بانی رہنما پاکستان تحریک انصاف اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ آج کل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کا وہ خط زیر بحث ہے جس میں انہوں نے عدالتی کارروائی میں اداروں کی مداخلت کی شکایت کرتے ہوئے مداوے کی درخواست کی ہے۔اس خط کے نتیجے میں ایک “انکوائری کمیشن” بننے کی اطلاعات ہیں۔
سوال سیدھا سادہ ہے۔ کیا “انکوائری کمیشن” اس مسئلے کا حل ہے یا پھر مسئلہ کچھ اور ہے اور حل بھی کچھ اور ہے۔1971 سے لے کر آج تک کئی سانحے ہو چکے اور متعدد “انکوائری کمیشن” رپورٹس اور سفارشات بھی مرتب کی جا چکیں۔ کیا کسی ایک سفارش پر کسی ایک شخص کو سزا ہوئی؟ یہاں تک کہ پاکستان دو لخت ہو گیا لیکن کسی ایک اہم کردار کو سزا تک نہ ہوئی؟تو آج ایک اور “انکوائری کمیشن” سے ایسی کوئی توقع رکھنا خام خیالی نہیں؟
جو معزز جج صاحبان آج عدالتی کارروائی میں مداخلت کی شکایت کر رہے ہیں وہ ماضی قریب میں جب عدالتی انجینئرنگ کے ذریعے سیاست کا رخ موڑا گیا تھا تو وہ اس وقت کہاں تھے؟جب 9 سال فارن فنڈنگ کیس کو “انجینئر اور مینیج” کیا گیا تو اس وقت وہ کہاں تھے؟جب پچھلے دس سالوں سے ملک میں بلووں اور انتشار کے ذریعے اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی پھر بھی آج تک ایک شخص کو سزا تک نہ ہوئی تب یہ معزز جج صاحبان کہاں تھے؟کیا یہ ممکن ہے کہ جو سیاست دان اور وکلاء کل تک “عدالتی انجینئرنگ” کا خود حصہ تھے آج اس خط کے ذریعے “low moral ground سے high moral ground” پر جانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ جس معاشرے میں “جزا و سزا” کا بنیادی فلسفہ ہی دفن ہو چکا ہو وہاں ایک اور “انکوائری کمیشن” کس کام کا؟