اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان بنگلہ دیش دوطرفہ مشاورت کے نئے دورکا آغاز

 
0
19

اصغر علی مبارک
اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان بنگلہ دیش دوطرفہ مشاورت کے نئے دورکا آغاز ہوگیاہے بنگلہ دیش کے مستقل اور موثر سفارتی تعلقات دونوں ممالک کے استحکام، سلامتی اور علاقائی مفادات کے لیے اہم ہیں۔ پاکستان تجارت، علاقائی رابطے اور سارک کے معاملات میں کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش پاکستان کے ذریعے ایران، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے15 سال کے وقفے کے بعد 17 اپریل 2025 کو ڈھاکہ میں خارجہ سیکرٹری سطح کی دوطرفہ مشاورت کا چھٹا دور ہوا 15 سال کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان اس قسم کی ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا ہو ئی ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست سے پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو کپاس سمیت کچھ مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کے امکانات کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کارگو کی ترسیل شروع ہو چکی ہے۔ حکومت ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دے رہی ہے جو بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی تعلقات سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی ’سرد مہری‘ کے باعث گذشتہ 15 سال سے تجارت، مواصلات اور دیگر شعبوں میں زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ بنگلہ دیش اور پاکستان ایک ہی خطے سے ہیں اور دونوں ہی سارک کے رکن ہیں۔ پاکستان کے اگست 2024 میں وزیر اعظم شہباز شریف نے شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پروفیسر محمد یونس کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی تھی۔ اس کے ایک ماہ بعد، ستمبر میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری کے کم ہونے کا اشارہ ملتا تھا۔ محمد یونس کے عبوری حکومت کے سربراہ بننے کے بعد سے ڈھاکہ اور اسلام آباد کے سفارت کار بھی زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے امکانات موجود ہیں۔ اس کے بعد نومبر میں پاکستان سے ایک کنٹینر جہاز چٹاگانگ پورٹ پہنچا جس کے بعد سے تجارتی تعلقات کو مزید بڑھانے کا معاملہ مزید ابھرا پاکستان کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 2023 میں پاکستان نے تقریباً 650 ملین ڈالر کی مصنوعات بنگلہ دیش کو برآمد کیں۔ اس میں تقریباً 79 یارن، ٹیکسٹائل اور تیار چمڑے کی مصنوعات شامل تھیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان خارجہ سیکرٹری کی سطح پر آخری ملاقات شیخ حسینہ کی حکومت کے پہلے دور میں 2010 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین خان نےبتایا کہ اسلام آباد ڈھاکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے میں خاص دلچسپی رکھتا ہے۔

گذشتہ برس اگست میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کسی حد تک سلجھتے نظر آ رہے ہیں اور اس کو آگے بڑھانے کے لیے ہی دونوں ممالک کے سیکریڑی خارجہ نے ڈھاکہ میں ملاقات کی۔ سیکرٹری خارجہ پاکستان آمنہ بلوچ اور سیکرٹری خارجہ بنگلہ دیش محمد جشم الدین کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے جو دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنے کے مشترکہ عزم کی عکاسی ہے
پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ کی قیادت میں ایک وفد ’فارن آفس کنسلٹیشن‘ یا ’ایف او سی‘ کے عنوان سے ہونے والی اس ملاقات کے لیے ڈھاکہ پہنچا۔سیکرٹری خارجہ نے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس اور مشیر خارجہ محمد توحید حسین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقات میں علاقائی انضمام، اقتصادی روابط اور دوطرفہ تعلقات کو بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا گیا

ملاقات سے قبل بنگلہ دیش میں وزارت خارجہ کے حکام نے کہا تھا کہ تقریباً 15 سال بعد دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹریز کی سطح کا اجلاس ہو رہا ہے اور کسی مخصوص ایجنڈے کی بجائے دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے ’تمام مسائل‘ اٹھائے جائیں گے۔ خارجہ سیکریٹریوں کی ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو ’معمول پر لانے‘ میں مدد ملے گی۔ترجمان وزارت خارجہ امور پاکستان کے دفتر سے جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش نے مشترکہ تاریخ، ثقافتی وابستگیوں اور اپنے عوام کی مشترکہ امنگوں پر مبنی سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، تعلیمی اور تزویراتی تعاون پر جامع تبادلہ خیال کیااور نیویارک، قاہرہ، ساموا اور جدہ میں حالیہ اعلیٰ سطحی رابطوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا، جس نے دوطرفہ تعلقات کو نئے سرے سے مضبوط کرنے میں مدد کی ہے۔دونوں فریقوں نے باقاعدہ ادارہ جاتی بات چیت کے ذریعے رفتار کو برقرار رکھنے، زیر التواء معاہدوں کو جلد حتمی شکل دینے اور تجارت، زراعت، تعلیم اور رابطے میں تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ پاکستان نے اپنی زرعی یونیورسٹیوں میں تعلیمی مواقع جبکہ بنگلہ دیش نے ماہی گیری اور سمندری علوم میں تکنیکی تربیت کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیش نے پاکستان کی نجی یونیورسٹیوں کی جانب سے سکالرشپ کی پیشکش کو بھی تسلیم کیا اور تعلیم کے شعبے میں گہرے تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ رابطے کو ترجیح کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، دونوں فریقوں نے کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان براہ راست جہاز رانی کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور براہ راست فضائی روابط دوبارہ شروع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے سفری اور ویزا کی سہولت میں نرمی کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیشی فریق نے ڈھاکہ میں معروف پاکستانی فنکاروں کی حالیہ پرفارمنس کو سراہا جبکہ پاکستانی فریق نے باہمی ثقافتی تبادلوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان شعبوں میں مختلف مفاہمت ناموں کو حتمی شکل دینے سمیت کھیلوں، میڈیا اور ثقافتی اداروں میں وسیع تر تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دونوں فریقوں نے سارک کو اس کے بانی اصولوں کے مطابق
کثیرالجہتی امور پر،بحال کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے بنگلہ دیشی قیادت کے وژن کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ سارک عمل دو طرفہ سیاسی تحفظات سے الگ رہے گا۔

سیکرٹری خارجہ پاکستان نے بنگلہ دیشی فریق کو بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) کی صورتحال سے بھی آگاہ کیااور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے جلد حل کی ضرورت پر زور دیا۔
دونوں فریقین نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں بالخصوص غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی۔سیکرٹری خارجہ پاکستان نے عزت مآب چیف ایڈوائزر بنگلہ دیش پروفیسر محمد یونس اور اعزازی مشیر خارجہ بنگلہ دیش جناب محمد توحید حسین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں بات چیت علاقائی انضمام، اقتصادی روابط اور بیرونی دباؤ سے دو طرفہ تعلقات کو محفوظ رکھنے کی اہمیت پر مرکوز ر ہی اور مستقبل کے حوالے سے شراکت داری کا مشترکہ عزم سامنے آیا۔ مشیر خارجہ بنگلہ دیش جناب محمد توحید حسین نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ پاکستان سینیٹر محمد اسحاق ڈار کے آئندہ دورے کے حوالے سےبات کی ۔ سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے پاکستان پرتپاک مہمان نوازی پر اعزازی چیف ایڈوائزر بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان کی قیادت کی طرف سے ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ مشاورت کا اگلا دور 2026 میں اسلام آباد میں ہوگا۔ مزید برآں، اس سلسلے میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پاکستان، اسلام آباد نے اپریل 2025 میں بنگلہ دیش کے مجوزہ دورے کے لیے پاکستان سے صحافیوں، اینکرز اور تجزیہ کاروں سے درخواستیں طلب کی ہیں اور دلچسپی رکھنے والے میڈیا کو ہدایت کی ہے کہ وہ 20 اپریل 2025 تک متوقع اعلیٰ سطح کے سرکاری دورہ بنگلہ دیش کےلیے تفصیلات بھیجیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ 1971 کی جنگ ہے۔2013 میں بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو سزائے موت دیے جانے پر پاکستان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔ بنگلہ دیش نے ڈھاکہ میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کرکے اس واقعے پر برہمی کا اظہار کیا۔2014 میں، بنگلہ دیش حکومت نے ڈھاکہ میں مقیم اس وقت کے قائم مقام پاکستانی ہائی کمشنر احمد حسین دایو کو بھی طلب کر کے پاکستانی وزیر داخلہ کے مقدمے کے حوالے سے دیے گئے بیان پر احتجاج کیا تھا۔ بالآخر 2020 میں اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ کو ٹیلی فون کیا جس کے نتیجے میں کچھ برف ضرور پگھلی تاہم دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے مزید پیشرفت نہیں ہوئی۔ 1971 میں بنگلہ دیش کے پاکستان سے الگ ہونے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان سے رسمی معافی کا مطالبہ، اثاثوں کی واپسی، اور بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی وطن واپسی جیسے معاملات کو لے کر کافی کشیدگی رہی تاہم، بظاہر اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے دونوں ممالک ان مسائل کے بجائے تجارت اور دوطرفہ تعلقات میں خواہاں ہیں۔

پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین خان نے کہاکہ ’اس طرح کے مسائل پوری دنیا میں دوطرفہ تعلقات میں پائے جاتے ہیں، لیکن انھیں موجودہ تعلقات یا اقتصادی تعاون میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘پاکستان کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ سے ملاقات کے بعد جاسم الدین نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1971 میں علیحدہ ہونے کے بعد واجبات کی مد میں 4.32 ارب ڈالر بھی مانگے ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1971 کی جنگ کے مبینہ مظالم پر باضابطہ معافی مانگنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ سیکرٹری خارجہ جاسم الدین نے کہا کہ انھوں نے پاکستان سے بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کی اپنے وطن واپسی جبکہ 1970 کے طوفان کے متاثرین کے لیے بھیجی گئی غیر ملکی امداد کی منتقلی کا مطالبہ بھی کیا۔صحافیوں کے اس سوال پر کہ کیا بنگلہ دیش اب انڈیا کی بجائے پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، سیکرٹری خارجہ جاسم الدین نے کہا کہ ’اگر بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھنا ہے تو اس کے لیے مسائل حل کرنا ضروری ہے۔‘ سیکریٹری خارجہ جاسم الدین کے مطابق بنگلہ دیش میں موجود پاکستانیوں کی واپسی سمیت سقوط ڈھاکہ سے قبل غیر منقسم پاکستان کی دولت کی منصفانہ تقسیم اور 1970 میں طوفان کے متاثرین کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کی ٹرانسفر کا معاملہ اٹھایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں میں سے کچھ بنگلہ دیش میں ہی رہنا چاہتے ہیں لیکن کچھ پاکستان لوٹنا چاہتے ہیں۔‘ ان کے مطابق بنگلہ دیش میں موجود پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ 24 ہزار 447 ہے۔ جاسم الدین کا دعوی تھا کہ پاکستان کی جانب سے ان معاملات پر بات چیت کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جاسم الدین نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے تسلسل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب پاکستانی وزیر خارجہ 27 اور 28 اپریل کو بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔ 2012 کے بعد یہ کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بنگلہ دیش کا پہلا دورہ ہو گا۔پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں ان معاملات کا ذکر موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ’فریقین نے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، تعلیمی اور سٹریٹجک (تزویراتی) تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔‘ اعلامیے کے مطابق ’فریقین نے باقاعدگی سے ادارہ جاتی بات چیت، زیر التوا معاہدوں کو جلد حتمی شکل دینے اور تجارت، زراعت، تعلیم اور رابطوں میں تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ پاکستان کی جانب سے اپنی زرعی یونیورسٹیوں میں تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی پیشکش کی جبکہ بنگلہ دیش کی جانب سے بھی ماہی گیری اور میری ٹائم سٹڈیز میں تکنیکی تربیت فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی۔‘

اس کے علاوہ دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق ’فریقین نے دونوں مُمالک کے درمیان رابطے کو اہم قرار دیتے ہوئے کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان براہ راست شپنگ کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور براہ راست فضائی روابط کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی جانب سے سیکرٹری خارجہ محمد جاشم الدین نے سفر اور ویزا کی سہولت کو آسان بنانے میں پیش رفت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔‘ ’کثیر الجہتی امور پر فریقین نے سارک کو اس کے بنیادی اصولوں کے مطابق بحال کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ سیکرٹری خارجہ نے بنگلہ دیشی قیادت کے وژن کو سراہا اور اس امید کا اظہار کیا کہ سارک کا عمل دوطرفہ سیاسی مصلحتوں سے دور رہے گا۔ سکریٹری خارجہ کی سطح کی ملاقاتیں ہمیشہ دوطرفہ سفارتی تعلقات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ وہ دونوں ممالک کے خارجہ امور میں اعلیٰ ترین انتظامی حکام ہوتے ہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ برس ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں نے جنوبی ایشیائی علاقائی تنظیم (سارک) کے احیاء کے ذریعے علاقائی تعاون بڑھانے کے بارے میں بات کی خیال رہے کہ گذشتہ سال بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے میں آنے والی تبدیلی کے بعد پاکستان بنگلہ دیش کو علاقائی سیاست میں اپنی طرف کرنے کی کوشش کر رہا ہے