ٹرمپ کی افغان پالیسی کا آغازاورپاکستان کا کردار

 
0
467

تحریر: آصف خورشید رانا

کابل میں دو خوفناک اورمہلک حملوں کے بعد واشنگٹن نے طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ان حملوں کو تاریخ کے سب سے مہلک اور بدترین حملے قرار دیا گیا جس میں حملہ آور نے ایک ایمبولنس کو استعمال کیا ۔ پہلے حملے کی ذمہ داری داعش نے جبکہ دوسرے حملے کی ذمہ داری امریکی مزاحمت کے خلاف برسرپیکار گروپ طالبان نے قبول کی ہے۔طالبان نے دعویٰ کیا کہ ان کا ہدف پولیس اور غیر ملکی تھے جبکہ کابل انتظامیہ کے مطابق اس حملے میں زیادہ تر عام آدمی جاں بحق ہوئے ہیں ۔ طالبان نے کابل انتظامیہ کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے ۔کچھ تجزیہ نگار طالبان سے مذاکرات کو ختم کرنے کے اعلان کو ان حملوں سے جوڑنے کی بجائے ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے لیے پالیسی کی عملداری کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کے بعد کہا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔امریکہ کی طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کی پالیسی ایسے وقت میں سامنے آ رہی جب رواں ماہ کابل میں امن کے لیے ایک بڑی بیٹھک ہونے جارہی ہے ۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان تدامتی یاماتو کے مطابق فروری میں ہونے والے مذاکرات کے لیے اقوام متحدہ کا مشن کابل حکومت کے ساتھ مل کر مذاکرات کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے تاہم انہوں نے طالبان سے مذاکرات کو جارج ازامکان قرار نہیں دیا ۔ انہوں نے ایک عالمی ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے بڑے واضح انداز میں کہا کہ حقیقی مذاکرات کے لیے باغیوں کی بات سنی جائے ۔طالبان سے مذاکرات کے لیے افغان حکومت کے علاوہ ہمسایہ ممالک کو بھی اعتما د میں لیا جانا چاہیے جبکہ امن عمل میں خطے کے دیگر ممالک بشمول پاکستان بھی اس میں شریک ہوں گے ۔ تاہم یاماتو کے مطابق اگر طالبان سے مذاکرات کیے جاتے ہیں تو اس عمل کو خفیہ رکھا جانا ضروری ہے ۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ افغانستان میں مذاکرات اور سیاسی حل کے لیے تمام فریقین کی شمولیت ضروری ہے اور اس کے لیے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا ۔
دوسری جانب افغان حکومت نے بھی امریکہ کی طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کے اعلان پر اختلاف کیا ہے ۔ افغان صدر اشرف غنی کے مطابق جو طالبان دہشت گردی اور جرائم میں ملوث نہیں ان کو امن عمل میں ساتھ ملایا جا سکتا ہے ۔اشرف غنی کے اس اعلان کی نیٹو نے بھی تائید کی ہے ۔نیٹو کے سویلین نمائندے نے نیٹو صدر کی جانب سے اشرف غنی سے ملاقات کرتے ہوئے ان کی قیادت پر اعتماد کے ساتھ ساتھ کہا ہے کہ نیٹو صدر ان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اورکہا کہ نیٹو کے تمام رکن ممالک افغان عوام کی سرپرستی میں ہونے والے مذاکرات عمل کی حمایت کرتے ہیں ۔اسی طرح سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ٹرمپ کی اس پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے بعد امن عمل ثبوتاز ہو جائے گا اور لڑائی طویل ہو جائے گی ۔حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ہمیں امن کی ضرورت ہے اور مزید جنگ و جدل نہیں چاہتے ۔ میں سختی سے اس پالیسی کی مخالفت کرتا ہوں کیونکہ اس سے لڑائی ختم ہونے کی بجائے جاری رہ ے گی۔ امریکہ کی اس پالیسی کو مسترد کرنے کے باوجود پاکستان کے حوالہ سے موجودہ صدر اشرف غنی ، سابق صدر امریکہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کی امریکی پالیسی پر افغان صدورایک ہی موقف اختیار کیے ہوئے ہیں ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہو گی کہ سابق صدر حامد کرزئی افغانستان میں داعش کو وسائل فراہم کرنے کے حوالے سے امریکہ پر الزامات لگا چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ انہیں اس پر کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ کے اڈوں سے داعش کو مکمل حمایت مل رہی ہے ۔ امریکہ نے حامد کرزئی کے ان الزامات کے جواب میں طویل خاموشی کے بعد ایک عام بیان میں تردید کی جس پراعتماد کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔اگر داعش یا دولت اسلامیہ کی تشکیل کودیکھا جائے تواشارے امریکہ کی طرف ہی جاتے نظر آتے ہیں ۔داعش کا نشانہ ذیادہ تر طالبان ہیں جو امریکہ کے دشمن ہیں یا پھر سرحد سے دوسری طرف پاکستانی چیک پوسٹس ہیں البتہ افغان عوام کی بڑی تعداد بھی ان کا نشانہ بن چکی ہے۔ ان کے حملوں میں دو چیزیں واضح نظر آتی ہیں ۔اول طالبان جو گزشتہ ستر ہ سالوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناقابل شکست رہے ان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے ۔دوم افغان عوام کو نشانہ بنا کر طالبان کی اسلامی تحریک کے خلاف عالمی سطح پر ماحول بنایا جا رہا ہے جس کے پیچھے اسلامی تحریکوں پر دہشت گردی کے الزام کو سچا ثابت کرنا اور افغانستان میں دہشت گردی کا ماحول بنا کر امریکی و اتحادی افواج کے لیے مزید قیام کا ماحول پیدا کرنا ہے۔
اس وقت بڑے سامنے کی بات ہے کہ امریکہ افغانستان اور بھارت اتفاق کرچکے ہیں کہ واقعہ کیسا بھی ہو اس کا فوری الزام پاکستان پر لگانا ضروری ہے جس کا عملی مظاہرہ ہمیں مسلسل دیکھنے کو مل رہا ہے۔گزشتہ سرہ سالہ جنگ میں امریکہ اور اتحادی ( جن میں دنیا کا سب سے بڑا فوجی اتحاد نیٹوبھی شامل ہے) افغانستان کی جنگ جیتنے میں ناکام رہے ۔ اس دوران امریکہ ایک کھرب سے زائد ڈالر خرچ کرنے اور تین ہزار کے قریب فوجیوں کی قربانی کے باوجودکسی قسم کی کامیابی کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔برطانوی نشریاتی ادارے کی گزشتہ دنوں کی رپورٹ امریکہ کے نام نہاد دعووں کی قلعی کھول دیتی ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ کی قیادت میں جنگ کرنے والے اتحادی طالبان کو شکست دینے میں ناکام نظر آرہے ہیں اور مجموعی طور پر افغانستان کے سر فیصد سے زائد علاقوں میں طالبان نہ صرف سرگرم عمل ہیں بلکہ انہیں مقامی حمایت بھی حاصل ہے ۔ افغان حکومت کا عمل دخل بہت محدود علاقے تک ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کابل سے باہر افغان حکومت محض چند اضلاع تک ہے تو اس میں بھی مبالغہ نظر آئے گا کیونکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے حملوں کو دیکھا جائے تو کابل کے ہائی سیکورٹی زون کو بھی کابل حکومت یا امریکہ و اتحادی افواج محفوظ بنانے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کی جانب سے طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان طالبان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
افغانستان میں امن کی بحالی ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر اس کے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ کر ہی کی جا سکتی ہے ۔ افغان قوم اور قبائل نے تاریخ میں کبھی کسی بیرونی جارح کو تسلیم نہیں کیا ۔ افغانستان میں ہندوستان کا اثر بھی تاریخی اعتبار سے موجود رہا ہے تاہم قیام پاکستان کے بعد بھارت نے پاکستان سے ملنے کی کسی بھی کوشش کو اپنے اثر و رسوخ سے کم کرنے کی کوشش کی اور جہاں اس کا اثرورسوخ کام نہ آیا وہاں اس نے موجود اپنے حمایتیوں کے ذریعے انارکی پھیلا کر افغانستان کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔اس بدامنی میں دوسرا بڑا عنصر حکومت میں موجود اس طبقے کا ہے جسے افغانستان میں امن سے ذیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔ یہ افغان ہونے کے باوجود اپنی تاریخ پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اربوں ڈالر کے اخراجات اور دنیا کی بہترین افواج کی موجودگی کے باوجود امن کہیں نظر نہیں آتا۔افغانستان میں امن کا واحد راستہ بیرونی قوتوں کا انخلاء ہے جبکہ یہ طبقہ انہیں اپنے اقتدار کا ضامن نظر آتا ہے۔ امریکہ افغان جنگ جیتنے کے جتنے بھی دعوے کر لے عملی طور پر ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ۔یہی وجہ ہے کہ 24گھنٹوں کے دوران 24گائڈڈ میزائل حملوں کے باوجود طالبان کے کسی بڑے نقصان کی اطلاع نہیں مل سکی ۔فضائی حملوں کی حکمت عملی پہلے مرحلے میں بھی اپنائی گئی جو بری طرح ناکام ہو گئی تھی ۔اس حکمت عملی سے طالبان کے خلاف جنگ نہ ماضی میں جیتی جا سکی نہ ہی اس کا اب امکان نظر آتا ہے ۔ اس لیے امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر کا یہ دعویٰ کہ طالبان میدان میں جنگ جیت نہیں سکتے زمینی حقائق سے بالکل برعکس ہے ۔اس لیے نیٹو کمانڈر کو امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کی وہ بحث دیکھنی چاہیے جو گزشتہ مہلک حملوں کے بعد کی گئی جس میں پنٹاگان کی بریفنگ کے بعد اعتراف کیا گیا کہ امریکہ کھائی میں پھنس چکا ہے جبکہ نائب وزیر خارجہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کوئی روشن تصویر پیش نہیں کر رہی اس لیے ہمیں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے ۔ اس سارے منظرنامے سے واضح ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کا بڑا ہدف افغانستان میں امن نہیں بلکہ پاکستان ہے جس پر وہ دباؤ بڑھا کر جنوبی ایشیا میں چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔دوسری جانب خطے کی دو بڑی طاقتیں چین اور روس متفق ہیں کہ خطے کی ترقی کاراستہ افغانستان میں امن عمل کے ذریعے ہو کرگزرتا ہے جو پاکستان کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ بات افغانستان میں موجود حکومتی طبقے کو بھی سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ و بھارت کے لیے خطے میں تناؤ سازگار ہے جبکہ تجارت و ترقی اور عمل کے لیے چین و روس کے تعاون سے ہونے والا امن عمل ضروری ہے اور پاکستان کے بغیر یہ امن عمل ممکن نظر نہیں آتا۔