سٹیٹ بینک نے اپنی اہم سالانہ مطبوعہ ’مالی استحکام کا جائزہ‘ برائے 2018ء جاری کردی

 
0
8837

اسلام آباد ستمبر 05 (ٹی این ایس): بینک دولت پاکستان نے اپنی اہم سالانہ مطبوعہ ’’مالی استحکام کا جائزہ‘‘ برائے 2018ء جاری کردی۔ جمعرات کو جاری اس جائزے میں بینکاری اداروں، غیر بینکاری مالی اداروں، مالی بازاروں، مبادلہ کمپنیوں، غیر مالی کارپوریٹ اداروں اور مالی منڈیوں کے انفرا سٹرکچر سمیت مالی شعبے کے مختلف زمروں کی کارکردگی اور خطرے کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ، اس میں مالی شعبے کے مجموعی استحکام پر تخمینی خطرات کے ممکنہ مضمرات پر بحث کی گئی ہے۔’’مالی استحکام کا جائزہ‘‘ میں کہا گیا ہے کہ 2018ء پاکستان کے مالی شعبے کے لیے ایک صبر آزما سال تھا۔ جڑواں خساروں اور مہنگائی کی بلند سطح سے ابھرنے والی کلی معاشی کمزوریوں نے استحکام کے اقدامات کو لازم کر دیا جن کے نتیجے میں اقتصادی نمو کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔
مالی بازاروں، خصوصاً بازارِ مبادلہ اور ایکویٹی بازاروں میں سست روی کا رجحان پایا گیا جس کے ساتھ تغیر پذیری میں بھی اضافہ ہوا۔ چنانچہ مالی شعبے کی نمو 2018ء میں معتدل ہو کر 7.5 فیصد ہوگئی۔ اسی طرح مالی گہرائی، جس کی پیمائش مالی اثاثہ جات بہ نسبت جی ڈی پی سے کی جاتی ہے، 2018ء میں کم ہو کر 73.0 فیصد رہ گئی جبکہ ایک سال قبل یہ 74.5 فیصد تھی۔ تاہم مالی اداروں اور مالی بازاروں کا انفرا سٹرکچر زیرِ جائزہ سال کے دوران بڑی حد تک مضبوط رہا اور مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھاتا رہا۔
مالی اداروں میں بینکاری کا شعبہ مضبوط رہا، جس کی شرحِ کفایتِ سرمایہ 16.2 فیصد کی مستحکم اور بلند سطح پر ہے ط جس کی کم از کم ضوابطی سطح 11.9 فیصد ہی- جبکہ رقم پر مبنی سیالیت بھی بلند ہے۔ دیگر عوامل میں سے، کارپوریٹ شعبے میں درجہ بندی کا کلچر پروان چڑھنے سے شرحِ کفایتِ سرمایہ میں اضافے کو ا?سانی ہوئی ہے۔ قرضوں اور ڈپازٹ کی شرح بڑھ کر 55.8 فیصد ہو جانے سے مالی وساطت بہتر ہوئی ہے، یہ شرح گذشتہ ا?ٹھ سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔
قرضوں میں اضافے نے مجموعی قرضوں اور غیر فعال قرضوں کا تناسب کم کرنے میں مدد دی ہے، تاہم اثاثہ جاتی معیار کے دیگر اظہاریوں میں معمولی کمی آئی کیونکہ 2018ء کے دوران غیر فعال قرضوں کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ بینکوں کا منافع مناسب رہا، تاہم تموین کے بلند اخراجات اور اس کے ساتھ انتظامی اخراجات بڑھنے اور یکبار ہونے والے غیر معمولی اخراجات نے ان کی نفع یابی کو گذشتہ سال کی سطح سے معمولی کم رکھا ہے۔
یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ مالکاری کی سرگرمیوں سے سودی ا?مدنی کے تناسب میں اضافے نے خالص سودی مارجن کو بہتر کر دیا ہے، جو کہ گذشتہ تین سال سے گر رہا تھا۔’مالی استحکام کا جائزہ‘‘ میں شعبہ بینکاری کو درپیش چند دشواریاں بھی اجاگر کی گئی ہیں۔ ڈپازٹس کی نمو میں مسلسل کمی جو گذشتہ چند سال سے جاری ہے، اثاثہ جات کی توسیع کے معاملے میں فنڈنگ کا خطرہ بن سکتی ہے۔
سرکاری شعبے میں بینکوں کے اکتشاف (exposure) کا مرتکز ہونا اگرچہ 2018ء میں پی آئی بیز کی خالص ادائیگی کے باعث کم ہوا تاہم خاصا نمایاں ہے۔ نیز، اینٹی منی لانڈرنگ/ دہشت گردی کی مالی معاونت اور سائبر سیکورٹی سے متعلق خطرات کم کرنے کیلئے مسلسل توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ مضبوطی کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ شعبہ بینکاری وسط مدت میں ملکی اور عالمی طور پر شدید دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسلامی بینکاری اداروں نے اپنی تیز رفتار نمو کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب بینکوں کے مجموعی اثاثوں میں ان کا حصہ 13.5 فیصد ہو چکا ہے۔ اس نمو کا بنیادی سبب مختلف معاشی شعبوں کے لیے ہونے والی وسیع البنیاد مالکاری سرگرمیاں ہیں جن میں اکثر مالکاری مشارکہ اور تقلیلِ مشارکہ جیسے نفع نقصان کے شراکتی طریقوں کے تحت دی جاتی ہے۔ اگرچہ اسلامی بینکاری اداروں کی مالی حالت مستحکم ہے، انہیں شریعت سے ہم آہنگ سرمایہ کاری کے طریقوں کی قلّت کا بدستور سامنا ہے جس کے باعث سیالیت کے موثر انتظام کی ان کی اہلیت اور ساتھ ساتھ ڈپازٹس جمع کرنے کی استعداد بھی محدود ہو جاتی ہے۔
مالی منڈیوں میں بلند تغیر پذیری کے باعث ایکویٹی مارکیٹ سے منسلک میوچل فنڈز جیسے غیر بینک مالی اداروں نے خطرے سے گریز بڑھا دیا، جس کے سبب زیرانتظام اثاثوں میں تخفیف ہوگئی ، اور انہوں نے بازارِ زر کے محفوظ آلات کی طرف منتقلی اختیار کی۔ دوسری جانب مالکاری پر مبنی غیر بینک مالی اداروں میں نمو ہوئی اور انہوں نے نسبتاً بہتر کارکردگی دکھائی۔
تاہم غیربینک مالی اداروں کو مالی خدمات بڑھانے کا موقع فراہم کرنے کی غرض سے ’’مالی استحکام کا جائزہ‘‘ 2018ء یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ صنعتی سطح کی حکمت عملی بنا کر ان مسائل کا سدباب کیا جائے جن میں بازارِ سرمایہ کا پست حجم اور محدود رسائی، سستے فنڈز کیحصول میں غیر بینک مالی اداروں کو درپیش مشکلات اور معیاری انسانی وسائل کا حصول شامل ہیں ۔
اسی طرح طویل مدتی منصوبہ جاتی مالکاری میں ترقیاتی مالی اداروں (ڈی ایف آئیز) کا کردار حوصلہ افزا نہیں رہا اور اس شعبے میں پیش رفت کے لیے ہم ا?ہنگ کوششیں درکار ہیں تاکہ طویل مدتی سستی فنڈنگ کاحصول سہل بنایا جاسکے۔اگرچہ مجموعی پریمیم میں اضافے کے سبب بیمے کی صنعت کے اثاثوں کی نمو پہلے سے بڑھی تاہم خالص دعوے بڑھنے سے اس کی نفع آوری کے اظہاریے رو بہ زوال ہیں۔
مزید برآں، بیمے کا نفوذ خاصا پست رہا، جس سے اس شعبے میں وسعت کی بھرپور گنجائش کی عکاسی ہوتی ہے۔’’مالی استحکام کا جائزہ ‘‘میں اجاگر کیا گیا کہ مالی منڈی کے انفراسٹرکچر مضبوط رہے، اور کسی بڑے خلل کے بغیر مؤثر کارکردگی دکھاتے رہے۔ بڑی مالیت کی اور خردہ دونوں طرح کی ادائیگیوں کے حجم اور مالیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ادائیگی کے برقی طریقوں کا استعمال بڑھنے سے صارفین کے اعتماد میں اضافے کی عکاسی ہوتی ہے۔
ڈجیٹل مالی خدمات کا وسیع تر استعمال بھی مالی شمولیت کے مقصد کو تقویت دے رہا ہے، جو اسٹیٹ بینک کے لیے اہم ترجیحی امور میں شامل ہے۔ بالخصوص برانچ لیس بینکاری اور ایم والٹ اکاؤنٹس کے ذریعے مالی خدمات کی رسائی ملک کے پسماندہ علاقوں تک بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی سے منسلک مالی خدمات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث سائبر سیکورٹی کے خطرات مالی منڈی کے انفراسٹرکچر کے لیے کلیدی خطرہ بن کرسامنے آئے ہیں۔
2018ء کے دوران نگراں اتھارٹیوں نے اس قسم کے خطرے پر اپنی توجہ بڑھائی ہے اور اسے کم کرنے کے لیے منڈی کے فریقوں کے اشتراک سے اقدامات کیے ہیں۔ مالی شعبے کے منظر نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے’’مالی استحکام کا جائزہ ‘‘اس امر کو اجاگر کرتا ہے کہ استحکام کے لیے درکار اقدامات سے اقتصادی سرگرمی کی رفتار مزید سست ہو سکتی ہے ۔ امکان ہے کہ بیرونی کھاتے کے عدم توازن اور متعلقہ غیر یقینی صورتِ حال کے مالی منڈیوں پر بالواسطہ اثرات ہوں گے۔
زری سختی قرض گیروں کی باز ادائیگی (repayment) کی استعداد پر کسی قدر تاخیر کے ساتھ اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ہمت آزما کلی معاشی ماحول میں کارپوریٹ شعبہ، جو پہلے ہی کارکردگی میں سستی کی علامات ظاہر کر رہا ہے، اپنی تمام تر صلاحیتوں سے پست کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ چنانچہ، مالی شعبے کی کارکردگی اور استحکام خاصی حد تک کلی معاشی صورتِ حال میں بہتری سے جڑا رہے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام پر کامیابی سے عمل درآمد سے توقع ہے کہ ملک میں کلی معاشی اور مالی شعبے میں استحکام پروان چڑھے گا۔ یہ جائزہ اس امر پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ اسٹیٹ بینک مالی شعبے میں ابھرتی ہوئی دشواریوں سے آگاہ ہے اور اپنے زیرِ نگرانی اداروں کیلئے اس نے مناسب اقدامات کیے ہیں تاکہ خطرے کے انتظام کے اقدامات کو تقویت دے کر استحکام کو بہتر بنایا جا سکے۔ مزید برآں، اسٹیٹ بینک مالی استحکام کو مضبوط بنانے کے اپنے تزویراتی (strategic) مقصد کے مطابق دیگر متعلقہ فریقوں کے اشتراک سے ایک مربوط کلی محتاطیہ پالیسی فریم ورک (ایم پی پی ایف) کی تشکیل اور نفاذ کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ پورے مالی شعبے کے استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔