حکومت اقتصادی ترقی کے وعدوں کوعملی شکل دینے میں ناکام

 
0
433

اسلام آباد اپریل 27(ٹی این ایس)پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنے آخری دنوں میں داخل ہوگئی ہے لیکن اس کے منشور میں شامل روشن پاکستان اور خوشحال پاکستان جیسے اقتصادی وعدے عملی شکل اختیار نہیں کرسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت نے بجلی کی زیادہ پیداوار کو یقینی بنادیا ہے لیکن توانائی شعبے کے دیگر محکموں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام میں متعدد خامیوں کے علاوہ گردشی قرضوں کی صورتحال ، ٹیکسیشن اصلاحات پروگرام،زرمبادلہ کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے ذخائر اور بڑھتے ہوئے تجارتی خساروں نے حکومتی پارٹی کے 2013کے منشور اور عملی پالیسیوں میں واضح فرق کو جنم دے دیا ہے۔ اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے معتبر تھنک ٹینک Policy Research Institute of Market Economy (PRIME)کی نئی رپورٹ کے مطابق 2013میں موجودہ حکومت کی اقتدار میں آنے کے بعد چار برسوں میں بجلی کی پیداوار میں 20فیصد اضافہ ہوا ہے،جبکہ 2018میں یہ اضافہ گزشتہ برس کی بہ نسبت 13فیصد زیادہ ہے ،لیکن ملک میں توانائی سیکیورٹی کو یقینی نہیں بنایا جاسکا ہے، جس کی وجہ توانائی شعبے کے دیگر محکموں کی خراب کارگردگی ہے۔ بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام(T&D) میں کوئی خاص بہتری نظر نہیں آئی ہے، اس مد میں خسارے کو 10فیصد سے کم سطح پر لانے کا حکومتی منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور یہ خسارہ 18فیصدکی سطح کو چھو رہا ہے۔ NEPRAنے مالی سال 2015اور 2016کے لئےT&Dخسارے کی حد 15.27 اور15.23 فیصد مقرر کی تھی لیکن یہ خسارے بالترتیب 18.7اور17.95فیصد رہے ہیں۔

بجلی کی تقسیم کرنے والی 10کمپنیوں میں سے پانچ کمپنیاں اپنی مقررہ حد خسارے کو برقرار نہیں رکھ سکی ہیں۔ ان کمپنیوں کاخساروں پر قابوپانے میں ناکامی کے باعث گردشی قرضے 700بلین روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ بجلی کی بلنگ کو 100فیصد کرنے کا منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا ہے اور اس وقت صرف 88فیصد بلنگ ہورہی ہے۔اس کے نتیجے میں ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کے باوجود توانائی سیکیورٹی یقینی نہیں ہوسکی اور ملک میں لوڈشیڈنگ پر بھی مکمل قابو نہیں پایا جاسکاہے۔ ملک میں ٹیکس وصولیوں کے بڑے ادارے ایف بی آر نے گزشتہ پانچ برس سالانہ ٹیکس وصولیوں کے اپنے اہداف مس کردئیے ہیں اگرچہ مالی سال 2014سے اس کی کارگردگی میں بہتری نظر آنا شروع ہوگئی ہے لیکن اس کی رفتار نہایت سست ہے ۔ایف بی آر کی فہرست کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1.31ملین افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں ، یہ تعداد 2016میں 1.14ملین اور 2013میں صرف 0.75ملین تھی۔ لیکن انکم ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی فہرست اور ایف بی آر کی ٹیکس ڈائریکٹری کا جائزہ لینے پر ناخوشگوار صورتحال سامنے آتی ہے۔ اس وقت Securities and Exchange Commission of Pakistanمیں رجسٹرڈ 72,500کمپنیوں میں سے صرف 43فیصد کمپنیاں ٹیکس ریٹرنز فائل کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ٹیکس کی ادائیگی رینکنگ میں 190ممالک میں 172ویں پوزیشن پر ہے۔

پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کی صورتحال بھی پریشان کن ہے۔پھیلتی ہوئی معیشت ، بڑھتی ہوئی قوت خرید اور بڑی تعداد میں شہروں کی جانب نقل مکانی کے باعث درآمدات میں ہمیشہ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ PRIMEکی تازہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017تک پاکستان کی درآمدات میں 2013کی بہ نسبت 21فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی عرصے میں برآمدات میں 12فیصد کمی آئی ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت کے پانچ برسوں میں تجارتی خسارہ 10 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی درآمدات میں بڑا حصّہ مشینری کا ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبے میں درآمد ہورہی ہے۔ جبکہ کم ہوتی برآمدات کی دو بڑی وجوہات پاکستان کے برآمدی اہداف یورپی یونین اور امریکہ کا عالمی معیشت میں گراوٹ سے متاثر ہونا اور ملک کے اندر صنعتی پیداوار میں کمی آنا ہے، جس کی بڑی وجہ ماضی قریب میں ملکی امن وامان کی صورتحال اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہیں۔موجودہ حکومت میں علاقائی تجارت میں بھی پاکستان کی کارگردگی میں کوئی بہتری نہیں دیکھی گئی ہے، اور ہمارا ملک اس کیٹیگری میں شامل189ممالک میں 171ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان صرف8فیصد تجارت کرتا ہے جبکہ آسیان ممالک آپس میں مجموعی طور پر 56فیصد تجارت رکھتے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت پاکستان کی بہ نسبت سری لنکا کے ساتھ دوگنا اور بنگلہ دیش کے ساتھ تین گنا زیادہ تجارت کرتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے گزشتہ چار سالوں میں چین کے ساتھ پاکستان کے تجارتی خسارے میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ خسارہ2013میں 4.032بلین ڈالر تھا جبکہ 2017میں 12.67بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

موجودہ حکومت بڑھتے ہوئے قرضوں پر بھی قابو نہیں پاسکی ہے۔پاکستان کا عوامی قرضہ مالی سال 2017میں 21,407بلین روپے تک پہنچ گیا ہے جو جی ڈی پی کا 67.2فیصد ہے۔ بہرحال اس کی شرح میں 3برس بعد کمی دیکھی گئی، تین برسوں تک قرضوں میں 12فیصد اضافہ ہوتا رہا جو گزشتہ سال کم ہوکر 8فیصد رہا۔لیکن اندرونی قرضے پچھلے چار برسوں میں دوہرے ہندسوں سے بڑھتے رہے۔ جبکہ بیرونی قرضے تقریباً 89بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ IMF نے پاکستان کو سرخ جھنڈی دکھا دی ہے۔فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ کم ہوتے ذخائر اور بڑھتی ہوئی غیر ملکی مالیاتی ضروریات مستقبل میں پاکستان کے لئے بڑے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔لیکن حکومت کوئی خطرہ محسوس نہیں کر رہی، اس کے مطابق بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری شرح ترقی پر سمجھوتہ کئے اور ری شیڈولنگ کے بغیر ہی نبھائی جاسکتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اگلے پانچ برسوں تک قرضوں کی مد میں سالانہ 5بلین روپے ادا کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان نے موجودہ سے بھی کم ذخائر کے وقتوں میں اس سے بڑی رقوم ادا کی ہیں۔

موجودہ حکومت میں سرکاری کمپنیوں کی حالت بھی زار ابترہوتی رہی۔ پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلویز خسارے کرنے والے سرفہرست اداروں میں بدستورشامل ہیں۔پی آئی اے کا خسارہ 2015میں 33بلین ارب سے بڑھ کر 2016میں 45بلین روپے تک پہنچ گیا جو 36فیصد اضافہ ہے۔ یہ خسارہ بدستور جاری ہے ۔پاکستان ریلویز کا خسارہ60بلین روپے ہے ، اور پاکستان سٹیل ملز کا ماہانہ خسارہ509ملین روپے اور مجموعی خسارہ 177.78بلین روپے کے لگ بھگ ہے۔ موجودہ حکومت نے خساروں کے شکار سرکاری اداروں کی نجکاری کے منصوبے بنائے ،اور متعدد کو کابینہ کے اجلاسوں میں منظوری بھی ملی لیکن یہ نجکاری کمیشن میں جاکر سرد خانوں کی نذر ہوتے رہے۔ نجکاری کے لئے اداروں کی ری سٹرکچرنگ لازمی ہوتی ہے لیکن حکومت علامتی اقدامات کرتے ہوئے ہی نظر آرہی ہے جن میں میڈیا میں نت نئے اسکینڈلزآنے کے بعد اداروں کے بورڈز میں معمولی ردوبدل اور وقتی اعلانات پر اکتفاء کرنا شامل ہیں۔ یہ صورتحال تیزی سے مزید ابتر ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت سرکاری کاروباری اداروں کے مجموعی خسارے 1.2ٹریلین روپے سے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت ملک میں برسراقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) عام انتخابات کے لئے مہم چلانے میں مصروف ہے اور عوام سے بڑے بڑے وعدے کر رہی ہے لیکن اس کی پانچ سالہ حکومتی بالخصوص اقتصادی کارگرگی سنجیدہ نوعیت کے سوالات پیدا کر رہی ہے۔