کالجز کی صورتحال بھی مخدوش ہے۔ پرانے کالجز اور ماڈل کالجز سب کی حالت تقریباً ایک جیسی ہے۔ ان کالجز میں بھی بنیادی سہولیات کے علاوہ لیکچرارز کی کمی ہے جسے Daily Wagesاساتذہ کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے۔ یہ اساتذہ تقریباً ہر دو ماہ بعد اپنی ملازمتیں مستقل کرنے کے لئے ہڑتالیں اور مظاہرے کرتے ہیں اور یہ اس سلسلے میں عدالتوں میں مقدمات میں مصروف ہیں۔ اس وجہ سے طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔ G-6/3میں واقع شہر کا قدیم ترین ادارہ اسلام آباد کالج فار بوائز جو کہ شہر کا سب سے بڑا کالج ہے، اس وقت بنیادی سہولیات کے فقدان کا رونا رو رہا ہے۔ اس کالج میں سال 2000کے بعد کوئی تعمیراتی کام نہیں ہوا۔ اس وقت یہاں تقریباً 9000طلباء زیر تعلیم ہیں لیکن اس کے کلاس رومز کی تعداد وہی ہے جو آج سے 17برس قبل تھی، جس کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ کو بیٹھنے کے لئے مناسب جگہ تک نہیں مل رہی۔ اس عرصے میں طلباء کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے لیکن یہاں واش رومزاور حتی کہ واٹر کولرز کی تعداد تک نہیں بڑھی۔ کالج کے ایک سینئیر لیکچرار نے “ٹی این ایس ” کو بتایا “کالج میں صبح اور شام کے دونوں سیشنز کے لئے ہمارے پاس لیکچرارز کی مطلوبہ تعداد دستیاب نہیں ہے۔ صبح کے سیشن میں یہ کمی ڈیلی ویجز پرپڑھانے والے اساتذہ کے ذریعے پوری کی جارہی ہے جنھیں ماہانہ 13000تا 14000روپے معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ شام کے سیشن کا ہے جس میں حکومت کی طرف سے لیکچرارز تعینات نہیں کئے جارہے۔ کالج انتظامیہ نے یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے صبح کے سیشن میں پڑھانے والے لیکچرارز کی خدمات حاصل کرنا چاہی۔ لیکن یہاں کم معاوضے رکاوٹ بن گئے۔ حکومت کی جانب سے ان اساتذہ کے لئے ماہانہ 13000تا 14000روپے معاوضہ مقرر کیا گیا ہے، جو کہ انتہائی کم ہے۔ کیونکہ باہر پرائیویٹ طور پر ٹیوشن پڑھانے والے اساتذہ اس سے کئی گنا زیادہ پیسے کمارہے ہیں۔ ان میں کئی اساتذہ یہ کہہ کر شام کی کلاسز چھوڑ کر چلے گئے کہ اگر ہم کالج کی بجائے پرائیویٹ طور پر ٹیوشن پڑھائیں تو ہم 50,000،80,000حتی کہ ایک لاکھ روپے تک ماہانہ کما سکتے ہیں۔ ” اس سلسلے میں جب “ٹی این ایس “نے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن حسنات قریشی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا” ہم اس وقت اساتذہ کی کمی ڈیلی ویجز پر پڑھانے والے اساتذہ کے ذریعے پوری کررہے ہیں لیکن وہ اکثر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔اس بارے میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ “واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ اساتذہ کی کمی پر قابو پانے کے لئے محکمہ جاتی سطح پر کوئی پالیسی موجود نہیں ہے، اور حکومت بھی طلباء کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے کچھ نہیں کر رہی۔ تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر کی حالت زار کے بارے میں حسنات قریشی کا کہنا تھا “وفاقی اداروں کی حالت زار میں وزیر اعظم تعلیمی اصلاحات پروگرام کے تحت بہتری لائی جارہی ہے۔جہاں تک اس کی رفتار سست ہونے کاسوال ہے تو سول ورک میں ٹائم لگتا ہے۔ٹھیکہ داروں کو کام دیا جاتا ہے اور اس عمل میں کافی وقت صرف ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں دھرنے بھی ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بھی کام پر اثر پڑتا ہے۔ شہر میں تو دھرنوں کی یہ صورتحال ہے کہ یہاں لاک ڈاون کرنے کی باتیں ہوتی ہیں ۔ان مسائل کی وجہ سے لازمی طور پر ہمارے ترقیاتی کام متاثر ہوتے ہیں۔”

کنٹریکٹ پر اساتذہ کی بھر تیوں پر اسلام آباد کے ٹیچرز کو شدید تحفظات ہیں۔اس رپورٹ کی تیاری کے دوران کئی اساتذہ اور اہلکاروں نے شکایت کی کہ تعلیمی اداروں میں سینکڑوں کی تعداد میں اساتذہ کو کنٹریکٹ بنیاد پر تعینات کیا جاتا ہے اور پھر قانونی طریقہ کار فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی بجائے ان میں زیادہ تر کو بغیر کسی امتحان کے مستقل کردیا جاتا ہے۔ان تعیناتیوں میں بہت زیادہ سیاسی مداخلت کی جاتی ہے۔ طاقتور افراد اس چور دروازے سے اپنے عزیز و اقارب کو مروجہ طریقہ کار کے برعکس ملازمتیں دلواتے ہیں ۔ اس سے دیگر صوبوں کے لئے مقرر کوٹہ بھی متاثر ہورہا ہے اور وہاں کے امیدوار سال سال بھر فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور دیگر امتحانات کا صرف انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔اور یہاں آسامیاں سیاسی بنیادوں پر بانٹ دی جاتی ہیں جس سے ان کی حق تلفی ہوتی ہے۔(واضح رہے کہ اس وقت اسلام آباد کے سکولوں میں 4000اساتذہ کی قلّت ہے ۔) انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس معاملے کا نوٹس لے اور اساتذہ کی غیرقانونی بھرتیاں روک دے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ان کی ملازمتوں میں ترقی کے عمل میں بھی شفافیت نہیں ہے۔ اکثر اوقات جونئیر اساتذہ کو ترقی میں سینئیر ٹیچرز پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اساتذہ کے ان مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے Government Teachers Association Islamabad کے سابق صدر اور موجودہ سیکرٹری ملک عطاء الرحمن نے “ٹی این ایس” کو بتایا “اس وقت اساتذہ میں پروموشن رولز (ترقی کے قوانین ) کے حوالے سے کافی پریشانی ہے۔ اساتذہ کی پروموشن میں ان کی سروسز پر توجہ نہیں دی جاتی۔ کئی کیسز میں ٹیچرز کی 11،12سال بعد کوئی پروموشن ہوتی ہے۔ صرف پرنسپل اور وائس پرنسپل کو باآسانی پروموشن مل جاتی ہے ، باقی اساتذہ کی سینیارٹی کا زیادہ خیال نہیں رکھاجاتا۔ اس وقت اساتذہ چار بڑے کیڈرز میں کام کر رہے ہیں جن میں ترقی کے حوالے سے کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔نئے اساتذہ کی کنٹریکٹ پر بھرتیوں اور پھر مروجہ طریقہ کار کے برخلاف مستقلی پر بھی سینئیر اساتذہ میں کافی تشویش ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اپنی ٹیچرز یونین میں بھی اختلافات ہیں۔ ہماری روٹین کے اجلاس بھی منعقد نہیں ہوتے جس کی وجہ سے اساتذہ کے مسائل حل کرنے کے لئے نہ تو کوئی جامع پالیسی بن رہی ہے اور نہ ہی ہم مربوط کوششیں کرسکتے ہیں۔ “