(اصغر علی مبارک)
کشمیر (ٹی این ایس) لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نےبھارت کا یوم جمہوریہ، یوم سیاہ کے طور پر منایا ,یوم سیاہ منانے کا مقصد عالمی برادری کی توجہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیرقانونی اور غاصبانہ قبضے کی طرف دلانا ہے۔ آئین کے تحت کشمیریوں کو دیا گیا تشخص چھین لیا گیا ہے، کشمیری سراپا احتجاج ہیں کہ ان کے بنیادی آئینی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں بھارتی یوم جمہوریہ کے خلاف کشمیری عوام نےپاکستان میں یوم سیاہ منایا، اس حوالے سے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے آل پارٹیز حریت کانفرنس کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج میں کشمیری مرد و خواتین اور بچوں سمیت عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی، مظاہرین نے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں، اور ہاتھوں میں سیاہ جھنڈے تھام رکھے تھے، مظاہرین نے بھارت کو فاشسٹ ملک قرار دیا۔مظاہرین نے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تمام انسانی حقوق سلب کر رکھے ہیں، بھارت کا جمہوریت کا راگ الاپنا دوہرے معیار کا ثبوت ہے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا کہ اپنی ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت الزام پاکستان پر لگاتا ہے، بھارت نے کینیڈا اور امریکا میں لوگوں کو قتل کرایا، محض اخلاقی، سفارتی حمایت سے یہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، کشمیر کی آزادی کے لیے ہمیں ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بھارت دہشت گرد ریاست ہے، دنیا بھارتی ریاست پر دہشت گردی کا مقدمہ چلائے، بھارت نے کشمیر نہیں بھارت میں اقلیتوں کو بھی ذبح کیا ہے، اس کے باوجود بھارت کو یوم جمہوریہ مناتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ چوہدری انوار الحق نے بھارتی وزیر داخلہ کے پاکستان پر دراندازی کے الزام کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت الزام پاکستان پر لگاتا ہے، دوہرے معیار اب نہیں چل سکیں گے، دنیا اب جان چکی ہے، اپنی آزادی کی جنگیں اپنے خون سے لڑنی پڑتی ہیں۔کشمیر صرف سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی خواہشات کا معاملہ ہے’پاکستان نے عالمی برادری کو واضح کر دیا ہے کہ کشمیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد کشمیر کے لوگوں کی خواہشات ہیں۔کشمیر کا مسئلہ صرف ایک سرحدی مسئلہ نہیں ہے، اس مسئلے سے کشمیر کے عوام جڑے ہوئے ہیں، یہ کشمیر کے لوگوں کے حق کا معاملہ ہےہم سب کشمیریوں کی جائز جدوجہد پر متفق ہیں، ہم سب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو تسلیم کرتے ہیں جو کشمیر میں برسوں اور خاص کر حالیہ برس سے جاری ہیں ہم سب کشمیر کے عوام کی بہادری پر بھی متفق ہیں جن کی تیسری نسل نے مزاحمت کو زندہ رکھا ہوا ہے پاکستان اور کشمیر کے لوگوں کا کلچر، عقیدہ، تاریخ اور تہذیب ایک ہے، ہر پاکستانی مسئلہ کشمیر کے ساتھ بھرپور عزم کے ساتھ جڑا ہوا ہےیہ پاکستان ہی ہے جو کشمیریوں کی جدوجہد کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور ہم ہر حال میں متحد رہیں گے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 2019 سے اب تک تین مرتبہ زیر بحث آنے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر اجاگر ہوا ہے کیونکہ بھارت نے متنازع خطے کو غیر قانونی طور پر ضم کرلیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں کئی مرتبہ زیر بحث آیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا تھا اور 18 خصوصی نمائندے مشترکہ طور پر خطے میں بھارتی مظالم پر بات کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر نے دو مرتبہ رپورٹ جاری کی ہے اور ہیومن رائٹس کونسل میں مسئلہ جموں و کشمیر پر 5 مرتبہ بات کر چکے ہیں ,یاد رہے کہ دفتر خارجہ میں گزشتہ میڈیا بریفنگ میں سینئر پاکستانی صحافی اصغر علی مبارک نے تنازعہ کشمیر سے متعلق سوال کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کریں گے وزیراعظم پاکستان نے آزاد کشمیر میں اپنے خطاب میں کہا ہےکہ کشمیری عوام بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں اور ظلم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ آرمی چیف کی وابستگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا جیسا کہ پاکستان کو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ان کے آخری دور حکومت میں ثالثی کا پیغام مل چکا ہے، کیا آپ اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے قبول کریں گے؟ ترجمان دفتر خارجہ نے جواب دیاکہ مسئلہ کشمیر پر ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور جیسا کہ آپ نے خود اپنے سوال میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کا حوالہ دیا ہے جو دنیا کے سامنے کھلا اور واضح ہے۔ اور جو بھی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا ہم تعاون کے لیے تیار ہوں گے۔ ہم اس کے حل کے لیے کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرتے ہیں خطے میں امن اور ترقی اس مسئلے کو کشمیری عوام کی مرضی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی ادارے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بھارتی مظالم کا پردہ چاک کر رہے ہیں, آج کے بھارت میں سیکولرازم دبتا ہوا اور ہندوتوا سوچ ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت کے رویے سے اس کے سارے پڑوسی نالاں ہیں اور نیپال، چین اور بنگلہ دیش سب کے ساتھ بھارت کا رویہ بدلا ہوا ہے جبکہ بھارت اسی رویے کے باعث تیزی سے اپنے پڑوسی ممالک سے دور ہو رہا ہے۔ بھارت میں آج اقلیتیں خود کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں، آج وہاں مسلمان، بنگالی، دلت کوئی محفوظ نہیں اور جمہوریت کے بجائے کالے قوانین کا نفاذ ہو رہا ہے یوم سیاہ منانے کا مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بے گناہ کشمیریوں کی زیر حراست ہلاکتوں اور مسلسل مظالم کی طرف دنیا کی توجہ دلانا بھی ہے۔ بھارت کے غیرقانونی قبضے میں موجود جموں وکشمیر کی کل جماعتی حریت کانفرنس نے عوام پر زور دیا کہ وہ بھارت کے غیر قانونی تسلط اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف آج احتجاجاً مکمل ہڑتال کریں۔ آزاد جموں وکشمیر کے تمام دس اضلاع میں بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالی اور مظاہرے کیے گئے ادھر پورے مقبوضہ علاقے بالخصوص کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم سمیت 26 جنوری کی سرکاری تقریبات کے مقامات کے گرد بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے قابض بھارتی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی سرینگر میں تین حصاروں پر مشتمل سیکیورٹی انتظامات کیے گئے اور پورے مقبوضہ علاقے میں جگہ جگہ قائم کی گئی چوکیوں پر لوگوں سے ناروا سلوک اختیار کیا جا رہا ہے۔ادھر حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ ہندوستان کا یوم جمہوریہ کشمیری یوم سیاہ کے طور پر منارہے ہیں اور ہندوستان نے کشمیریوں سے ہر حق چھین رکھا ہے۔ہندوستان نے کشمیریوں سے آزادی، جینے حتی کہ سانس لینے کا حق بھی چھین رکھا ہے اور حریت قیادت کو جیل میں بند رکھا ہے۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) نے بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ خطے میں تمام حقوق کو مکمل طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔یو این ایچ سی آر کے ترجمان روپرٹ کولویل نے ایک بیان میں کہا تھاکہ ‘بھارتی زیر تسلط کشمیر میں عوام کے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق سے محروم ہونے پر شدید تشویش ہے اور ہم بھارت کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ معمول کی صورت حال کو بحال کریں ,ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارتی حکومت سے مطالبہ ہے کہ مقبوضہ خطے میں معطل انسانی حقوق کو مکمل طور پر بحال کریں’۔ انہوں نے کہا تھاکہ ‘بھارت کی حکومت نے 5 اگست کو جموں و کشمیر کی ریاست کو جزوی طور پر حاصل خود مختاری کا قانون ختم کیا اور وفاقی کنٹرول میں دو یونین بنانے کا اعلان کیا تھاکشمیر میں بڑے پیمانے لوگوں کی نقل و حرکت روکنے، انہیں پرامن انداز میں اجتماع کے حق میں رکاوٹیں ڈالنے، صحت، تعلیم اور مذہبی فرائض کی آزادانہ ادائیگی کو روکنے کے لیے کرفیو نافذ ہے۔یو این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں کئی اطلاعات موصول ہوچکی ہیں کہ زیرحراست افراد کے ساتھ تشدد اور ناروا سلوک کیا جارہا ہے جس کی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انداز میں تفتیش کی اشد ضرورت ہے بھارت کی جانب سے 5 اگست کو کیے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یو این ایچ سی آر نے کہا کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے بڑا سیاسی فیصلہ متاثرہ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا یو این ایچ سی آر نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے پر زور دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ‘ان کے رہنما قید ہیں، ان کے باخبر رہنے کی سہولیات ختم کر دی گئی ہیں اور ان کے آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حق کو پامال کیا گیا ہےواضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 ‘اے’ اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔ 1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 ‘اے’ آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔ آرٹیکل 35 ‘اے’ کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ آئین کے آرٹیکل 35 ‘اے’ کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتییاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے 1947 کے بعد پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر کے رہائشی قانون میں تبدیلی کی گئی، رپورٹ کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کیے گئے آباد کاری کے اقدامات کی طرز پر عمل درآمد کرتے ہوئے مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اکثریتی خطے کی شناخت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔واضح رہے کہ ہمالیہ کا یہ خطہ 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہوگیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں 1989 سے قابض بھارتی فورسز اور حریت پسندوں کے درمیان جاری کشیدگی کے نتیجے میں اب تک لاکھوں کشمیری جان سے جا چکے ہیں خطے کی 65 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جہاں بھارتی حکومت کے خلاف 100 فیصد تک نفرت پائی جاتی ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل کو ختم کردیا تھا، جس کے مطابق ان کو علیحدہ پرچم اور آئین کا حق بھی حاصل تھا۔ مذکورہ اقدام سے قبل بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرکے کرفیو لگا دیا تھا، جہاں وادی میں پہلے سے ہی 5 لاکھ سے زائد بھارتی فوج تعینات ہیں جبکہ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا



                
		












