بنا محنت کے کامیابی ممکن نہیں  

 
0
32395

تحریر:عاصمہ فضیلت

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی بادشاہ نے اپنے ملک کے سارے عقلمند اور دانا لوگ اکٹھے کئے اور ان سے کہا میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ ایک ایسا نصاب ترتیب دو جس سے میرے ملک کے نوجوانوں کو کامیابی کے اصول کا پتہ چل جائے ۔ میں ہر نوجوان کو اس کی منزل کا کامیاب شخص دیکھنا چاہتا ہوں ۔ایک طویل عرصہ میں دانا لوگوں کی سر توڑ محنت سے ہزاروں صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھ کر بادشاہ کو پیش کی گئی۔ بادشاہ نے کتاب دیکھتے ہی یہ کہہ کر واپس لوٹا دی کہ نوجوانوں کو یہ کتاب کوئی فائدہ نہیں دے سکتی ، اس کو مختصر کر کے لاؤ۔ مزید محنت اور کوشش سے ہزاروں صفحات سے مختصر کر کے سینکڑوں صفحات پر بنا کر لائے، تو بھی بادشاہ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور مزید مختصر کرنے کاحکم دے دیا۔ آخر کار ملک کے سارے دانا لوگوں کی مہینوں کی محنت اور کوشش رنگ لے آئی اور وہ کامیابی کے اصول بیان کرنے میں کامیاب ہو گے ۔وہ تھا ایک جملہ 249249 بغیر محنت کے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی ،، پس! اس جملے کو کامیابی کا سنہر ی اصول قرار دیدیا گیا ۔ اور طے پایا کہ یہی اصول محنت اور جذبہ کے ساتھ کسی کو کامیابی کے ساتھ منزل کی طرف گامزن رکھ سکتا ہے ۔

اگر ہم دنیا کا مشاہدہ کریں تو یہ حقیقت ہے ،بنا محنت کے کوئی کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ یہ محنت ہی ہے جو نک ووڈمین کو مسلسل تین بار ناکامی کے بعد کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے اب ساری دنیا میں پہننے کے قابل کیمروں کی تخلیق کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ مسلسل ناکامیوں کا شکار رہنے والے نک ووڈ کو محنت نے ہی دنیا کے کم ترین ارب پتی افراد کی صف میں لاکھڑا کیا ہے، اور امریکا کی سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی کیمرہ کمپنی GOPROکا مالک بن گیاہے ۔یہ محنت ہی ہے جس نے کسان کے بیٹے بل گیٹس کو دنیا کا امیر ترین شخص بنا دیا ہے۔ بل گیٹس کو کامیابی کیسی نے پلیٹ میں رکھ کے پیش نہیں کی ، بلکہ پہلی کمپنی Traf -o.Dat جس کا مقصد سڑکوں پر موجود ٹریفک کے کاونٹرز پر موجود خام مواد کو پڑھنا اور ٹریفک انجینئرز کے لئے رپورٹ تیار کرنا تھا، کی ناکامی کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور کاروباری زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے رہے ، بڑی محنت اور لکن سے کام کرتے رہے جس کے نتیجہ میں آخرکار مائیکروسافٹ دنیا کی سب سے بڑی پرسنل کمپیوٹر سافٹ ویئر کمپنی بن کر ابھری۔یہ محنت ہی کا نتیجہ ہے ایک عام سا لڑکا بانی پاکستان بن جاتا ہے اور بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔تھمسن ایڈیشن دنیا کو روشنی سے ہمکنار کرنے کے لئے نو ہزار نوسونوانے بار کوشش کرنے کے بعد بلب بنانے میں کامیاب ہو تا ہے۔یہ محنت کا ہی کرشمہ ہے کہ ملک برطانیہ میں اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کی خاطر چندہ اکھٹاکرنے والی لڑکی بارہ برس بعد برطانیہ کی پہلی خاتون وزیراعظم بنتی ہے۔اسی طرح اگر براعظم جنوبی امریکہ کو دیکھیں ، ایک فقیر کا بیٹا جو ہولی ووڈ کے سیٹ پردل میں اداکار بننے کا خواب لیئے سب کو چاہے پیش کرتا تھا، دو سال بعد جم کیری کی صو رت میں آسکرایوارڈ حاصل کرتا ہے ۔اگر ہم ان شخصیات کا مشاہدہ کریں تو واضح ہے کوئی کامیابی محنت کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا کی ترقی ، ایجادات، تحقیق و تجس، سانئس کے کارنامے ، انجن ، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلی فون ، ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب محنت ہی کے تو کرشمے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا ۔

نامی بغیر کوئی مشقت نہیں ہوا

سو بار جب عقیق کٹا نگین ہوا

یہ سچ ہے کہ بنا محنت کے کچھ بھی ممکن نہیں ، انسانی زندگی کے علاوہ اگر ہم اپنے ارد گرد حیوانات ، چرند پرند کی زندگی کا مشاہدہ کریں توبھی اس حقیقت کو چھٹلا نہیں سکتے۔ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے ، اس بات کو اگر ایسے لیا جائے ,,کچھ پانے کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے تو غلط نا ہو گا۔ واضح ہے تمام جاندار اشیاء کو بھی اپنی خوراک حاصل کرنے اور خود کو زندہ رکھنے کے لئے کوشش اور محنت کرنا پڑتی ہے۔پیاسا کوا اگر جھیل کے کنارے لگے درخت پرپیاسا بیٹھا رہے اور آگے بڑھ کر پانی پینے کی کوشش نا کرے تو وہ پیاسا ہی رہ جاتا ہے۔ اسے اپنی پیاس بچھانے کے لئے درخت سے اڑ کر جھیل کے کنارے آنا پڑتا ہے ۔ چیونٹی کو دانہ اکٹھا کرنے کے لئے اپنی بل سے نکلنا پڑتا ہے۔ شہد کی مکھی شہد اکٹھا کرنے کے لئے اپنے چتھے سے نکل کر ہزاروں کی تعداد میں باغات میں لگے ایک ایک پھول پر جاتی ہے۔ جنگل کا بادشاہ شکار کے لئے اپنی بل سے نکل کر جنگل کا چپا چپا چھان مارتا ہے ۔چڑیا اپنے بچوں کے لئے دانہ لانے کے واسطے فصلوں کا رخ کرتی ہے ۔اسی طرح باقی جانداربھی خود کو زندہ رکھنے کے لئے محنت کرتے ہیں جاندار اشیا ء کے علاوہ نباتات حاصل کرنے کے لئے بھی سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ جیسے سونا آگ میں جل کر کندن بنتا ہے اور کندن بننے سے پہلے سونے کے حصول کے لئے منوں مٹی کو کھودا جاتا ہے۔ منوں مٹی کی کھدائی کے نتیجے میں قلیل مقدار میں سونا حاصل ہوتا ہے ۔ کھودی گئی مٹی کو کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تب کہیں سونے کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ منوں مٹی کھدائی کے باوجود نتائج حسب توقع حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ پھر بھی کانکنی کے دوران کسی بھی قسم کی نا امیدی کا شکار ہوئے بغیر کھدائی کے کا م کو نہایت انہماک سے انجام دیا جاتا ہے اور سونے جیسے دھات کے حصول کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔اسی طرح زندگی میں ترقی اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے جسجو، انتھک محنت اور سخت جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوابوں سے تعبیر اور پھر تعمیر تک کے اس پر خطراور مشکل ترین سفر میں جان کو پکھلانا پڑتا ہے،مشکل لمحات انتہائی کھٹن مراحل اور تکلیف دہ راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔بہت ہی تنگ کھائیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر کامیابی کے ستارے مقدر بنا کرتے ہیں۔اکثر سننے میں آتا ہے ہم کامیاب ہونا تو چاہتے ہیں، لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ کامیاب ہو سکیں۔اسے لوگ مالی مشکلات یا خاندان کی سپورٹ نا ہونے کی وجہ سے کوشش کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار دیتے ہیں۔دراصل ایسے لوگ صرف کامیاب لوگوں کی کامیابی ، دولت اور شہرت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ،لیکن ان کی کامیابی کے پیجھے کی گئی محنت ، کوشش، اورپیش آنی والی مشکلات کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔بلکہ اپنے مسائل اور حالات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ دولت، شہرت، اور کامیابی حاصل کرنا تو چاہتے ہیں لیکن محنت نہیں کرنا چاہتے ۔ یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ کا حوالا دینا چاہوں گی۔

پہلی جنگ اعظیم سے قبل جرمنی کے بادشاہ قیصر ویلیم نے سوئٹزرلینڈکا دورہ کیا ۔ قیصر ویلیم یہ دیکھ کے حیران رہ گیا کہ سوئٹزرلینڈ جو کہ ایک چھوٹا سا ملک ہے ، لیکن اس کے باوجود اس کی فوج بہت منظم اور پیشہ وارنہ مہارت کی حامل ہے۔ فوجی آفسروں سے ملاقات کے دوران

قیصر ویلیم نے ایک فوجی آفسر سے سوال کیا اور کہا جرمنی کی فوج بانسبت سوئٹزرلینڈ کے اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعداد میں بھی دوگنا ہے۔ اگر وہ آپ کے ملک پر حملہ کر دے توتم کیا کرو گے؟ ایک آفسر نے اس سوال کو بڑی سنجیدگی سے سنا اور بہت سنجیدگی سے جواب دیا کہ سر بس ہمیں ایک فائر کے بجائے دو فائر کرنے ہوں گے۔ سوئٹزرلینڈ کے فوجی کا یہ جملہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ وسائل اگر کم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کر سکتے ہیں۔آپ کی تعداد اگر فریق کے نصف بھی ہے توآپ دوگنی محنت کر کے زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہو سکتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر عظیم موجد، شخصیت، کاریگر یا عالم نے اپنی راحت و آرام والی

زندگی کو ترک کر کے ہی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔جو بھی کامیابی کی پرایز پے کرنے کے لئے تیار ہو ، یعنی محنت کرنے کے لئے تیار ہو،اور منزل تک پہنچانے کے راستے میں آنے والی ہر مشکلات کا ڈٹ کے مقابلہ کرے تو اسے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے ۔