(اصغر علی مبارک)
کشمیر (ٹی این ایس) پانچ فروری گذشتہ 76 سالوں سے بھارت کے غیر قانونی قبضے کے تحت مقبوضہ کشمیر کے بے بس کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ہے۔جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا دارومدار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری امنگوں کے مطابق تنازع کشمیر کے حل پر ہےجب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازع جموں و کشمیر کا منصفانہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں۔پاکستان کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں ان کے ساتھ مکمل یکجہتی میں کھڑا ہےجموں و کشمیر کے بہادر بیٹوں اور بیٹیوں نے جبر کی تمام بھارتی کوششوں کا بہادری سے مقابلہ کیا ہےبھارت کشمیری عوام کی امنگوں کو دبانے میں ناکام رہا ہے اور کشمیریوں کی قربانیاں تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی عالمی برادری کو چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے، پانچ اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے لیےبھارت پر دباؤ ڈالے
پانچ فروری کوکشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے یوم یکجہتی کشمیر منانےکی تیاریاں آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔ اس ضمن میں یوم یکجہتی کشمیر بھرپور ملی جوش و جذبے کے ساتھ منانے کے لیے تیاریوں کا تفصیلی جائزہ کمیٹی برائے کشمیر اجلاس میں لیا گیا چیئرمین کشمیر کمیٹی رانا محمد قاسم نون نے کاکہنا ہےکہ 5 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔ اس دن کو منانے کے لیے قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے بھرپور عزم کا اعادہ کیا, یوم یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین کشمیر کمیٹی رانا محمد قاسم نون کی صدارت میں اہم اجلاس میں ممبران قومی اسمبلی، سینیٹرز، آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
چیئرمین کشمیر کمیٹی نے کہاہے کہ یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس سے ایک ریلی نکالی جائے گی، جس کی قیادت وہ خود کریں گے۔ اس ریلی میں اراکین پارلیمنٹ، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اسمبلی و کشمیر کونسل کے ممبران، تمام صوبوں اور گلگت بلتستان اسمبلیوں کے نمائندے، طلبہ، میڈیا کے نمائندے اور سول سوسائٹی کو مدعو کیا جائے گا۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی نے کہا ہےکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اور پاکستان کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔اجلاس میں شریک تمام اراکین نے کشمیر کمیٹی کی قیادت اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے کی چیئرمین کشمیر کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا رانا محمد قاسم نون نے وزارت کشمیر امور، وزارت اطلاعات و نشریات اور دیگر متعلقہ اداروں کو یوم یکجہتی کشمیر کو بھرپور انداز میں منانے کے لیے خصوصی اقدامات کی ہدایت دی۔اجلاس میں کمیٹی ممبران نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز رکھنے پر زور دیا۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں 5 فروری کو سیمینارز اور مباحثے منعقد کیے جائیں تاکہ نئی نسل کو کشمیر کے مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے۔
چیئرمین کشمیر کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے میڈیا، سول سوسائٹی اور نوجوانوں کے کردار کو کلیدی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 5 فروری کے بعد ایک بین الاقوامی کشمیر کانفرنس منعقد کی جائے گی تاکہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی برادری کے سامنے مزید نمایاں کیا جا سکے۔
یاد رہےکہ پاکستان کے شہری ہر سال پانچ فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن مناتے ہیں۔اس دن کی مناسبت سے پاکستان کو کشمیر سے ملانے والے راستوں اور دیگر اہم جگہوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کے ساتھ ساتھ جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اور کشمیری یوم یکجہتی کو ایک خاص دن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر منانے کی روایت پرانی ہے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ’پہلی بار 1931 میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن پورے بھارت میں منایاتھا,مہاراجہ ہری کے خلاف اٹھنے والی سیاسی تحریک کے ایک ناخوشگوار واقعے کے دوران 21 کشمیریوں کی موت کے بعد علامہ اقبال نے 14 اگست، 1931 کو ہندوستان بھر میں کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منانے کی کال دی , ’28 فروری، 1975 کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا گیاتھا,پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے منانے کا آغاز 1990 میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کیاتھا,اس وقت پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ جبکہ مرکز میں بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ قاضی حسین کی کال دینے کے بعد دونوں نے اس کال کی حمایت کی اور یوں پانچ فروری، 1990 کو پہلی بار سرکاری سطح پر منانے کا آغاز ہواتھابھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں کو آزادی اظہار رائے نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے وہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر یہ دن مناتے ہیں۔لائن آف کنٹرول کے اس پار کشمیری عملی جدو جہد کر رہے ہیں اور اس عملی جدو جہد میں ہم انہیں حوصلہ اور اپنے ساتھ کا یقین دلانے کے لیے یہ دن مناتے ہیں۔پاکستان کے شہری لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب رہنے والے کشمیریوں کے ساتھ، جو ریاستی جبر برداشت کر رہے ہیں، اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یقین دلاتے ہیں کہ ’ہم ان کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے’پاکستان نے عالمی برادری کو واضح کر دیا ہے کہ کشمیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد کشمیر کے لوگوں کی خواہشات ہیں۔کشمیر کا مسئلہ صرف ایک سرحدی مسئلہ نہیں ہے، اس مسئلے سے کشمیر کے عوام جڑے ہوئے ہیں، یہ کشمیر کے لوگوں کے حق کا معاملہ ہےہم سب کشمیریوں کی جائز جدوجہد پر متفق ہیں، ہم سب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو تسلیم کرتے ہیں جو کشمیر میں برسوں اور خاص کر حالیہ برس سے جاری ہیں ہم سب کشمیر کے عوام کی بہادری پر بھی متفق ہیں جن کی تیسری نسل نے مزاحمت کو زندہ رکھا ہوا ہے پاکستان اور کشمیر کے لوگوں کا کلچر، عقیدہ، تاریخ اور تہذیب ایک ہے، ہر پاکستانی مسئلہ کشمیر کے ساتھ بھرپور عزم کے ساتھ جڑا ہوا ہےیہ پاکستان ہی ہے جو کشمیریوں کی جدوجہد کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور ہم ہر حال میں متحد رہیں گے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 2019 سے اب تک تین مرتبہ زیر بحث آنے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر اجاگر ہوا ہے کیونکہ بھارت نے متنازع خطے کو غیر قانونی طور پر ضم کرلیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں کئی مرتبہ زیر بحث آیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا تھا اور 18 خصوصی نمائندے مشترکہ طور پر خطے میں بھارتی مظالم پر بات کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر نے دو مرتبہ رپورٹ جاری کی ہے اور ہیومن رائٹس کونسل میں مسئلہ جموں و کشمیر پر 5 مرتبہ بات کر چکے ہیں ,یاد رہے کہ دفتر خارجہ میں گزشتہ میڈیا بریفنگ میں سینئر پاکستانی صحافی اصغر علی مبارک نے تنازعہ کشمیر سے متعلق سوال کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کریں گے جیسا کہ پاکستان کو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ان کے آخری دور حکومت میں ثالثی کا پیغام مل چکا ہے، کیا آپ اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے قبول کریں گے؟ ترجمان دفتر خارجہ نے جواب دیاکہ مسئلہ کشمیر پر ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور جیسا کہ آپ نے خود اپنے سوال میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کا حوالہ دیا ہے جو دنیا کے سامنے کھلا اور واضح ہے۔ اور جو بھی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا ہم تعاون کے لیے تیار ہوں گے۔ ہم اس کے حل کے لیے کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرتے ہیں خطے میں امن اور ترقی اس مسئلے کو کشمیری عوام کی مرضی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے20 جنوری کو ضابطہ طور پر اپنا عہدہ سنبھال لیاہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسے وقت میں امریکہ کی صدارت سنبھالی ہے جب عالمی سیاست مشرق وسطیٰ کے بحران سے لے کر روس-یوکرین جنگ اور چین-امریکہ دشمنی کے گرد گھوم رہی ہے۔بھارت نے 1947 میں جموں وکشمیر پر ناجائز فوجی تسلط قائم کرکے کشمیری عوام کو محکوم بنایا اور وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دینے سے گریزاں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں رائے شماری کا موقع دیا جائے گا۔ بھارت طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیریوں اور عالمی برادری کی خواہشات کا احترام کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا واحد، دیرپا اور مستقل حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے ہی ممکن ہے ۔ پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ تنازع کشمیرکا حل اقوام متحدہ کی قرارداودں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے نکالا جائے۔کشمیری عوام بھارت کے تمام تر مظالم کے باوجود حق خود ارادیت کے حصول تک جدوجہدجاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل سے ہی برصغیر میں امن قائم ہوسکتا ہے۔بھارت نےکشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبانے کیلئے انہیں ہمیشہ ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ 75 برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اب بھی بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل اور بے دریغ پامالیاں جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کرہ ارض کا وہ واحد خطہ ہے جہاں محض چند ہزار مربع میل علاقے میں کم و بیش 9 لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں۔
بھارت سرزمین کشمیر پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط کو جاری رکھنے کےلئے اپنے تمام وسائل کو استعمال کررہا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی کشمیر پالیسی ظلم و ستم، ہٹ دھرمی اور جھوٹ پر مبنی ہے اور یہ پالیسی بھارت کی بڑی نام نہاد جمہوریت ہونے کے دعوئوں کی یکسر نفی کرتی ہے۔ بھارت خطے میں بالادست قوت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے،کشمیری عوام اور پاکستان نے کبھی بھی بھارتی بالادستی قبول نہیں کی ہے۔ 5 اگست 2019ءکو مقبوضہ کشمیرکوخصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کررہا ہے، اس مقصد کے لئے بھارت کی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں بھارتی قوانین کا اطلاق بھی عمل میں لایا ہے۔
بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا، حریت کانفرنس کی پوری قیادت اور آزادی پسند کارکنوں کو فرضی مقدمات میں جیلوں، عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کیا گیا ہے۔ کشمیری عوام بھارتی حکومت کے5 اگست 2019 کے غیر آئینی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا اور بھارتی باشندوں کو آباد کرنے کی گھنائونی سازش کا حصہ ہے۔بھارت کے موجودہ حکمرانوں خاص طور پر مودی کی جارحانہ پالیسی اور اقدامات نے خطہ کو سنگین خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ بھارت کشمیر میں ہندوتوا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، بھارت مقبوضہ علاقہ میں نوجوانوں کا قتل عام کررہا ہے، کشمیری عوام بھارت کی فرقہ پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے اقدامات کو مسترد کرتے ہیں۔
کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کسی کے زیر اثر یا تابع نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کے غیر قانونی فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد خود چلارہے ہیں، بھارت کے ان استبدادی ہتھکنڈوں اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیر کے عوام اپنی مبنی بر حق جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان اور دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی 5 فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن اس عہد کے ساتھ منا رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کی ہر قیمت پر حمایت جاری رکھی جائے گی۔ واضح رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود سب سے پرانا تنازعہ ہے، کشمیر میں ہزاروں افراد کالے قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، مقبوضہ علاقہ میں تحریک آزادی کے بعض کارکنوں کوموت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں، کشمیریوں کو انسانی حقوق کی پامالیوں اور ظلم وزیادتیوں کا نشانہ بنا کر خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری عوام کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ بھارت کے گھنا ئونے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اپنی جدوجہد آزادی کو منزل کے حصول تک جاری رکھیں گے۔جبکہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان اس بات کا تجدید عہد کرے گا کہ وہ کشمیریوں کی جائز اور مبنی بر صداقت جدوجہد آزادی کا ساتھ دیتا رہے گا۔