وفاقی حکومت نے عام انتخابات سے قبل قدیم رہاشی کالونیوں کے مکینوں کی جانچ پڑتال کرانے کے معاملے کو دوبارہ چھیڑدیا 

 
0
319

کراچی فروری2(ٹی این ایس)مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے عام انتخابات سے صرف 4 ماہ قبل کراچی میں وفاق کی قدیم رہاشی کالونیوں کے مکینوں کی جانچ پڑتال کرانے کے معاملے کو دوبارہ چھیڑدیا ہے ۔وفاقی حکومت نے اس قدیم آبادیوں کے فلیٹوں اور مکانات میں رہائش پذیر مکینوں کے کوائف کی تصدیق کا کام سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاسنگ اینڈ ورکس کی سفارشات کی روشنی میں شروع کیا ہے ۔وفاقی رہاشی کالونیوں کے اچانک سروے پر کراچی کی اہم سیاسی جماعتوں نے سخت تحفظات کااظہار کرتے ہوئے اس کو ووٹ تقسیم کرنے کی سازش قراد دیا ہے اور اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے اور عوامی احتجاج کا عندیہ دے دیا ہے ۔واضح رہے کہ ان رہاشی کالونیوں سے ماضی میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ایم کیوایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔اس معاملے کو دوبارہ اٹھانے کے سبب کراچی میں کراچی میں سیاسی طور پر بڑی افرا تفری پھیلنے خدشہ ہے۔ اسٹیٹ آفس کے اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں وفاق کے زیر انتظام رہائشی کالونیوں میں قانونی اورغیر قانونی طور پر موجود مکینوں کے قواعد کی جانچ پڑتال کیلیے خصوصی سروے شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے اسٹیٹ آفس کراچی نے پانچ ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں ۔ جو وفاقی کالونیوں میں موجود فلیٹوں اور مکانات میں رہائش پزیر خاندان سے متعلق معلومات جمع کریں گی اور ان معلومات کی روشنی میں وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد غیر قانونی طور پر رہائشی فلیٹوں اور مکانات میں موجود افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور ان مکانات اور فلیٹوں کو خالی کرانے کیلیے وفاقی حکومت ، سندھ حکومت ، ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعاون حاصل کرے گی۔

اسٹیٹ آفس کے اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاسنگ اینڈ ورکس کا ایک اجلاس 17 جنوری کو کراچی میں کمیٹی کے چیئرمین مولانا تنویر الحق تھانوی کی صدارت میں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں کراچی میں وفاقی رہائشی کالونیوں میں موجود افراد کے حوالے سے اسٹیٹ آفس کے حکام نے تفصیلی بریفنگ دی تھی اور اس بریفنگ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کراچی کی وفاقی رہائشی کالونیوں میں سیکڑوں فلیٹس اور مکانات پر غیر قانونی عناصر کا قبضہ ہے اور بیشتر مکانات اور فلیٹس کو مختلف مافیاز نے فروخت کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان فلیٹوں کی خریدو فروخت میں مبینہ طور پر اسٹیٹ آفس کے حکام بھی شامل ہیں۔ اس بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ وفاقی رہائشی کالونیوں میں حاضر سروس ملازمین کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین یا وفات پا جانے والے ملازمین کے اہل خانہ بھی موجود ہیں۔ اس بریفنگ کے بعد قائمہ کمیٹی نے وزارت ہاسنگ کو ہدایت کی تھی کہ ان رہائشی کالونیوں کے مکانات اور فلیٹس میں موجود افراد کے قواعد جمع کرنے کیلیے خصوصی سروے کیا جائے اور تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتنے فلیٹس اور مکانات میں قانونی طور پر حاضر سروس ، ریٹائرڈ اور وفات پاجانے والے افراد کے اہل خانہ موجود ہیں۔ کتنے فلیٹوں اور مکانات پر قبضہ کیا گیا ہے اور کتنے فلیٹس اور مکانات فروخت کر دیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قائمہ کمیٹی ہاسنگ اینڈ ورکس کی ہدایت پر ایڈیشنل اسٹیٹ آفیسر کراچی نے وزارت ہاوسنگ کی منظوری سے 30 جنوری کو ایک آفس آرڈر جاری کیا ہے ، جس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی ہدایت کی روشنی میں سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اسی روز ایڈیشنل اسٹیٹ آفیسر کراچی نے ایک اور آفس آرڈر جاری کیا ، جس کے تحت کراچی میں وفاقی رہائشی کالونیوں کے مکانات اور فلیٹس کے سروے کیلیے 5 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ یہ ٹیمیں مارٹن روڈ ، جیل روڈ ، جہانگیر روڈ ( ایسٹ اینڈ ویسٹ ) ، پٹیل پاڑہ ، اولڈ لالو کھیت پاکستان کوارٹر ، گارڈن آفیسر کالونی ، فیڈرل کیپٹل ایریا میں سروے کریں گی۔ ان ٹیموں کی نگرانی اسٹیٹ آفس کے سپرنٹینڈنٹ ظفر اقبال اور شکیل احمد کریں گے۔ ہر ٹیم میں اسٹیٹ آفس کے چار اہلکاروں کو شامل کیا گیا ہے۔

ایف سی ایریا کے سروے ٹیم کے انچارج انسپکٹر محمد امین ہوں گے۔ جہانگیر روڈ ( ایسٹ اور کلٹن ) روڈ کی ٹیم کے انچارج حنیف الرحمن ہوں گے۔ جہانگیر روڈ ( ویسٹ ) اولڈ لالو کھیت کی سروے ٹیم کے انچارج محمد آچر ہوں گے۔ پاکستان کوارٹر اور گارڈن کی سروے ٹیم کے انچارج عارف اعوان ہوں گے ۔ جیل روڈ اور مارٹن کوارٹر کی سروے ٹیم کے انچارج قطب الدین ہوں گے۔ ان ٹیموں نے وفاقی حکومت رہائشی کالونیوں میں سروے شروع کر دیا ہے۔ یہ ٹیمیں 10 روز میں اپنا کام مکمل کریں گی۔ یہ ٹیمیں گھر گھر جا کر ایک پرفارما تقسیم کر رہی ہیں ، اسے کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا برائے سرکاری مکانات سروے فورم کا نام دیا گیا ہے۔ اس فارم میں 12خانے درج ہیں ، جس میں فلیٹ ، بلاک کا نمبر ، فلیٹ کون سے ٹائپ کا ہے اور کالونی کا نام درج ہے۔ اس فارم میں فلیٹ کے الاٹی کا نام ، اس کے والد کا نام ، عہدہ ، سرکاری محکمہ ، سروس کی معلومات پوچھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تفصیلات بھی معلوم کی گئی ہیں کہ مکانات میں کون موجو دہے۔ یہ مکان حاضر سروس ملازم کے نام پر ہے یا ملازم ریٹائر ہو چکا ہے یا ملازم وفات پا چکا ہے۔ اس فارم کے ساتھ مکان میں موجود شخص کے شناختی کارڈ کی کاپی ، دو پاسپورٹ سائز تصویر ، مکان کا الاٹمنٹ آرڈر اور مکان جس وقت دیا گیا تھا ، اس کی رپورٹ۔ ملازم کے محکمے کی پے سلپ کی کاپی یا ملازم انتقال کر گیا ہے تو اس کی بیوہ کی پینشن بک کی کاپی بھی فارم کے ساتھ منسلک کی جائے گی۔ اگر مکان یا فلیٹ میں وفات پاجانے والے ملازم کے اہل خانہ موجود ہیں تو اس مرحوم ملازم کے ڈیٹ سرٹیفکیٹ کی کاپی بھی منسلک کی جائے گی۔ اس سروے کی تکمیل کے بعد اسٹیٹ آفس یہ تمام ڈیٹا وزارت ہاسنگ کو بھیجے گا ، جہاں وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد جن مکانات یا فلیٹس پر قبضہ ہے یا ان میں غیر قانونی طور پر افراد رہائش پزیر ہیں تو پھر ان مکانات اور فلیٹس کو واگزار کرانے کیلیے آپریشن شروع کرایا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سروے کراچی میں اس وقت شروع کیا گیا ہے ،

جب وفاقی حکومت اپنی مدت مکمل کر ر ہی ہے۔ اس سروے کے باعث ان رہائشی کالونیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سروے سے کراچی میں سیاسی طور پر وفاقی حکومت کو مختلف جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ کراچی کی وفاقی رہائشی کالونیوں میں سی، ڈی ،ای ،ایف،جی اور ایچ ٹائپ کے تقریبا 8ہزار مکانات اور فلیٹس موجود ہیں۔ یہ سروے فارم مکانات میں موجود شخص کو مکمل کوائف کے ساتھ اسٹیٹ آفس میں خود جمع کرانا ہو گا یا فارم نہ جمع کرانے والے افراد سے اسٹیٹ آفس کی ٹیمیں خود ان کے گھروں پر جا کر یہ کوائف وصول کریں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے ایف سی ایریا مارٹن کوارٹر ، کلٹن روڈ اور پٹیل پاڑہ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور مختلف مافیاز نے مبینہ طور سرکاری کوارٹروں اور مکانات اور مختلف اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے اور مبینہ طور پر لاکھوں روپوں کے عوض سرکاری مکانات اورفیلٹس فروخت کیے گئے ہیں ۔اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاسنگ اینڈ ورکس کے چیئرمین سینیٹر مولانا تنویر الحق نے تھانوی نے بتایا کہ کراچی میں وفاقی رہائشی کالونیوں میں مکانات اور فلیٹوں کے سروے کا فیصلہ قائمہ کمیٹی کے 17 جنوری کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔ اس سروے کا مقصد صرف یہ معلومات حاصل کرنا ہے کہ ان فلیٹوں اور مکانات میں کون قانونی یا غیر قانونی طور پر رہائش پزیر ہے۔ اس سروے کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ ان آبادیوں کے مکینوں کو کو بے دخل کرنے کا فوری سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔ مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ 3 مئی 2017 کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وفاقی کالونیوں کے فلیٹوں اور مکانات میں ریٹائرڈ ملازمین اور وفاق پاجانے والے ملازمین کی بیواں اور اہلخانہ کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ 17 جنوری کو جو اجلاس ہوا تھا ، اس میں پی ٹی آئی کے سینیٹر نعمان وزیر نے یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ اگر کراچی میں ریٹائرڈ ملازمین اور وفات پا جانے والے ملازمین کے اہل خانہ قانونی طور پر سرکاری مکانات میں رہائش کی سہولت حاصل ہے تو یہ پالیسی پورے پاکستان کیلیے ہونی چاہے۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اگر مکانات خالی کرانے کی کوشش کی تو ہم یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔

انھوں نے کہاکہ سروے کے معاملے پر دوبارہ بحث 6 ور 7 فروری کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ غیر قانونی یا قبضہ کیے گئے فلیٹوں کو واگزار کرانے کی ہدایت کی جا چکی ہے۔ تاہم اس پر ایکشن لینا وفاقی حکومت کا کام ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ آفس کو پابند کیا جائے گا کہ وہ سروے کی آڑ میں قانونی طور پر مقیم مکینوں کو تنگ نہ کریں۔ اگر کوئی شکایت ملی تو افسر یا ملازم کے خلاف کارروائی کیلیے وفاقی حکومت کو سفارش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ساتھ یہ معاملہ طے ہو چکا ہے کہ متبادل رہائش کی سہولت فراہم کیے بغیر کسی ریٹائرڈ یا وفات پاجانے والے کسی ملازم کے اہل خانہ سے سرکاری فلیٹ یا مکان خالی نہیں کرایا جائے گا۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر وفاقی اسٹیٹ آفیسر عبید الدین نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی کی سفارش پر کراچی کی وفاقی کالونیوں کے فلیٹوں اور مکانات میں موجود رہاشیوں کے کوائف معلوم کرنے کیلیے سروے شروع کیا گیا ہے ۔اس سروے کا مقصد کسی سے فوری مکان یا فلیٹ خالی کرانا نہیں ہے ۔غیرقانونی طور پر رہائش پذیر یا فروخت کیے جانے والے فلیٹس یا مکانات کو خالی کرانے کیلیے کسی بھی کاروائی کی منظوری وفاقی حکومت دے گی ۔حکومت فی الحال کراچی میں کسی ریٹائرڈ ملازمین اور وفات پا جانے والے ملازمین کے اہل خانہ سے سرکاری مکانات یا فلیٹس خالی نہیں کرارہی ہے ۔انھوں نے کہا کہ اس سروے کا مقصد رہاشی یونٹس کے ڈیٹا کو کمپیوٹرائز کرنا ہے تاکہ پتہ لگایا جاسکے ان میں مکانات یا فلیٹس میں کون مقیم ہے ۔

ایم کیوایم پاکستان کے ترجمان امین الحق نے کہا کہ ان وفاقی رہاشی کالونیوں کے سروے کے معاملے کو وفاقی حکومت کی جانب سے اچانک دوبارہ شروع کرنا سجھ سے بالاتر ہے ۔ان آبادیوں میں ایم کیوایم کاووٹ بینک ہے ۔اگر ان آبادیوں سے کسی مکین کو فوری بے دخل کیا گیا تو ایم کیوایم پاکستان اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرے گی اور اس معاملے پر عوامی احتجاج کے ساتھ ساتھ اس کو پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے سامنے اٹھایا جائے گا ۔اس حوالے سے پاک سرزمین پارٹی کے صدر انیس قائم خانی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ پانچ سال میں یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا گیا۔عام انتخابات سے قبل اب سروے کا مقصد وفاقی رہائشی کالونیوں کے مکینوں کو ہراساں کرنا ہے۔ اگر وفاقی قاونونی طور پر رہائشی کالونیوں کے مکینوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تو پی ایس پی قانونی آپشنز کے ساتھ ساتھ عوامی احتجاج کا راستہ اختیار کریگی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل اسٹیٹ آفیسر کراچی محمد بشیر نے مبینہ طور آفس کے اہم معاملات کی غیر اعلانیہ نگرانی دفتر کے ایک ڈرائیور محمد عمران کے سپرد کررکھی ہے جو کئی غیرقانونی معاملات میں مبینہ طور پر ملوث ہے جس کی وجہ سے محکمہ کے افران وملازمین شدید پریشان ہیں ۔