چین کی ثالثی میں الفتح ,حماس اختلافات ختم ;غزہ پر قومی مفاہمتی حکومت کے قیام پر متفق…………………………. چین میں ہونے والے مذاکرات میں الفتح اور حماس سمیت 14 فلسطینی دھڑے اختلافات ختم کرنے اور غزہ پر حکومت کے لیے ایک ’عبوری قومی مفاہمتی حکومت‘ کے قیام پر متفق ہوگئے ہیں۔
چینی قیادت عالمی امن کے لیے بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے جو کام او آئی سی ممالک نہیں کر سکے ,چینی قیادت نے اکیلےکیا اور او آئی سی اسلامی قیادت کے لیے ایک مثال بن گئےیاد رکھیں کہ اس سے پہلے 18 اپریل 2023 کو چین نے اسرائیل اور فلسطین کو ثالثی کی پیشکش کی تھی چین کے وزیر خارجہ نے اپنے اسرائیلی اور فلسطینی ہم منصبوں کو بتایا کہ ان کا ملک خطے میں ثالثی کی اپنی تازہ ترین کوششوں میں دونوں فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ وزارت خارجہ نے جاری بیانات میں کہا تھا دونوں عہدیداروں کو الگ الگ فون کالز میں کن گینگ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر چین کی تشویش کا اظہار کیا۔کن نے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے ساتھ اپنی بات چیت میں اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اور ایران نے بات چیت کے ذریعے اختلافات پر قابو پانے کی ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے کوہن کو بتایا تھا کہ بیجنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ سیاسی جرات کا مظاہرہ کریں اور امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا تھاکہ چین اس کے لیے سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحیح کام کرنے میں کبھی دیر نہیں لگتی۔اس سے پہلے 14 مار چ 2023مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے دشمنی رکھنے والے سعودی عرب اور ایران میں چین کی ثالثی میں تعلقات بحالی کا معاہدہ مذاکرات کے بعد کیا گیا تھا۔ چین کی جانب سےپاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کی تھی ہے کہ بیچ کا کوئی راستہ نکالا جا سکے۔پاکستان کے ساتھ پرانے سٹریٹجک تعلقات کے پیش نظر چین کو پاکستان اور افغانستان کے مابین بڑھتی کشیدگی پر شدید تشویش ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کسی صورت مفاہمت کی راہ نکالے۔ خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان سے متعلق پاکستان کے جو تحفظات ہیں ان کا کوئی مستقل حل نکالا جا سکےچینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ فلسطینی تنظیموں نے غزہ جنگ کے بعد عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ حماس کے رہنما نے چینی وزیرِ خارجہ اور فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ ” آج ہم نے قومی اتحاد کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے ہم اتحاد کے سفر کو مکمل کرنے کا راستہ کہہ سکتے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ ہم قومی اتحاد کے لیے پرعزم ہیں اور اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بعد چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ مصالحت فلسطینی دھڑوں کا اندرونی معاملہ ہے لیکن بین الاقوامی تعاون کے بغیر مصالحت کے فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ چینی وزیرِ خارجہ کے مطابق مذاکراتی عمل میں مصر، الجیریا اور روس کے سفیر بھی موجود تھے۔چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کے مطابق چین مشرقِ وسطیٰ میں استحکام اور امن کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے غزہ میں جامع اور طویل المدت جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا۔حماس اور اسرائیل کے تنازع میں مصر ایک مرکزی ثالث ہے جب کہ الجیریا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے جس نے غزہ جنگ بندی سے متعلق حال ہی میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی۔حماس اور فتح کے رہنما رواں برس اپریل میں بھی چین میں اکٹھے ہوئے تھے اور فریقین نے 17 سال سے جاری اختلاف کے خاتمے اور اعتماد کی بحالی کے لیے مذاکرات کیے تھے۔حماس اور فتح کئی سالوں سے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں دھڑوں کے درمیان کئی خون ریز تصادم بھی ہوئے جب کہ غزہ سے فتح کی بے دخلی اور 2006 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد حماس نے غزہ میں اپنی خودساختہ حکومت قائم کر لی تھی جب کہ فتح مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک حصے پر حکومت کر رہی ہے۔کئی فلسطینی حماس کو مزاحمتی گروہ قرار دیتے ہیں جو اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف رکھتا ہے جب کہ امریکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔فلسطینی گروہ ایسے موقع پر چین میں جمع ہوئے ہیں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان لگ بھگ ساڑھے نو ماہ سے جاری جنگ کے دوران اب تک غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق لگ بھگ 39 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔جنگ کا آغاز حماس کے اسرائیل پر گزشتہ برس سات اکتوبر کے حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیل کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ فریقین کے درمیان جنگ بندی کے لیے امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی بار مذاکرات دور ہو چکے ہیں۔ تاہم ہر بار فریقین ایک دوسرے پر الزامات لگا کر مذاکراتی عمل سے پیچھے ہو جاتے ہیں۔اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو مصر ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی جب کہ حماس کی قیادت نے جنگ بندی کے لیے اسرائیل افواج کے غزہ سے انخلا اور مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اعلیٰ سیاسی رہنما خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے کی جنگ بندی پر راضی ہونے کی خواہاں ہے۔ایک انٹرویو میں خلیل الحیہ نے کہا کہ اگر 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو حماس ہتھیار ڈال دے گی اور ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہو جائے گی۔حماس کے اعلیٰ سیاسی رہنما کی جانب سے یہ انٹرویو استنبول میں دیا گیا ہے اور یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے لیے مہینوں سے جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔خلیل الحیہ حماس کے اعلیٰ عہدے دار ہیں جو جنگ بندی اور یرغمالوں کے تبادلے کے لیے مذاکراتی عمل میں حماس کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ ان کا لہجہ کبھی مفاہمانہ تو کبھی جارحانہ ہوتا ہے۔حماس کی جانب سے یہ تجویز کہ حماس غیر مسلح ہو جائے گی، یہ بظاہر ایک رعایت معلوم ہوتی ہے کیوں کہ عسکریت پسند گروپ اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔البتہ یہ امکان نظر نہیں آتا کہ اسرائیل اس تجویز پر غور کرے گا یا نہیں، کیوں کہ سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کو کچلنے کا عزم کیا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل کی موجودہ قیادت 1967 کی مشرقِ وسطیٰ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے قبضہ کی گئی زمینوں پر فلسطینی ریاست کے قیام کی سخت مخالف ہے۔حماس فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) میں شامل ہونا چاہتی ہے تاکہ غزہ اور مغربی کنارے کے لیے ایک متحد حکومت بنائی جائے۔واضح رہے کہ پی ایل او کی سربراہی حماس کا حریف دھڑہ ‘الفتح’ کرتا ہے۔حماس اسرائیل کی 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک مکمل خود مختار فلسطینی ریاست اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کو قبول کرے گی اگر ایسا ہو جاتا ہے تو حماس کا عسکری ونگ تحلیل ہو جائے گا۔حماس رہنما نے کہا کہ “قابضین” کے خلاف لڑنے والوں کے تمام تجربات یہی رہے ہیں۔ جب وہ آزاد ہوئے اور اپنے حقوق اور ریاست حاصل کی تو ان قوتوں نے کیا کیا؟ وہ سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہو گئیں اور ان کا دفاع کرنے والی فورسز قومی فوج میں تبدیل ہو گئیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کے امکان پر اپنی پوزیشن میں لچک دکھائی ہے۔ لیکن اس کا باضابطہ سیاسی مؤقف دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک “فلسطین کی مکمل آزادی” رہا ہے۔ اس معاملے پر اسرائیل یا فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ خود مختار حکومت ہے جس نے حماس کو اس وقت باہر نکال دیا تھا جب حماس نے فلسطینی پارلیمانی الیکشنز جیتنے کے ایک سال بعد 2007 میں غزہ پر کنٹرول حاصل کیا تھا۔ غزہ پر حماس کے کنٹرول کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے پاس اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے کے نیم خود مختار حصوں کا انتظام رہ گیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ میں ایک آزاد ریاست کے قیام کی امید رکھتی ہے۔ یہ وہی علاقے ہیں جن پر 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ عالمی برادری بھی اس طرح کے دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ البتہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت اسے مسترد کرتی ہے۔ غزہ میں جنگ تقریباً 8 ماہ سے جاری ہے اور جنگ بندی کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا جس میں اسرائیلی حکام کے بقول 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائی شروع ہوئی جس میں اب تک 39 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس جنگ میں غزہ کی 23 لاکھ آبادی کا تقریباً 88 فی صد بے گھر ہو گیا ہے۔اسرائیل اب جنوبی شہر رفح میں زمینی آپریشن کی تیاری کر رہا ہے جہاں 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی پناہ کے لیے منتقل ہوئے تھے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے جنگ کے آغاز سے اب تک حماس کی ابتدائی دو درجن بٹالینز کو ختم کر دیا ہے لیکن باقی چار بٹالینز ر فح میں چھپی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حماس پر فتح کے لیے رفح کا آپریشن ضروری ہے۔حماس کا کہنا تھا کہ جنگ کے بعد سے باہر موجود سیاسی قیادت اور غزہ کے اندر موجود عسکری قیادت کے درمیان “بلا تعطل” رابطے ہیں اور دونوں گروہوں کے درمیان “رابطے، فیصلے اور ہدایات” مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔اس طرح کی کارروائی سے حماس کو تباہ کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی۔اگر وہ (حماس) کو ختم نہیں کر سکتے تو اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل اتفاقِ رائے کی طرف جانا ہے۔” اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت آئی سی جےنے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کو ’خلافِ قانون‘ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا کہا ہے مشاورتی رائے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) نے مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاری، مشرقی یروشلم کے الحاق، اس کی زمین پر مستقل کنٹرول اور فلسطینیوں کے خلاف امتیازی قوانین کی نشان دہی بھی کی ہے۔سال 2022 کے اواخر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مشرقی یروشلیم میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے ’دیرینہ قبضے، آباد کاری اور الحاق‘ جیسے اقدامات پر عالمی عدالتِ انصاف سے رائے طلب کی تھی۔اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم کے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ بعدازاں اسرائیل نے مغربی کنارے پر آبادکاری شروع کردی تھی اور اس میں تیزی سے اضافہ جاری رکھا۔ یہ وہ علاقے ہیں جنہیں فلسطینی اپنی آزاد ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ججوں پر مشتمل 15 رکنی پینل نے جمعے کو اپنی رائے میں کہا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں پر مستقل کنٹرول نافذ کرنے اور آبادیاں تعمیر کرکے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بطور قابض قوت اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کیا ہے۔پینل نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر آبادیوں کی تعمیر کا کام روک دے۔مشاورتی رائے میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی موجودگی خلافِ قانون ہے اور اسے جاری رکھنا ’غیر قانونی‘ ہے جسے ’جتنا جلد ہوسکے‘ ختم ہونا چاہیے۔اسرائیل اقوامِ متحدہ اور آئی سی جے پر اپنے خلاف جانب درانہ رویہ برتنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فلسطینی علاقوں سے متعلق معاملے پر آئی سی جے کی کسی سماعت میں شرکت نہیں کی تھی۔عالمی عدالت انصاف کی اس مشاورتی رائے پر عمل درآمد لازم نہیں۔ تاہم بین الاقوامی قانون اور اسرائیل کے قبضے سے متعلق واضح مؤقف کی وجہ سے وزن رکھتی ہے اور عالمی سطح پر اسرائیل کی حمایت کو کمزور بھی کرسکتی ہےفلسطینی صدر محمود عباس نے عدالت کے فیصلے کو “انصاف کی فتح” قرار دیا ہے۔لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، جنہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی ایک بڑی توسیع کی نگرانی کی ہے کہا کہ “یہودی افراد حود اپنی سرزمین پر قبضہ کرنے والے نہیں ہیں۔فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے متعلق یہ معاملہ گزشتہ برس اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی لڑائی سے بہت پہلے عالمی عدالت کے سامنے لایا گیا تھا۔ اسرائیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اس معاملے پر کوئی بھی مشاورتی رائے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع حل کرنے کی کوششوں کے لیے ’نقصان دہ‘ ثابت ہوگی۔آئی سی جے کی عدالت کے صدر نواف سلام نے مشاورتی رائے پڑھتے ہوئے کہا ’’مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل کی جانب سے آباکاروں کی منتقلی اور انہیں وہاں برقرار رکھنا چوتھے جنیوا کنوینشن کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی ہے۔‘‘عدالت نے اس بات پر بھی ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی کا دائرہ مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔آئی سی جے نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ بطور قابض قوت کے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ علاقوں کے قدرتی وسائل کا استعمال بھی بین الاقوامی قوانین سے ’غیر ہم آہنگ‘ ہے۔ یہ مشاورتی رائے ایسے حالات میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہونے والی جنگ کو 9 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔ایک علیحدہ مقدمے میں آئی سی جے جنوبی افریقہ کے ان دعوؤں کا جائزہ لے رہی ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیاں نسل کُشی کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔آئی سی جے میں فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی سے متعلق معاملہ غزہ میں جاری جنگ سے پہلے شروع ہوا تھا اور اس کا حالیہ تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔فلسطینی علاقوں سے متعلق جنرل اسمبلی کے عالمی عدالت سے رجوع کرنے کے بعد رواں برس فروری میں 50 ممالک نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اپنا مؤقف پیش کیا تھا۔اس کے علاوہ فلسطینی نمائندے نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ اسرائیل کو فوری طور پر تمام مقبوضہ علاقے خالی کر دینے چاہئیں اور وہاں قائم اپنی غیر قانونی آبادیاں بھی ختم کردینی چاہئیں۔آئی سی جے میں اپنا مؤقف پیش کرنے والے زیادہ تر ممالک نے عدالت سے کہا تھا کہ وہ اسرئیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دے جب کہ کینیڈا اور برطانیہ سمیت چند ممالک نے عدالت کو اس معاملے کی سماعت نہ کرنے کا کہا تھا۔اسرائیل کے سب سے قریبی اتحادی امریکہ نے عدالت پر زور دیا تھا کہ وہ مشاورتی رائے کا دائرہ محدود رکھے اور فلسطینی علاقوں سے اسرئیلی افواج کے غیر مشروط انخلا کے احکامات نہ دے۔اس سے قبل 2004 میں آئی سی جے نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے لگائے بیرئیرز کو بین الاقوامی قوانین کے منافی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاری کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ تاہم اسرائیل نے اس رولنگ کو مسترد کردیا تھا۔وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں قائم کی گئی اسرائیلی یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دینے کا خیر مقدم کیا ہے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے یہ ‘ ورڈکٹ’ جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022 میں اس سب سے بڑی عالمی عدالت سے درخواست کی تھی۔اس سلسلے میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی رائے اور ایک سیر حاصل جائزے کے بعد 19 جولائی کو یہ ‘ورڈکٹ’ جاری کیا ہے۔ کہ اسرائیل میں مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں دوسرے ملکوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کرنے کے لیے جو بستیاں قائم کر رکھی ہیں، وہ بین الاوامی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔2022 سے لے کر ‘ورڈکٹ’ آنے سے پہلے تک ہونے والی بین الاقوامی عدالت انصاف کی سماعتوں میں 52 مختلف ملکوں نے بھی یہودی بستیوں اور اسرائیلی قبضے کے حوالے سے اپنی اپنی رائے دی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے ان سب آراء کو پیش نظر رکھ کر یہ حکم جاری کیا ہے کہ اسرائیل غیر قانونی اقدامات کا مرتکب ہوا ہے۔یاد رہے اسرائیل نے ان فلسطینی علاقوں میں 1967 کی مشرق وسطیٰ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ اور اس کے بعد اس نے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کو لاکر آباد کرنے کی منظم حکمت عملی اختیار کر لی جس کے تحت اب تک مغربی کنارے میں لاکھوں یہودیوں کو آباد کر دیا ہے، جنہیں عرف عام میں یہودی آباد کار کہا جاتا ہے۔واضح رہے کہ یہ سارا علاقہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہے لیکن اسرائیل اس علاقے کو فلسطینی ریاست میں شامل کرنے سے درکنار ، سرے سے فلسطینی ریاست کے قائم کیے جانے کا ہی مخالف ہے۔ جیسا کہ جمعرات کے روز اسرائیلی پارلیمان نے اس بارے میں ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر بین الاقوامی عدالت انصاف کے ‘ورڈکٹ’ کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھا ہے ‘اسرائیل کو فلسطینی ریاست پر قبضے اور غیر قانونی یہودی آباد کاروں کی بستیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ بھی فلسطینی عوام کی جدوجہد کے جائز ہونے کو ثابت کرتا ہے۔’شہباز شریف نے مزید لکھا ‘میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ دو ریاستی حل سے متعقلہ قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ ہمیں فخر ہے کہ فلسطینی کاز کے لیے پاکستان نے اپنی غیرمتزلزل وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مقدمے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔’ خیال رہے کہ صہیونی فوج کی جانب سے انخلا کے حکم کے چند منٹ بعد جنوبی غزہ میں مشرقی خان یونس پر اسرائیلی فوج کی جانب سے فضائی اور زمینی حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں 77 فلسطینی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔غزہ کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جب کہ اسرائیل نے خبردار کیا کہ اس کی افواج علاقے میں ’زبردستی آپریشن‘ کریں گی۔ اسرائیل کی جانب سے انخلا کے نئے حکم سے 4 لاکھ سے زیادہ فلسطینی متاثر ہوئے ہیں۔اسرائیلی فوج کی طرف سے خان یونس کے کچھ حصوں بشمول ’المواسی ہیومنٹریئن زون‘ سے عارضی طور پر انخلا کے حکم کے بعد ہزاروں فلسطینی علاقے کے جنوبی علاقوں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔الفتح کے رہنما نے کہا ’غزہ پر نسل کشی کی جنگ کے ساتھ فلسطینی کاز جن مشکل حالات سے گزر رہی ہے، ان میں مفاہمت کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو حل کرنے اور ختم کرنے کے لیے تیار ہیں خیال رہے کہ جاپان نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے الزام میں 4 انفرادی اسرائیلی آباد کاروں کے اثاثے منجمد کرکے ان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔سیکرٹری یوشیماسا حیاشی نے کہا کہ مغربی کنارے میں کچھ اسرائیلی آباد کاروں کی پرتشدد کارروائیوں میں گزشتہ اکتوبر سے اضافہ ہوا ہے۔اس صورتحال میں اور جی 7 ممالک اور دیگر کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے، جاپان نے پرتشدد کارروائیوں میں ملوث 4 اسرائیلی آباد کاروں کے اثاثے منجمد کرنے کے فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ قابض فوج نے غزہ میں اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کردیا، غزہ جنگ میں اب تک فلسطینیوں کی شہادتیں 39 ہزار سے تجاوز کرگئیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد 89 ہزار 818 ہے۔