سانحہ ساہیوال:جے آئی ٹی کی بددیانتی‘نامکمل ثبوت تجزئیے کے لیے فرانزک لیباٹری کو بجھوائے گئے

 
0
2741

لاہور جنوری 24 (ٹی این ایس): وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ ساہیوال کے حقائق اورمشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی حتمی رپورٹ تین دن میں قوم کے سامنے لا نے کاوعدہ کیا تھا مگر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ابھی تک ایک مبہم سی اور مفرضوں پر مبنی رپورٹ ہی پیش کرسکی ہے. رپورٹ سے ناقابل فہم کارروائی کے تضادات اور الجھاﺅ میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے. سی ٹی ڈی ‘ آئی جی پنجاب اورپنجاب حکومت کے وزیروں نے ساہیوال میں ظلم و بربریت اور حیوانگی پر شرمناک ردِعمل کا اظہار کیا .پنجاب حکومت نے دیدہ دلیری سے جھوٹ بولے پہلے کہا گیا کہ گاڑی میں اغوا کار تھے، تین بچے بازیاب کرا لئے گئے‘پھر کہا گیا دہشت گردوں سے مقابلہ ہوا 4دہشت گرد مارے گئے‘پہلا فائر گاڑی سے ہوا‘گاڑی سے گولہ بارود، خود کش جیکٹس، اسلحہ نکلا‘ گاڑی کے شیشے کالے تھے، خلیل خاندان نظر ہی نہ آیا‘ذیشان کا تعلق گوجرانوالہ میں خود کو اڑا لینے والے کاشف کاشی اور عبدالرحمان سے تھا ‘ یعنی کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سینکڑوں جھوٹ بولے جارہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے .اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ذیشان جاوید داعش کیلئے کام کر رہا تھا اور اس کا سال بھر سے پیچھا بھی کیا جا رہا تھا تو اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟پولیس اور سی ٹی ڈی سال بھر اس کا پیچھا کرتی رہی مگر اس کے مخبروں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کی گاڑی میں ایک معصوم خاندان سفر کررہا ہے. سی ٹی ڈی اورپولیس کا یہ وقف بھی انتہائی بھونڈا ہے کہ ذیشان اپنی گاڑی داعش کے لیے استعمال کرتا رہا ہے صرف ایک جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے جھو ٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں.عوام کی اکثریت پولیس کے خلاف تحقیقات کے لیے پولیس کی ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کسی رپورٹ پر یقین نہیں کرئے گی لہذا اس کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے‘جے آئی ٹی کی کارکردگی تو عوام کے سامنے آچکی ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر بیان ریکارڈ کروانے کے لیے آنے والے عینی شاہدین کی حوصلہ شکنی کررہی ہے جبکہ ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی صاحب اپنے مکمل پروٹوکول اور حفاظتی دستے کے ساتھ جائے وقوع کا دورہ فرما رہے ہیں جسے ٹیلی ویژن کے ذریعے پوری قوم دیکھ رہی ہے.عینی شاہدین سے کبھی پولیس لائنزاور کبھی سرکاری گیسٹ ہاﺅس آنے کا کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے جانبداری سے کام لے رہی . تحقیقات میں جانبداری کا عنصر ہوگا تو جے آئی ٹی کی رپورٹ کی کیا حیثیت ہوگی؟ 12سالہ عمیر کا یہ بیان کہ ”ابو نے کہا ہمیں مت مارو، پیسے لے لو، معاف کر دو“ یہ پولیس اور حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے یہ ثبوت ہے کہ پولیس عوام میں کس طرح کی شہرت رکھتی ہے عام شہری تھانے میں جانے سے ڈرتے ہیں کہ پولیس کا رویہ انتہائی برا ہوتا ہے.کیا تربیت یافتہ پولیس ایسے آپریشن کرتی ہے؟ کیا گاڑی روک کر گھیرا ڈالنا، وارننگ دینا، ہاتھ اوپر کرکے باہر آنے کا نہیں کہنا چاہئے تھا؟سامنے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ذیشان کا ایک ہاتھ گاڑی کے سٹیرنگ پر تھا اور اس نے سیٹ بیلٹ باندھا ہوا ہے‘پھر کہا گیا گاڑی پر اوکاڑہ ٹول ناکہ سے نظررکھی جارہی تھی تو جب گاڑی اوکاڑہ ٹول ناکہ پر رکی ہوگی تو وہاں موجود پولیس ناکے پر اسے روکا جاسکتا تھا کیونکہ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ٹول ناکوں کے ساتھ ہی مقامی پولیس اپنا ناکہ لگائے کھڑی ہوتی ہے.کیا کم ازکم ایک کوشش نہیں ہونا چاہئے تھی مبینہ دہشت گرد کو زندہ پکڑنے کیلئے، پھرجس دہشت گرد کا سال بھر سے پیچھا کیا جا رہا، جو دہشت گردوں، داعش کا سہولت کار، اسے تو زندہ پکڑنا چاہئے تھا تاکہ معلومات ملتیں، دہشت گردی کے نیٹ ورک کا پتا چلتا، اسے یوں مارنا تھا تو سال بھر پیچھا کیوں کیا گیا؟ پھر گاڑی میں دہشت گرد تھے تو انہوں نے مزاحمت کیوں نہ کی، پولیس لاشیں اور بچوں کو چھوڑ کر فرار کیوں ہو گئی، گاڑی سے ملنے والا اسلحہ اور خود کش جیکٹس اب تک کیوں منظر عام پر نہ لائی گئیں؟ گاڑی میں خود کش جیکٹس تھیں تو گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کے باوجود کیوں کوئی دھماکہ نہ ہوا؟ گاڑی میں بارودی مواد تھا تو سی ٹی ڈی نے کیوں بم ڈسپوزل اسکواڈ کو نہ بلایا؟ واقعہ کے بعد کیوں فرانزک ٹیم نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے نہ کئے؟ آپریشن کا کرائم سین کیوں محفوظ نہ کیا گیا؟ کیا کسی ریڈ بک میں خلیل، اس کی بیوی، بیٹی اور ذیشان کے نام بطور مشتبہ یا دہشت گرد درج تھے؟ کیا ذیشان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی؟ ایف آئی آر میں 16اہلکار نامزد مگر گرفتار 6 کیوں؟ اتنی چھوٹی سی گاڑی جس میں پہلے ہی 7لوگ بیٹھے ہوں، اس میں خود کش جیکٹیں، اسلحہ، بارود کیسے، کہاں تھا؟ اور یہ کہانی کہ ذیشان کو گھر میں اس لئے نہیں پکڑا گیا کہ کہیں وہ اپنے گھر میں پڑا منوں بارود پھاڑ نہ دے، شہری علاقے میں تباہی نہ ہو، اس لئے اس کے لاہور سے نکلنے کا انتظار کیا گیا، اب تو ذیشان جاوید مارا جا چکا، کم ازکم اب ہی اس کے گھر میں پڑا بارود دکھا دیا جائے.اگر سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویرکے ذریعے اس سانحہ کا بھانڈا نہ پھوڑ جاتا تو پنجاب کے بڑوں نے مل کر ثابت کر دینا تھا کہ یہ اغوا کار بھی، دہشت گرد بھی، بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپریشن کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کو سرٹیفکیٹ، نقد انعام ملتے، تعریفیں ہوتیں اور یہ ہمارے ہیرو ہوتے. لیکن ابھی بات ختم نہیں ہوئی، ابھی کئی اور کہانیاں مارکیٹ میں پھینکی جائیں گی اور چند دنوں بعد نہ جھوٹ سچ کا فرق رہ جائے گا.صوبائی حکومت نے جے آئی ٹی کو 3دن کا وقت دیا جبکہ آئی جی پنجاب نے آج ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 30دن کا وقت درکار ہے تو عدالت مہربانی کرکے ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش پر ہی مقدمات درج کرواکرسی ٹی ڈی اور مقامی پولیس کو ملازمتوں سے برخاست کرکے گرفتاریوں کو حکم دیدے کیونکہ ثبوت مٹانے کی شعوری کوشش بھی ناقابل معافی جرم ہے.صوبائی وزیر قانون نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اسی نامکمل رپورٹ کی بنیاد پر سی ٹی ڈی کے آپریشن کو سو فی صد درست قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ موقف اختیار کیا کہ مظلوم خاندان کے سربراہ خلیل اور اس کی بیوی اور بچی کا قتل جرم تھا، خلیل بے گناہ تھا اور سی ٹی ڈی کے متعلقہ اہلکار قتل کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی بنا پر پانچ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف قتل عمد کی دفعہ 302 کے تحت کارروائی ہوگی جبکہ دو متعلقہ ایڈیشنل آئی جی، ایک ڈی آئی جی اور ایک ایس ایس پی کو فارغ اور ڈی ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا ہے یہ افسران معطلی کے بعد کیبنٹ ڈویژن اور دیگر متعلقہ محکموں میں رپورٹ کریں گے اور چند ماہ بعد دوبارہ کسی نہ کسی عہدے پر براجمان ہونگے کیونکہ پولیس میں معطلی کو سزا نہیں سمجھا جاتا.پولیس کے ایک سابق آئی جی شیعب سڈل نے پولیس میں سدھار لانے کے لیے پولیس رولز میں تبدیلی کرکے انہیں فوج کے سروس رولز کی طرز پر مرتب کرنے کی سفارش کی تھی کہ جس طرح فوج سے ایک بار نکل جانے والے افسر یا سپاہی کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اسی طرح پولیس سروس رولزمیں معطلی کی بجائے برخاست کرکے ہمیشہ کے لیے جرم کے مرتکب افسر یا اہلکار پر پولیس سروس کے دروازے بند کردیئے جائیں.کئی ممالک میں تو جرائم میں ملوث پولیس اہلکاروں کو طویل عرصہ تک نگرانی میں رکھا جاتا ہے اور انہیں کسی دوسری ملازمت کے حصول میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے کہ انہیں کریمنیل چارجزپر سروس سے برخاست کیا گیا ہے. وزیر قانون کی جانب سے آپریشن کے سوفی صد درست ہونے کے دعوے کی بنیاد ڈرائیور ذیشان کا دہشت گرد باور کیا جانا ہے لیکن ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ وزیر موصوف ایک طرف ذیشان کو مجرم بتاتے اور دوسری طرف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بارے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مزید تحقیقات کرے گی.حالانکہ جتنے پرزور انداز میں وہ آپریشن کو مکمل طور پر درست ٹھہرارہے ہیں اس کا تقاضا تھا کہ ذیشان کے دہشت گرد ہونے کے یقینی ثبوت بھی اس دعوے کے ساتھ ہی قوم کے سامنے پیش کردیتے لیکن کم از کم تادم تحریر ایسا کوئی ٹھوس ثبوت پولیس اور حکام سامنے نہیں لاسکے ہیں. اگر ذیشان کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ایسے قابلِ اعتبار شواہد منظر عام پر لائے جاسکیں جن سے اس کا ماورائے عدالت قتل جائز ثابت ہوتا ہو تو حکومت سانحہ ساہیوال کے معاملے میں اپنی موجودہ کمزور پوزیشن سے بڑی حد تک نجات پاسکتی ہے لیکن خود جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ میں ذیشان کے بارے میں مزید تحقیقات کیلئے وقت مانگا گیا ہے.جے آئی ٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جب تک ساری چیزیں واضح نہ ہوجائیں اس وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا‘ ابتدائی شہادتوں اور لیبارٹری سے تجزیہ آنے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے اور لیبارٹری تجزیہ آنے کے بعد ہی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کریں گے. یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لیباٹری تجزئیے کے لیے ثبوت کہاں سے آئے؟ کیونکہ تمام ثبوت تو مٹادیئے گئے تھے اور اگر کچھ باقی بچے تھے تو وہ عوام کا جم غفیر جمع ہونے سے ضائع ہوگئے کیونکہ سی ٹی ڈی اہلکار ”کاروائی“کے فوری بعد کرائم سین محفوظ کیئے بغیر ہی وقوع سے فرار ہوگئے تھے.ذرائع کے مطابق تفتیش کیلئے فرانزک لیبارٹری کو ادھوری چیزیں بھیجی گئی ہیں‘ لیبارٹری کو سب مشین گنوںسے چلی ہوئی 45 گولیوں کے خول بھیجے گئے جبکہ سب مشین گنیں اور پوسٹ مارٹم سے ملی گولیاں نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے تجزیہ کرنا مشکل ہے. ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی سربراہ نے جائے وقوعہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی نیز حقائق کو مسخ کرنے کی خاطر واقعے کے بعد گاڑی میں خودکش جیکٹ اور اسلحہ رکھا گیا.ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نہ تو متاثرہ گاڑی کی فرانزک جانچ پڑتال کروا سکی اور نہ ہی متاثرہ خاندان کے افراد سمیت واقعہ کے عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کر سکی. یہ وہ عوامل ہیں جن کی بنا پر جے آئی ٹی کی تحقیقات ابتداءہی میں مشتبہ ہوگئی ہیں اور صورتِ حال کی پراسراریت ختم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے.