ڈالر جلانے سے اور جوتیاں مارنے سے معیشت ننگی کی ننگی رہے گی

 
0
39165

قسم ہے عصر کی کہ انسان گھاٹے میں پڑا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور جو ایک دوسرے کو دین حق کی پیروی کرنے اور صبر و تحمل کی تا کید کرتے رہے۔
کفار سے لمبی امیدیں لگانا غفلت ہے قرآن آخری کتاب ہے اور حضورﷺ آخری نبی ہے جسے حضورﷺ سے یا قرآن سے ایمان نہ ملا اسے کہیں سے نہیں مل سکتا جو نبیﷺ کے در سے محروم رہاوہ رب کے گھر سے محروم رہا۔ رب تعالیٰ کا کسی بندے کو چھوڑ کر اس سے بے پرداہ ہوجانا عذاب ہے۔ اور آج پرودگار عالم ہم سے بے پرواہ ہوگیا ہے اور ہم پر ڈالر کا عذاب نازل ہو گیا ہے پاکستانی عوام ڈالر کو جوتیاں مار رہے ہیں ڈالر جلا رہے ہیں فیس بک پر اسطرح کی مضحکہ خیز تصویریں ڈال رہے ہیں کیا ایسا کرنے سے پاکستان کی ننگی معیشت کو ڈھانپ دیا جائے گا؟ نہیں ہر گز نہیں! ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کو ایک “فقیر ” کے روپ میں پوری دنیا میں متعارف کروایا ہے اور جب دنیا کو علم ہو جائے کہ یہ ملک بھکاری بن چکا تو کسی کابھی دل چاہے گا ہم پر اپنی حکمرانی کرنے چلا آئے گا جیسے کہ آئی ایم ایف کو ہم نے اپنے اس خزانے پر بیٹھا دیا ہے جسکو بقول معیشت دان اور حکمران کے خالی ہے اگر خزانہ خالی تھا تو آئی ایم ایف کو کیا ضرورت تھی خالی خزانہ پر بیٹھنے کی دراصل عالمی قوتیں خالی خزانہ پر نہیں بیٹھیں بلکہ ایٹمی خزانے پر بیٹھنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کو یہ علم نہیں ہے کہ پاکستان کے ایٹمی خزانے کی محافظ “پاکستان آرمی”ہے جو کہ نمبر ون ہے پوری دنیا میں۔
بات معیشت کی اور ڈالر کی ہورہی تھی آستانہ کالم کہیں سے شروع کیا جا سکتا ہے، پاکستان کے عوا م ان دنوں جتنے پریشان ہیں اتنے پریشان شائد ہی پہلے کبھی نہ تھے آج زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جو زوال پذیر نہیں ہے ایک طرف ملکی معیشت کی سانسیں رک رہی ہیں اور دوسری طرف حکمران بیرونی قرضوں کے ذریعے آخری سانسیں لیتی معیشت کو بحال کرنے کی کو شش کررہی ہے اور آئی ایم ایف کے تمام کارندوں کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا ہے اور عوام کو آٹے، دال، چینی، گیس، بجلی اور موبائل بلوں کی طرف لگا دیا ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی میں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں ہر ماہ انکی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اکیلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھتی بلکہ
زندگی کو قائم رکھنے کیلئے کنزیومرز آیٹمز کی قیمتیں بھی ساتھ بڑھ جاتی ہیں ٹرانسپورٹ کے کرایہ میں اضافہ ہوجاتا جارہا ہے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ فیکٹریاں، کارخانے بند ہو رہے ہیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے عوامی نمائندوں کو کوئی فکر نہیں کیو نکہ وہ غریب عوام کے ٹیکسوں پر پل رہے ہیں ائیر کنڈیشن ماحول میسر ہے اجلاس کیلئے ہال ائیر کندیشن وہاں سے سرکاری گاڑی یاذاتی گاڑی ائیر کندیشن۔ اس سے عوامی نمائندوں کو کوئی غرض نہیں ہے کہ انکا ووٹر اپنی زندگی کس طرح گزار رہا ہے۔ “عوامی نمائندوں ” کی لوٹ مار کے اربوں ڈالرز بیرون ملک بینکوں میں محفوظ ہیں بڑے بڑے زمیندار او ر جاگیر دار وں کو ٹیکس کی ادائیگی سے محفوظ رکھ کر تنخواہ دار طبقے اور غریب عوام پر ٹیکس کا مزید بوجھ لاد ا جارہا ہے اور تو اور اب خوانچہ فروش بھی پروفیشنل ٹیکس دیں گے۔ ایک وقت یہ بھی آئے گا کہ بھیک مانگنے والے کو بھی ٹیکس نیٹ پر لایا جائے گا لیکن رمضان کے بھکاریوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے وہ زکوۃ اکٹھی کرکے لگژری زندگی گزارتے ہیں ان پر بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر حکومت جانے والی حکومت کو معیشت ننگی کرنے کا موردالزام ٹھہراتے ہیں کہ سابقہ حکومت کے بیرونی قرصوں کے بوجھ کی وجہ سے معیشت تباہ ہوگئی ہے اس لئے ہمیں حکومت کو چلانے کیلئے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضرورت ہے عوام پانی، بجلی، گیس، موبائل کارڈز، پر و فیشنل ٹیکس، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، تفریحی ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، اور نہ جانے کون کون سے ٹیکس ہیں جو ادا کرتے ہیں لیکن وہ ٹیکس جو عوام سے وصول کئے جاتے ہیں کہا ں خرچ ہوتے ہیں ہماری معصوم عوام نے کبھی کسی حکمران سے یہ سوال نہیں کیا صرف جو حکمرانوں نے کہہ دیا اس پر لبیک کر دیا ہمیں آئی ایم ایف کے قرضوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر عوام ساتھ دیں عوامی نمائندے اپنی دولت کو باہر کے بینکوں سے نکلو اکر قومی بینکوں میں جمع کروائیں ہماری حکومت اس نعرے پر حکمرانی کرنے آئی تھی کہ کرپشن کا روپیہ وہ کرپٹ لوگوں کے حلق سے نکالیں گی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں سب نے بار ی با ری کھیلنا ہے اور ایک دوسرے کو گندہ کرنا ہے اور اس تمام عذاب کو صر ف اور صرف عوام نے برداشت کرنا ہے کیونکہ حکمران نئے قرضوں کے حصول کیلئے بیرونی طاقتوں کا ہر حکم بلا چوں و چرا تسلیم کر چکے ہیں چاہئے وہ ملک وعوام کیلئے کتنے ہی خطرناک ثابت کیوں نہ ہوں انہوں نے اس بات پر بھی رضا مندی ظاہر کر دی ہے کہ ڈالر کی قیمت کو آسمان کی بلندیوں پرپہنچا کر دم لیں گے ڈالر کو جلانے یا جوتیاں مارنے سے ڈالر نیچے نہیں آئے گا بلکہ کرپشن اور سرکاری خزانے لوٹ مار کرنے والوں سے جب تک روپیہ نہیں نکلوایا جائے گا ڈالر نیچے نہیں آئے گا۔
ہم پر یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ جیسے عوام ہوں گے ویسے حکمران ان پر مسلط ہوتے رہیں گے ایسا تو ممکن نہیں ہے کہ درخت نیم کا ہو اوراس پر انگور کے خوشے لٹکیں اللہ تعالیٰ بھی اس قوم کی حا لت کبھی نہیں بدلتا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیا ل نہ ہو۔ خدارا کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ملکی معیشت کو کپڑے سے ڈھانپا جاسکے۔