آذربائیجان پاکستان میں 2 سے 3 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا جائزہ لے رہا ہے۔صدرآذربائیجان الہام علیوف پاکستان میں اربوں کی سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں , وزیراعظم شہباز شریف دوست ملکوں سے اقتصادی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں، شہباز شریف دوست ملکوں امداد کی بجائے انوسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کا دورہ پاکستان تجارتی تعلقات بہتر بنائے گا۔ آذربائیجان کے ساتھ ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھانے پر بات چیت ہوگی۔آذربائیجان تیل و گیس سمیت معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ آذربائیجان کے تیل و گیس کی تلاش کے شعبے میں سرمایہ کاری پرغور کر رہا ہے، سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ آذربائیجان ایل این جی کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ اس بارے وفاقی وزیر برائے پٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف دوست ملکوں سے اقتصادی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں، دوست ملکوں امداد کی بجائے انوسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ آذربائیجان کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو فروغ دیا جائے گا۔
اس سے پہلے جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف 11 جولائی کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری دورے پر پہنچےتو صدر الہام علیوف کے طیارے کا پاکستان کی فضائی حدود میں آمد پر پاکستانی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے استقبال کیا اور منزل تک پہنچنے کے لیے تمام راستے اسکارٹ کیےرکھا ۔ پاکستان کے نور خان ایئر فورس بیس پر سربراہ مملکت جمہوریہ آذربائیجان صدر الہام علیوف کو دونوں ممالک کے قومی پرچموں سے مزین گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ آذربائیجان کے صدرکو 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔
صدر الہام علیوف کا پاکستان پہنچنے پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے استقبال کیا۔ استقبالیہ تقریب آذربائیجان کے صدر اور وزیراعظم پاکستان کے درمیان ملاقات کے بعد ہوئی۔آذربائیجان کے صدر دو روزہ دورے کے دوران صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کریں گے جبکہ دونوں فریق دو طرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر بات چیت بھی کریں گے۔آذربائیجان کو تیل اور قدرتی گیس کے وسیع وسائل کے لیے ’سرزمین آتش‘ کہا جاتا ہے۔ یورپی یونین کے ممالک اس وقت آذربائیجان سے ہر سال 8 ارب مکعب میٹر گیس درآمد کرتے ہیں۔
روس کی گیس کی سپلائی میں کمی سے دوچار یورپی یونین نے حال ہی میں آذربائیجان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے کہ وہ سنہ 2023 میں ممکنہ طور پر 12 ارب کیوبک میٹر اور سنہ 2027 تک 20 ارب مکعب میٹر تک گیس کی سپلائی میں اضافہ کرے۔
تاہم، معاہدے کا انحصار آذربائیجان میں سرمایہ کاری کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں پر ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے پاس اتنی مقدار میں گیس برآمد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔جب معروف سیاح مارکو پولو نے 13ویں صدی میں مشرقی قفقاز کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی یادداشتوں میں اس خطے کے قدرتی ’تیل کے چشموں‘ کے نغمے گائے ہیں۔
ملک میں قدرتی گیس کے وافر ذخائر نے گذشتہ 150 سال میں اس کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود زرتشتی مذہب کی وجہ سے آگ آذربائیجانی ثقافت اور اساطیر میں پیوست ہے۔ یہ دنیا کے قدیم ترین توحیدی مذاہب میں سے ایک ہے جس نے تین ہزار سال سے زیادہ پہلے یہاں اپنی جڑیں قائم کیں۔آذربائیجان کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آرمینیا کی 30 لاکھ آبادی مسیحیوں پر مشتمل ہے۔
زرتشت مذہب میں آگ مرکزی کردار کی حامل ہے۔ زرتشتیوں کے لیے آگ ان کے خدا کے ساتھ روحانی اور جسمانی رابطے کے لیے پل کا کام کرتی ہے، جس کے ذریعے فانی عقیدت مند خدا سے جڑ سکتے ہیں اور اندھیرے میں رہنے والی شیطانی قوتوں سے تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔کوئی بھی رسم آگ کے بغیر ادا نہیں کی جاتی اور خنالق کے قریب اس طرح کے آتش کدے باعقیدہ برادریوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ درحقیقت کچھ سکالرز کا خیال ہے کہ آذربائیجان کا نام آذر (فارسی میں ’آگ‘) اور بایگان (محافظ) کا مرکب ہے۔
آذربائیجان کی تاریخ کے مؤرخ کاظم عظیموف کا کہنا ہے کہ زرتشتی مذہب کی یہاں جڑ پکڑنے کی کئی وجوہات ہیں۔ شاہراہ ریشم کے اہم مقام پر آذربائیجان کی موجودگی نے زرتشتی تاجروں کو یہ سہولت فراہم کی کہ وہ مقامی آبادی کے ساتھ آسانی سے رابطے میں آسکیں۔ آذربائیجان قدرتی گیس کے ذخائر سے مالامال ہے اور اسی سبب اس مذہب کی مقدس آگ کو برقرار رکھنا آسان ہے۔ آج آذربائیجانیوں کی اکثریت مسلمان ہے لیکن زرتشتی عقائد، رسم و رواج اور روایات عصری ثقافت میں نظر آتی ہیں۔ ہر سال موسم بہار کی آمد کا جشن منانے کے لیے آذربائیجان میں نوروز منایا جاتا ہے۔ یہ روایت زرتشتی لوک داستانوں سے انھیں ملی ہے اور نوروز آذربائیجان کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق 93٫4 فیصد سے 96 فیصد آبادی مسلمان ہے جن میں 85 فیصد شیعہ اور 15 فیصد سنی ہیں۔ عیسائیوں میں اکثریت روسی آرتھوڈکس اور آرمینیائی آرتھوڈکس شامل ہیں۔ آذربائیجان کی فوک میں آبادی، لسانی گروہوں وغیرہ کی نمائندگی ہے۔ یہاں کردی، لزگن، تالیش، جارجین، روسی اور آرمینیائی زبانوں کے ریڈیو اسٹیشن بھی کام کرتے ہیں۔ ان کو حکومت کی طرف سے مالی امداد کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ بلقان میں موجود اسٹیشن آوار زبان میں اور خمچاز میں تات زبان میں بھی اسٹیشن کام کرتے ہیں۔ اسی طرح باکو میں کئی اخبارات روسی، کردی، لزگن اور تالیش زبانوں میں چھپتے ہیں۔ یہودی بھی اپنا ایک اخبار “عزیز” چھاپتے ہیں۔ قومی موسیقی کے آلات میں چودہ تاروں والے آلات، آٹھ پیٹنے والے تاشے اور چھ مختلف اقسام کے بانسری نما آلے شامل ہیں۔ یونیسکو کی جانب نے عالمی ورثے کی فہرست میں گوبستان ریاستی ریزرو، باکو کا آتشی مندر، مومن خاتون کا مزار اور شیکی میں خان محل شامل ہیں, یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ آذربائیجان دہشت گردی کے خلاف بننے والے بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ کوسوو، افغانستان اور عراق میں امن بحالی کی کوششوں میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ آذربائیجان نیٹو کے پروگرام “امن معاہدے ” کا بھی سرگرم رکن ہے۔ جمہوریہ آذربائیجان کی وزارت خارجہ ایک آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جو آذربائیجان کے قومی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ آذربائیجان کی خارجہ پالیسی، جس نے اپنی آزادی کو بحال کیا، کو کئی مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلا مرحلہ، جو آزادی کے پہلے سالوں پر محیط ہے، بشمول عالمی طاقتوں اور بڑی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعلقات کا قیام؛ دوسرا مرحلہ، جو 1993-2003 کے سالوں پر محیط ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں مزید توسیع کی خصوصیت ہے۔ اور تیسرا (موجودہ) مرحلہ، جس کی خصوصیت آذربائیجان کو ایک بااثر ریاست میں تبدیل کرنا اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک قابل اعتماد پارٹنر ہے۔ جمہوریہ آذربائیجان کا تعلق آذربائیجان کے لوگوں کے قومی رہنما حیدر علییف کے نام سے ہے۔ عظیم رہنما حیدر علیئیف کی طرف سے شروع کی گئی خارجہ پالیسی کو اب ان کے قابل جانشین الہام علیئیف، جمہوریہ آذربائیجان کے صدر کے ذریعے کامیابی سے جاری رکھا جا رہا ہے۔آذربائیجان میں چلائی جانے والی پہلی آزاد خارجہ پالیسی جمہوری جمہوریہ آذربائیجان کے دور کی ہے، جو 1918 میں قائم ہوئی تھی۔ جمہوری جمہوریہ آذربائیجان کے دورِ حکومت میں مسلم مشرق میں پہلی سیکولر جمہوری ریاست، وزارتِ خارجہ آذربائیجان نے آزاد آذربائیجان کی خارجہ پالیسی پر عمل کیا اور آذربائیجان اور مختلف بیرونی ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کیے؛ جمہوری جمہوریہ آذربائیجان کے تحت، آذربائیجان کے متعدد بیرونی ممالک میں سفارتی مشن تھے، جن میں ترکی، آرمینیا اور جارجیا، ایران میں ایک سفارت خانہ، کوبان اور ڈان حکومتوں کا ایک مجاز نمائندہ، اور پیرس امن کانفرنس کے لیے ایک مجاز وفد، پی پی سی اس کے علاوہ برطانیہ، آرمینیا، بیلجیم، یونان، جارجیا، ڈنمارک، اٹلی، لتھوانیا، ایران، پولینڈ، امریکہ، یوکرین، فن لینڈ، فرانس، سوئٹزرلینڈ اور سویڈن جیسے 16 بیرونی ممالک کی نمائندگی باکو میں کھولی گئی۔ سپریم وار کونسل کی طرف سے آذربائیجان کی آزادی کو تسلیم کرنے کے بعد، ایک اتحادی انتظامی تنظیم جو اینٹنٹ حکومتوں کی طرف سے تشکیل دی گئی تھی، سپریم وار کونسل آف دی اینٹین، جمہوریہ آذربائیجان کے سفارتی مشن مغربی یورپ اور امریکہ میں اینٹینٹی حکومتوں کے لیے بھی کھلے تھے۔ . تاہم، سوویت بالشویک حکومت کی جانب سے ڈی فیکٹو تسلیم شدہ جمہوریہ آذربائیجان پر قبضے نے ان منصوبوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات میں آذربائیجان کی آزاد نمائندگی کو ختم کر دیا۔ جمہوریہ آذربائیجان پر سوویت یونین کی بالشویک حکومت کے قبضے کے بعد وزارت خارجہ امور کو ختم کر دیا گیا، آذربائیجان ایس ایس آر کے خارجہ امور کی عوامی کمیساریٹ کے خاتمے کے 22 سال بعد، 8 مارچ 1944 کو، آذربائیجان کے سپریم سوویت ایس ایس آر کے اجلاس میں سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کے خارجہ امور کی عوامی کمیساریٹ کے قیام سے متعلق ایک قانون منظور کیا گیا۔ آذربائیجان کے سپریم سوویت آف آذربائیجان ایس ایس آر کے مارچ 1944 کے اجلاس میں اپنائے گئے قوانین کے مطابق، “سوویت سوشلسٹ جمہوریہ آذربائیجان کو بیرونی ممالک کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کرنے، ان کے ساتھ معاہدے کرنے اور سفارتی اور قونصلر مشن کے تبادلے کا حق حاصل تھا”۔ آئین میں ترامیم اور اضافے کے نتیجے میں، آذربائیجان کو غیر ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور سفارتی مشن بھیجنے اور واپس بلانے کا حق حاصل تھا۔ تاہم، آذربائیجان کے آئین کے آرٹیکل 46 میں کی گئی ترمیم کے مطابق، آذربائیجان کے بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات کو غیر ممالک کے ساتھ معاملات پر قائم کردہ عمومی قواعد کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔ساتویں صدی میں اسلام کے پھیلنے کے بعد ایران اور آذربائیجان میں زرتشتی تیزی سے محدود ہونے لگے اور بہت سے لوگوں کو اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر وسطی اور جنوبی ایشیا میں جا کر آباد ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔سنہ 1980 کی دہائی کے آخر سے، دو سابق سوویت ریاستیں نگورنو کاراباخ کے علاقے پر اپنے حق کے دعوے کے لیے لڑتی چلی آ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور دسیوں ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا حصہ ہے، لیکن جنگ کے بعد سے زیادہ تر ایک علیحدگی پسند، خود ساختہ جمہوریہ کے زیر انتظام ہے، جسے آرمینیائی نسل کے لوگ چلاتے ہیں آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین ستمبر اور نومبر سنہ 2020 کے درمیان ایک اور جنگ ہوئی تھی۔
اس بار آذربائیجان جسے ترکی کی حمایت حاصل تھی، کا پلڑا بھاری رہا اور اس نے نگورنو کاراباخ کے بڑے حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ روس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے تحت، آرمینیا نے وہاں سے فوجیوں کو واپس بلا لیا اور تقریباً 2000 روسی امن دستے جنگ بندی کی نگرانی کے لیے خطے میں تعینات کیے گئے۔ اس جنگ میں 6,600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ دونوں ملکوں کے رہنما نگورنو کاراباخ کے لیے امن معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے کئی بار ملاقاتیں کر چکے ہیں، لیکن تاحال کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہوا۔آذربائیجان کے موجودہ علاقے میں قدیم ترین انسانی آثار پتھر کے زمانے تک کے ملتے ہیں۔ یہ آثار مختلف غاروں میں محفوظ ہیں۔ شراب کی صراحیاں جو خشک ہو چکی ہیں، شہر خاموشاں اور مقابر میں ملی ہیں۔ یہ شراب تانبے کے دور میں بنائی جاتی تھی۔ جنوبی قفقاز کو اکامینڈس نے 550 قبل مسیح میں فتح کیا تھا اور اس سے زرتشتی مذہب کو فروغ ملا۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد یہاں دیگر ملحقہ علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔ عرب اموی خلیفہ نے ساسانیوں اور بازنطینیوں کو شکست دے کر قفقازی البانیہ کو فتح کر لیا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سالاریوں، ساجدی، شدادی، راوادی اور بائیدیوں کے قبضے میں رہا۔ 11 ویں صدی عیسوی کی ابتدا میں وسط ایشیا سے آنے والے ترک اوغدائی قبیلوں نے بتدریج اس علاقے پر قبضہ جمایا۔ ان بادشاہتوں میں سے پہلی بادشاہت غزنویوں کی تھی جنھوں نے 1030 میں اس علاقے پر قبضہ جمایا۔ مقامی طور پر بعد میں آنے والے سلجوقیوں پر اتابک نے فتح پائی۔ سلجوقیوں کے دور میں مقامی شعرا جیسا کہ نظامی گنجوی اور خاگانی شیروانی نے فارسی ادب کو بام عروج تک پہنچایا۔ یہ سب آج کل کے آذربائیجان میں ہوا۔ اس کے بعد یلدرمیوں نے مختصر قیام کیا اور ان کے بعد امیر تیمور آئے۔ جس کی مدد نوشیرواں نے کی۔ امیر تیمور کی موت کے بعد یہ علاقہ دو مخالف ریاستوں میں بٹ گیا۔ ان کے نام کارا کوئینلو اور اک کوئینلو تھے۔ اک کوئینلو کی موت کے بعد سلطان اذن حسن نے آذربائیجان کی پوری ریاست پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواں شاہوں کے پاس آیا جنھوں نے 861 سے 1539تک بطور خود مختار مقامی حکمران کے اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ شیروانیوں کے بعد صفویوں کی باری آئی اور انھوں نے شیعہ مذہب اس وقت کی سنی آبادی پر زبردستی لاگو کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے سنی عثمانیوں سے جنگیں بھی کیں۔ کچھ عرصہ بعد صفویوں کے زوال کے بعد کئی خانوں نے مقامی طور پر اینی حکومتیں قائم کر لیں اور ان کی باہمی لڑائیوں کا آغاز ہو گیا۔ ترکمانچی کے معاہدے کے بعد کئی علاقوں پر روسی قبضہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب روس کے زوال کا وقت آیا تو آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا نے مل کر ایک الگ متحدہ ریاست قائم کی جو مختصر عرصہ تک قائم رہی۔ مئی 1918ء میں یہ ریاست ختم ہوئی اور آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور اپنا نام عوامی جمہوریہ آذربائیجان رکھا۔ اس ریاست کو دنیا میں پہلی مسلمان پارلیمانی ریاست ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ دو سال بعد روسیوں نے اس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ مارچ 1922ء میں جارجیا اور آرمینیا کے ساتھایک نئی ٹرانس کاکیشیئن ایس ایف ایس آر بنائی جو روسی فیڈریشن کے ماتحت تھی۔ 1936ء میں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچی اور آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے سوویت یونین میں شمولیت اختیار کی۔آذربائیجان ایک سیکولر اور یونیٹاری جمہوریہ ہے۔ یہ ملک آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ اور کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی تنظیم کا بانی رکن ہے۔ ملک کا مستقل نمائندہ یورپی یونین میں موجود ہے، اسے یورپی کمیشن کے خصوصی ایلچی ہونے اور اقوام متحدہ کا رکن ، یورپی کونسل اور نیٹو کے قیام امن کے پروگرام میں بھی نمائندگی حاصل ہے۔ آذربائیجان نےمختصر مدت کے دوران 6 ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے اور جرمنی اور فن لینڈ میں اپنے سفارتکار بھیجے۔ بحرین آخری ملک تھا جس نے 6 نومبر 1996ء کو آذربائیجان کو تسلیم کیا۔ دو طرفہ سفارتی تعلقات جن میں سفارت کاروں کا تبادلہ بھی شامل ہے، سب سے پہلے ترکی، امریکا اور ایران کے ساتھ قائم ہوئے۔ اب تک آذربائیجان کے سفارتی تعلقات 158 ممالک کے ساتھ ہیں اور یہ 38 بین القوامی تنظیموں کا رکن بھی ہے۔ اسے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں مبصر کا درجہ ملا ہوا ہے۔ 9 مئی 2006ء میں آذربائیجان کو جنرل اسمبلی کے تحت بنائی جانے والی انسانی حقوق کی کونسل کا رکن بنایا گیا۔ اس کی مدت 19 جون 2006ء سے شروع ہوئی۔ خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سب سے پہلے اپنی سرحدی حدود کی بحالی جن میں نگورنوکاراباغ اور سات دیگر اضلاع شامل ہیں، ہمسائیہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارتی تعلقات، خطے میں سلامتی اور سکون کی ضمانت، یورپ میں شمولیت اور بین البراعظمی سلامتی اور تعاون، بین الخطی معاشی، توانائی اور ذرائع نقل و حمل شامل ہیں۔ 9 نومبر 1991ء میں جاری ہونے والے صدارتی فرمان کے مطابق موجودہ قومی افواج کی تشکیل کی گئی ۔ آذربائیجان کی افواج کے چار حصے ہیں : بری فوج، ہوائی فوج، بحری فوج اور فضائی دفاعی فوج۔ اس کے علاوہ نیشنل گارڈ، داخلی گارڈ، سرحدی گارڈ اور ساحلی گارڈ یعنی کوسٹ گارڈ بھی موجود ہیں۔ صدر کو افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت حاصل ہے۔
آزادی کے بعد آذربائیجان نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یورپی بینک برائے تعمیر و ترقی، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی رکنیت حاصل کی۔ بینکاری کا نظام دو سطحوں پر ہے جن میں نیشنل اور کامرس کے بینک شامل ہیں جو غیر بینکاری سرمایہ داری نظام کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ 1992ء میں سٹیٹ بینک کی بجائے نیشنل بینک قائم کیا گیا تھا۔ نیشنل بینک آذربائیجان کے قومی بینک کا کام کرتا ہے اور کرنسی کا اجرا اور دیگر امور اس کی نگرانی میں طے ہوتے ہیں۔ تجارتی بینکوں میں سے دو بڑے ببنک انٹرنینشل بین اور یونائیٹڈ یونیورسل جوائنٹ سٹاک بینک حکومت کی ملکیت ہیں۔ دو تہائی آذربائیجان تیل اور قدرتی گیس کے حوالے سے اہم ہے۔ دو تہائی آذربائیجان تیل اور قدرتی گیس کے حوالے سے اہم ہے۔ قفقاز صغیر کے اکثر حصوں میں سونا، چاندی، لوہا، تابنا، ٹائٹینیم، کرومیم، میگانیز، کوبالٹ، مولبڈینیم، مختلف اورز اور اینٹی منی ملتے ہیں 2007ء کے اوائل میں آذربائیجان میں کل 4755٫1 ہیکٹر زمین قابل کاشت ہے اور لکڑی کے 13 کروڑ 60 لاکھ مکعب میٹر ذخائر موجود ہیں۔ آذربائیجان کی سمندری تجارت کے ادارے کے پاس کل 54 جہاز ہیں۔ درآمد ہونے والی اکثر اشیا کے کچھ حصے اب آذربائیجان میں ہی تیار ہوتے ہیں۔دو تہائی آذربائیجان تیل اور قدرتی گیس کے حوالے سے اہم ہے۔ قفقاز صغیر کے اکثر حصوں میں سونا، چاندی، لوہا، تابنا، ٹائٹینیم، کرومیم، میگانیز، کوبالٹ، مولبڈینیم، مختلف اورز اور اینٹی منی ملتے ہیں 2007ء کے اوائل میں آذربائیجان میں کل 4755٫1 ہیکٹر زمین قابل کاشت ہے اور لکڑی کے 13 کروڑ 60 لاکھ مکعب میٹر ذخائر موجود ہیں۔ آذربائیجان کی سمندری تجارت کے ادارے کے پاس کل 54 جہاز ہیں۔ درآمد ہونے والی اکثر اشیا کے کچھ حصے اب آذربائیجان میں ہی تیار ہوتے ہیں۔