بڑے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے ٗ خدا کے واسطے انصاف کی فراہمی کیلئے جو کرسکتے ہیں کر گزریں، چیف جسٹس ثاقب نثار 

 
0
319

اسلام آبادفروری 3(ٹی این ایس)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے ٗ خدا کے واسطے انصاف کی فراہمی کیلئے جو کرسکتے ہیں کر گزریں، اگر عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائے گی ٗآئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ٗ بھول جائیں کہ یہاں کوئی سازش ہورہی ہے ٗآئین کی حفاظت ہماری ذمہ اری ہے ٗ انشا اللہ اس سے پہلو تہی نہیں کریں گے اور عدلیہ کی عزت و تکریم کیلئے کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے ٗجج صاحبان انصاف کے منصب کو اپنی ملازمت سمجھیں گے تو پھر کام نہیں کر سکیں گے ٗانصاف وہ ہے جو نظر آئے ٗانصاف فراہم کرنے کیلئے کوئی چیز ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیے ٗمجھے ٹارگٹ دل اور جذبے سے چاہئیں ٗ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کیلئے بے خوف،بے خطر اور بے مصلحت جج کی ضرورت ہے ٗجو اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہوں ٗہدف کو ذہن میں رکھ کر کام نہیں ہوسکتا ٗاس کیلئے جذبے اور لگن کی ضرورت ہے۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ کی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ انصاف وہ ہے جو نظر آئے ٗانصاف میں کسی کسم کا امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انصاف فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے ٗ انصاف فراہم کرنے کیلئے کوئی چیز ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیے ٗمجھے ٹارگٹ دل اور جذبے سے چاہئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں ریاستوں کا اہم ستون ہوتی ہیں اگر عدالتیں اپنی کار کردگی نہیں دکھائیں گی تو ریاست اپنا توازن کھو بیٹھے گی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عوام کو عدالتوں سے شکایتیں ہیں ٗان کی شکایتیں دور کرنے کی ذمہ داری میں خود لیتا ہوں تاہم دیگر جج صاحبان سے درخواست ہے کہ مجھے اس شرمندگی اور پریشانی سے آپ نے بچانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جج صاحبان ہمارے پاس اسٹاف کم ہے ٗہمیں گاڑی نہیں ملی ہمیں کمرہ اچھا نہیں ملا ہمیں چپڑاسی نہیں ملا یہ چیلنجز ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں ٗیہ ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں حائل نہیں ہونے چاہئیں ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جج صاحبان انصاف کے منصب کو اپنی ملازمت سمجھیں گے تو پھر کام نہیں کر سکیں گے لہٰذا ان کیلئے بہتر ہے کہ وہ اس پیشے سے علیحدہ ہوجائیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کیلئے بے خوف،بے خطر اور بے مصلحت جج کی ضرورت ہے جو اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہوں۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہمیں ہدف دے دیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ ہدف کو ذہن میں رکھ کر کام نہیں ہوسکتا ٗاس کیلئے جذبے اور لگن کی ضرورت ہے۔اپنے دورہ چین کی مثال دیتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ چین میں اتنی تیزی سے ترقہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا اور چینی چیف جسٹس سے اس کا راز پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے صرف ایک قوم بن کر ترقی حاصل کی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ چینی دورے میں اجلاس میں شرکت کیلئے گئے تھے جہاں تقریباً 15 ممالک کے چیف جسٹس صاحبان تقریب میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے تاہم وہ واحد چیف جسٹس تھے جنہیں چینی چیف جسٹس نے علیحدہ اپنے چیمبر میں کھانے پر بلایا اور ملاقات کی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بتایا کہ اس ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے چین کے چیف جسٹس نے مجھے اپنی ملکی ترقی کا راز بھی بتایا اور ملک کے نظام کے بارے میں بھی آگاہ کیا جبکہ اس دوران انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارے ساتھ ایک مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط بھی کریں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ بھول جائیں کہ یہاں کوئی سازش ہورہی ہے ٗآئین کی حفاظت ہماری ذمیداری ہے ٗ انشا اللہ اس سے پہلو تہی نہیں کریں گے اور عدلیہ کی عزت و تکریم کیلئے کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کہا گیا کہ ہم نیوفاقی حکومت کو مفلوج کردیا تاہم وفاقی حکومت کی وجہ سے یہ نہیں پتہ ہم کتنے مفلوج ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ملک میں عظیم لیڈر اور عظیم منصف آجائیں تو ملک کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ قیامت کے دن ایک عادل قاضی کو اللہ کی رحمت کی چھاؤں نصیب ہوگی ٗیہ بڑا جید کام ہے لہذا اپنی ذمے داریاں نوکری سمجھ کر نہیں فرض سمجھ کر ادا کریں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میرے پاس کیسز آرہے ہیں جس میں ایک ایک سال بعد فیصلے لکھے گئے ٗ میں تھک گیا ہوں کہہ کہہ کر ایک مہینے میں فیصلہ دیں۔ ججز کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ایک سال کیلئے آپ اپنا وقت قوم کو تحفے میں دے دیں اور ایک سال بعد دیکھیے گا کہ کیا تبدیلی آئی ہے۔انہوں نے کہاکہ جج صاحبان کو چھوٹے موٹے کام نہیں دئیے گئے بلکہ کہ وائٹ کالر کرائم والے بڑے بڑے مگرمچھوں جن کو پکڑنے کیلئے کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا، کا احتساب کرنے کا کام سونپا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے ٗ خدا کے واسطے انصاف کی فراہمی کیلئے جو کرسکتے ہیں کر گزریں، اگر عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور آئین سازی پارلیمنٹ نے کرنی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کل کیا قانون آئیگا ہمیں اس کا انتظار نہیں کرنا ٗہمیں موجودہ حالات اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک میں عدلیہ سب سے زیادہ تنخواہ پانے والے سرکاری اہلکار ہیں لیکن کیا ہم اس کا حق ادا کر رہے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ احتساب عدالت اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ججز بہت اہمیت کے حامل ہیں اور انسداد دہشت گردی عدالتوں کیلئے تگڑے بندے چاہئیں ٗعدلیہ میں جلد فیصلوں کی پالیسی نافذ کردی گئی۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ ہائی کورٹ کا جج ماہانہ 9 لاکھ روپے اور روزانہ کی 40 ہزار روپے تنخواہ لیتا ہے، سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے، تو کیا یہ ججوں کا فرض نہیں ہے کہ وہ روزانہ اتنے روپے کا کام بھی کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ملک میں عظیم رہنما اور عظیم منصف آگئے تو ترقی کو کوئی نہیں روک سکے گا، ہمیں بنیادی حقوق لاگو کرنے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مولانا طارق جمیل نے بتایا ہے کہ جب روز محشر ہوگا اور سورج سوا نیزے پر ہوگا تو ایک خطے میں چھاؤں اور اللہ کی رحمت ہوگی جس میں عادل قاضی کو جگہ ملے گی۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونے دینگے، جمہوریت کو کچھ ہوا تو میں بھی عہدے پر نہیں رہوں گا، نظریہ ضرورت کو دفن کر چکے ہیں، لوگ ہمیں کچھ مقدمات کھولنے کا طعنہ دیتے ہیں، مانتا ہوں ماضی میں عدلیہ سے غلطیاں ہوئیں، کہا جارہا ہے عدلیہ جمہوریت کیخلاف کسی مہم کا حصہ ہے اور کوئی خاص پلاننگ ہو رہی ہے، تاہم بتادیتا ہوں کہ عدلیہ کسی مہم اور کسی پلاننگ کا حصہ نہیں، ججز نہ کسی کا ساتھ دے رہے ہیں نہ نا انصافی کرینگے، ناانصافی کرکے نبی کریم ؐ کی شفاعت سے محروم نہیں ہونا چاہتا ٗججز پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں، اونچی آواز میں بات اس لیے کی ہے کہ ہال سے باہر والوں کو بھی سنائی دے۔