اسلام آباد (ٹی این ایس) سرمایہ کاری میں سہولت کاری ;ایس آئی ایف سی سےغیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال

 
0
37

اسلام آباد (ٹی این ایس) خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل /سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی )کے پلیٹ فارم سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں، اداروں اور حکومتوں کے ساتھ اشتراک سے پاکستان نے ترقی کے کئی نئے باب رقم کیے ہیں۔
ایس آئی ایف سی کی بدولت پاکستان نہ صرف معاشی و صنعتی میدان میں اہم سنگ میل عبور کر رہا ہے بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو رہا ہے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایک مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پچھلے مہینے میں بجٹ تقریر کے دوران سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہاتھاکہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت توانائی، معدنیات، زرعی کاروبار ، آئی ٹی، فین ٹیک، انفراسٹرکچر، افرادی قوت کی ترقی اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں 100 سے زائد اسٹریٹجک گرین فیلڈ اور براؤن فیلڈ منصوبوں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا، جس کے نتیجے میں مالی سال 25-2024 میں براه راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا۔ نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پاٹنر شپ اور نجی شعبے کے فروغ میں بھی ایس آئی ایف سی نے اہم کردار ادا کیا۔ بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط میں بہتری اور غیر ضروری ضابطہ جاتی رکاوٹوں کے خاتمے کے باعث ایس آئی ایف سی نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا ،نقل و حمل اور لاجسٹک کا نظام بہتر بنایا اور مالی سال 26-2025 کے لیے برآمدات پر مبنی صنعتی ترقی کے ایجنڈے کی مضبوط بنیاد رکھی۔ یہ یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان شہبازشریف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے سرمایہ کاری کے طریقہ کار کو مزید سہل اور مجموعی کاروباری ماحول کو بہتر بنایا ہے اور شفافیت کو فروغ دیا ہے،خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ذریعے پاکستان نے سرمایہ کاری کے طریقہ کار کو مزید سہل، شفافیت کو فروغ اور مجموعی کاروباری ماحول کو بہتر بنایا ہے، جس سے پاکستان عالمی سرمایہ کاروں کے لئے ایک پرکشش مقام بن گیا ہے۔ ڈی پی ورلڈ کے ساتھ بامعنی سرمایہ کاری کے اشتراک سے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے پاکستان میں ڈی پی ورلڈ کی سرمایہ کاری کو سراہتے ہوئے تجارت اور لاجسٹک انفراسٹرکچر کو بڑھانے میں ان کے کردار کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے ڈی پی ورلڈ کے ساتھ بین الحکومتی معاہدوں کے تحت منصوبوں کی جلد تکمیل کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ پاکستان کا سٹریٹجک محل وقوع ڈی پی ورلڈ کے لئے اپنے آپریشنز کو بڑھانے اور پاکستان میں جبل علی بندرگاہ جیسے کامیاب منصوبوں کی تقلید کا ایک مثالی موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ پاکستان کا زرعی شعبہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اقدامات کے تحت ترجیحی شعبے کے طور پر برقرار ہے اس کونسل کے تحت پالیسی ماحول میں بہتری کی وجہ سے زراعت کے شعبے نے تیسری میں سہ ماہی کے دوران گزشتہ سال کے مقابلے میں 5.02 فیصد نمو ظاہر کی ہے زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ بڑھوتری کسان برادری کے لئے امید افزاء ماحول کی عکاسی کرتی ہے ان مثبت اشاریوں سے ملک میں دوسرے زرعی انقلاب کے تصور کو عملی جامعہ پہنانے کے ساتھ ساتھ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی توقع ہے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت ماضی قریب میں اس شعبے کی ترقی اور نمو میں مدد کیلئے متعدد پالیسی اقدامات نافذ کئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت گرین پاکستان انی شیٹیو کا مقصد پیداوار کو بڑھانا اور بہتربنانے کیلئے جدید زرعی ٹیکنالوجی پہ مبنی کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ تکنیک متعارف کرانا ہے زراعت کے شعبے میں ترقی سے قومی غذائی تحفظ برآمدات اور مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہونگے
ایس آئی ایف سی کے قیام کے دو برس مکمل ہونے پر پاکستان کی معاشی، صنعتی اور سیاحتی ترقی سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے جس میں مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابیوں اور پیش رفت کو اجاگر کیا گیا خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی ) کی مربوط حکمت عملی سے ملک میں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں، برآمدات کو تقویت مل رہی ہے اور پاکستان ترقی کی ایک نئی سمت کی جانب رواں دواں ہے۔۔ایس آئی ایف سی کی سرپرستی میں پاکستان میں سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کے قیام سے عالمی ویلیو چین میں شمولیت کی راہ ہموار ہوئی ہے جبکہ کولڈ چین لاجسٹکس کے شعبے میں نیشنل لاجسٹکس سیل نے ریفریجریٹڈ کنٹینرز سروس متعارف کرا کر اہم پیشرفت کی ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کے لیے توانائی سبسڈی میں کمی، بہتر پالیسی سازی اور ایل ایس ایم انڈیکس میں بہتری لانے جیسے اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ صنعتی برآمدات بڑھانے کے لیے امریکا اور پی ای ایل جیسے شراکت داروں کے ساتھ اشتراک بھی کیا گیا۔سرمایہ کاری کے میدان میں ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے پاکستان میں سالانہ 41 فیصد ایف ڈی آئی یعنی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے نتیجے میں صرف معدنیات، مینوفیکچرنگ اور توانائی کے شعبوں میں 1.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ممکن ہوئی، خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کے ذریعے برآمدات میں اضافہ اور 2028 تک 5 لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کی امید ہے۔بی وائے ڈی اور دیگر عالمی صنعتی اتحاد کے اشتراک سے پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے جس سے پائیدار نقل و حمل کے شعبے میں انقلاب متوقع ہے۔سیاحتی ترقی کے حوالے سے ٹھنڈیانی، گانول اور سندھ میں تھیم پر مبنی سیاحتی زونز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں 44 گیسٹ ہاؤسز کی بحالی سے 4000 سے زائد مقامی افراد کو روزگار ملا۔سیاحتی خدمات کی موبائل ایپ کے ذریعے مقامی گائیڈز اور سہولیات تک آسان رسائی کو ممکن بنایا گیا ہے جبکہ 126 ممالک کے لیے ویزا آن آرائیول اور جی سی سی ممالک کے لیے ویزا فری انٹری سے بین الاقوامی سیاحوں کی آمد میں اضافہ متوقع ہے۔برلن میں 2025 کے عالمی آئی ٹی بی ایونٹ میں شرکت سے پاکستان کی عالمی سیاحتی شناخت کو تقویت ملے گی۔ایس آئی ایف سی نے نجکاری کے شعبے میں بطور ٹرانزیکشن ایڈوائزر شمولیت اختیار کر کے پی آئی اے، ڈسکوز اور دیگر غیر تذویراتی اداروں کی نجکاری میں شفافیت اور تیزی متعارف کرائی ہے، وزیراعظم کی ہدایت پر غیر ضروری اداروں کی نجکاری کے لیے واضح پالیسی اور اعلیٰ سطحی نگرانی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ڈسکوز کی نجکاری اور اصلاحات کے لیے کابینہ کمیٹی، بین الوزارتی ورکنگ گروپ اور ون ونڈو اپروول سسٹم قائم کیے گئے ہیں جبکہ دوست ممالک کے ساتھ توانائی معاہدوں کی منظوری بھی ایس آئی ایف سی کی ایپکس کمیٹی کے تحت دی گئی ہے۔پاکستان میں توانائی کے شعبے میں 6 ارب ڈالر مالیت کے آئل ریفائنری منصوبوں کی بحالی کی راہ ہموار ہونے لگی ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی سفارش پر حکومت نے براؤن فیلڈ ریفائنری پالیسی میں ترمیم کی ہدایت جاری کی ہے، جس کا مقصد پرانے ریفائنری منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ سیلز ٹیکس میں اصلاحات، پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ اور ڈیزل کی درآمدات پر قابو پانے کے لئے اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔ توانائی پالیسی میں ترمیم کا مقصد 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے ریفائنریز کے منصوبوں کی بحالی ممکن بنانا ہے۔ ریفائنریز کو 7 سال کیلئے ٹیکس پالیسی میں استحکام کی ضمانت پر غور جاری ہے ۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ ٹیکس پالیسی میں اصلاحات کی بدولت معیار ی ایندھن کی پیداوار کے لئے ریفائنریز کی اپ گریڈیشن کی راہ ہموار ہوگی۔ ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے حکومت اور نجی شعبے کے درمیان مؤثر رابطہ قائم ہوگیا۔ پالیسی پر عملدرآمد میں بہتری آئی ہے ۔ حکومت توانائی کے شعبے میں مالی مراعات کے ذریعے جدت کیلئے پُرعزم ہے۔ ایس آئی ایف سی کی معاونت سے توانائی منصوبوں میں پیشرفت ملکی معیشت میں استحکام و دیرپا ترقی کی بنیاد بنےگی۔
یہ یاد رکھیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک کمیٹی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل , ایس آئی ایف سی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔
سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘ ایس آئی ایف سی کے نام سے بنائی گئی تھی اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں ’گلف کوآپریشن کونسل‘ یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا تھااور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے معدوم ہوتے امکانات کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ رہےتھے جبکہ دوسری جانب ملک میں سیاسی بحران بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہاتھا۔ وزیر اعظم نے اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دیں جن میں اولین ایپکس کمیٹی کی سربراہی شہباز شریف خود کرتے ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خصوصی دعوت پر اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آرمی چیف اس کونسل میں کیا کردار ادا کریں گے۔ ایپکس کمیٹی کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں وفاقی وزرا برائے دفاع، آئی ٹی، توانائی کے علاوہ وزرائے مملکت برائے پیٹرولیم اور امور خزانہ شامل ہیں ۔ان کے علاوہ صوبائی وزرا برائے زراعت، معدنیات، آئی ٹی، توانائی، امور خزانہ، منصوبہ بندی اور تمام چیف سیکریٹری بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں,تیسری سطح پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں پاکستان فوج کے ایک ڈائریکٹر جنرل، وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی اور کونسل کے سیکریٹری، 21ویں گریڈ کے افسر شامل ہیں۔ اس کونسل کی تشکیل سے چند ممالک پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کا وعدہ کر چکے ہیں۔حکومت پاکستان نے 20 جون 2023 کو اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل ( ایس آئی ایف سی) کے قیام کی منظوری دی، جو کہ سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ایک “سنگل ونڈو” کے طور پر کام کرے گی، تمام سرکاری محکموں کے درمیان تعاون قائم کرے گی اور پراجیکٹ کی ترقی کو تیز کرے گی۔ اس کی صدارت وزیر اعظم کرتے ہیں جس میں وفاقی وزراء، صوبائی سربراہان اور فوج کے سربراہ سمیت اراکین شامل ہوتے ہیں۔ حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کے ساتھ ایک کوآپریٹو اور تعاون پر مبنی مکمل حکومتی نقطہ نظر کے ذریعے طویل کاروباری عمل کو مختصر کرنے کے لیے ایس آئی ایف سی قائم کیا۔ اس کا مقصد ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے دفاعی پیداوار، زراعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور توانائی کے اہم شعبوں میں پاکستان کی ناقابل استعمال صلاحیت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ 2035 تک پاکستان کی جی ڈی پی تین گنا بڑھ کر ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی اور اگر یہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں کوئی غریب نہیں رہے گا مگر فی الوقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ ملکی آبادی کا 40 فیصد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے جبکہ پاکستان اس وقت کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں دنیا کے نچلے ترین ممالک میں شامل ہے۔ کمیٹی کی تشکیل غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت کاری کے لیے ون ونڈو آپریشن کی طرزکا ایک منصوبہ ہےوہ تمام ادارے جن کا کسی بھی طرح سرمایہ کاری سے تعلق ہے وہ اکھٹے کر دیے گئے ہیں۔’تین لیولز پر عمل درآمد کے لیے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ایک، ایپکس کمیٹی بنائی گئی ہے وزیر اعظم کی سربراہی میں جس میں کابینہ اراکین اور آرمی چیف بھی ہوں گے، جو ابتدائی طور پر ہر مہینے ملے گی۔دوسری ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جس میں وزرا اور صوبائی حکومتیں ہیں، وفاقی حکومت کے ادارے ہیں۔ اور تیسری عمل درآمد کمیٹی ہے جو ہر ہفتے ملا کرے گی اس کونسل کا مقصد ہے کہ جو بھی سرمایہ کاری کرنے آ رہا ہے تو چاہے کوئی قانونی مسئلہ ہے تو اسے دور کیا جائے، قواعد و ضوابط کی دقت ہے تو اسے دور کیا جائے، اور اگر صرف سست رفتار انتظامی معاملات ہیں تو انھیں بھی دور کیا جائے۔ اگلے پانچ، سات سال میں 112 ارب ڈالر کا پروگرام پیش کیا گیاہے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تین ممالک نے 20-25 ارب ڈالر مختص کیے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم زراعت، معدنیات اور آئی ٹی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں بے شمار ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اور چین سے یہ بات پہلے سے طے کی گئی ہے کہ آپ سرمایہ کاری کریں اس منصوبے کی وجہ سے کچھ جاری منصوبوں میں تو تیزی آ سکتی ہے تاہم ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے حکومت کو پہلے اپنے ملک میں پرائیوٹ سرمایہ کاروں کو قائل کرنا پڑے گا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، اس کے بعد ہی کوئی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔آئی ایس ایف سی کے تحت چولستان میں 50 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم، کینولا، باجرہ اور کپاس کی کاشت کا پروگرام ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ملک سے غذائی قلت کے خاتمے کو یقینی بنانا، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا اور درآمدی بل کم کرنا ہے۔ اسی طرح لائیو سٹاک کے سیکٹر میں 20 ہزار جانوروں کی استعداد کے کارپوریٹ ڈیری فارمز قائم کیے جائیں گے اس کے علاوہ کارپوریٹ فیڈلاٹ فارم میں 30 ہزار جانور رکھے جائیں گے جو مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمد کرنے کے لیے سالانہ 15 ہزار ٹن گوشت فراہم کرسکے گا۔ اس پروجیکٹ پر 58 ارب کے اخراجات آئیں گے۔ ایک منصوبہ 10 ہزار اونٹوں پر مشتمل کیمل فارم قائم کرنے کا ہے جس پر لاگت کا تخمینہ 37 ارب 70 کروڑ روپے ہے اور یہ سالانہ 20 لاکھ لیٹر دودھ کے ساتھ 450 ٹن گوشت بھی فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ ملک کے سات شہروں میں ٹیکنالوجی زونز کا قیام عمل میں لانے کا منصوبہ بھی ہے۔ راولپنڈی سے کراچی اور گوادر تک 75 ہزار کلومیٹر فائبر نیٹ ورک کا قیام اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کلاؤڈ انفراسٹرکچر کے لیے سرمایہ کاری کو راغب کیا جانے کا بھی منصوبہ ہے۔ ملک میں سمارٹ فونز کی تیاری کے لیے75 ہزار افراد کو ٹریننگ دی جائے گی تاکہ سمارٹ موبائل فونز تیار کرکے انہیں خلیجی ممالک، افریقہ اور وسطی ایشیا کی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاسکے۔ اسی طرح کان کنی کے میدان میں بلوچستان کے ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کے ذخائر، خضدار میں سیسہ اور جست (زنک) کی تلاش کے لیے لائسنس کے اجرا کے علاوہ تھرپارکر میں کول فیلڈ کی اَپ گریڈیشن، گلگت بلتستان میں مختلف دھاتوں کے لیے کان کنی اور مائننگ مشینری کی اسیمبل کرنے کے پلانٹس کا قیام بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ توانائی کے شعبے میں حکومت اس کونسل کے ذریعے کوئلے سے چلنے والا 1320 میگاواٹ کا پاور پلانٹ، دریائے پونچھ پر 132 میگاواٹ کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، دیامیر بھاشا پروجیکٹ، پنجاب میں سولر پاور پروجیکٹس اور 500 کلو واٹ کے ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن کے قیام کے منصوبے مکمل کرنا چاہتی ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے بیرونی سرمایہ کاری، ٹیکس مراعات، درآمدی اشیا پر ڈیوٹی میں نرمی، منافع باہر منتقل کرنے میں سہولت، سپیشل اکنامک زونز میں کام کرنے والوں کو دس سال تک انکم ٹیکس چھوٹ سمیت تنازعات کے حل کے لیے مختلف ضمانتیں وغیرہ فراہم کی جائیں گی۔ سرمایہ کاری کی سہولتوں کے لیے قائم کی گئی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا مینڈیٹ اور اس کے مقاصد واضح ہیں۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا انحصار معیشت سے جڑے مسائل حل کرنے پر ہے۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے ایس آئی ایف سی قائم کی گئی تھی یہ درحقیقت بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کی ایک نئی ترقی یافتہ اور بااختیار شکل ہے۔ اس سے قبل بی او آئی پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور اس کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہا اور ملک میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی نہ لائی جاسکی۔ اس کی بنیادی وجہ ملک کے غیر موزوں معاشی اور سیاسی حالات ہیں۔ اگرچہ قانونی طور پر ایس آئی ایف سی‘ بی او آئی ہی کا ایک ذیلی ادارہ ہے لیکن اس کے مینجمنٹ آپریشنز بی او آئی سے مختلف ہیں۔ ایس آئی ایف سی سے امید ہے کہ وہ اس معاملے میں اصل مسائل کو حل کرنے کا طریقہ کار وضع کرے گا۔ دیکھا جائے تو حکومتی ضابطے، نوکر شاہی کی رکاوٹیں اور ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہونے اور حکومتی نااہلیوں کے باعث اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے ماحول سازگار نہیں تھے۔ اسی طرح حکومتی ضابطے پیچیدہ اور بوجھل تھے جن سے نہ صرف کاروبار کے قیام میں تاخیر ہوتی تھی بلکہ متعلقہ اخراجات میں بھی اضافہ ہوجاتا تھا۔ ملک میں کاروبار کرنے کے لیے متعدد حکومتی اداروں اور اتھارٹیز سے منظوری لینا پڑتی تھی اور اس عمل میں تاخیر سے ملک میں انٹرپرنیورشپ کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر برآمد کنندگان کو سامان باہر بھیجنے کے لیے تقریباً 13 ایجنسیوں سے نمٹنا پڑتا تھا جبکہ درآمد کنندگان کو سامان منگوانے کے لیے لگ بھگ 60 ایجنسیوں کو دستاویزات جمع کرانا پڑتی تھی ۔ اس کے علاوہ ملک کا ٹیکس نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے اور ایف بی آر کے ساتھ کاروبار رجسٹرڈ کرنے کے لیے پیشہ ور ٹیکس ماہرین کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے کے لیے بھی پیشہ ورافراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ عوامی مسائل کے حل اور خدمات تک رسائی کے لیے ڈیجیٹلائزیشن تک نہیں ہو سکی تھی حالانکہ دنیا بھر کے ممالک نے کئی دہائیوں پہلے ہی عوامی خدمات کو ڈیجیٹلائز کردیا تھا۔ یہ یاد رہے کہحکومت پاکستان نے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے، معاشی بحران سے نجات پا کر برآمدات بڑھانے اور کئی شعبوں میں خودکفیل ہونے کے لیے ایک طویل المدتی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ جس پر عملدرآمد کے لیے ایک سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کی گئی تھی یہ کونسل سول اور عسکری اداروں کے باہمی اشتراک سے کام کرے گی یہ صوبوں، وفاق اور مختلف اداروں کے مابین رابطہ قائم کرتے ہوئے سرمایہ کاری کے تمام معاملات کو ایک مربوط شکل دیتے ہوئے زراعت، لائیو سٹاک، معدنیات، کان کنی، آئی ٹی اور توانائی جیسے شعبوں میں پیداوار بڑھا کر نہ صرف ملک کو خود کفیل بنائے بلکہ برآمدات میں بھی بڑا اضافہ کرے گی۔ اس کے مقاصد کی کامیابی کے لیے عسکری قیادت وفاقی حکومت کو بھرپور مدد فراہم کر رہی ہے اور اس منصوبے کو اس وقت ملک کے سب سے اہم عمل کے طور پر لیا جا رہا ہے۔عسکری حلقے اس کو چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) سے بھی بڑا پراجیکٹ تصور کر تے ہیں۔ اگرچہ اس منصوبے کا زیادہ انحصار بیرونی سرمایہ کاری پر ہے جس کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین سے بات چیت ہوئی ہے اور اس سرمایہ کاری کے لیے فیسیلی ٹیشن کونسل کی سطح پر ایک ون ونڈو نظام بھی بنایا گیاہے تاہم ملکی سطح پر وسائل کی پیداوار میں اضافہ بھی اس کا اہم جزو ہے۔ اس کے مرکزی مقاصد میں اگلے چار سے پانچ سالوں میں 15 سے 20 لاکھ تک کے لیے بلاواسطہ اور ایک کروڑ لوگوں کے لیے براہ راست نوکریوں کا بندوبست، برآمدات کو 70 ارب ڈالر تک پہنچانا، 70 ارب ڈالر کی درآمدات کو ختم کر کے ان کے مقامی متبادل تیار کرنا اور 100 ارب ڈالر تک کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کر کے ملکی معیشت کو 2035 تک ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانا ہے۔ پاکستانی فوج کا خلیجی ممالک میں گہرا اثر ورسوخ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے قدم کے طور پر ان ممالک کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا ہے۔ سرمایہ کاری اور خود انحصاری کے اس نئے میگا منصوبے کے انتظامی امور اور ہم آہنگی میں پاک فو ج کا کلیدی کردار ہو گا۔ پاک فوج اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے انتظامات اور رابطہ کاری کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرے گی یہ منصوبہ جوں ہی مضبوط، مستحکم اور کامیابی کے قریب پہنچے گا تو فوج اپنا کردار بتدریج کم کر دے گی۔ فوج کی مدد سے یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ فوج اس میں مستقل اور دیرپا بنیادوں پر ترقی کو یقینی بنائے گی اِس طریقہ کار کی مثال ہمیں چین اور دیگر ممالک میں بھی ملتی ہے