قانون کی حکمرانی اس وقت قائم ہوگی جب اشرافیہ اور تانگے والے پر اس کا اطلاق ایک جیساہو گا‘رضا ربانی

 
0
465

اسلام آباد ،نومبر20(ٹی این ایس): سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی اس وقت قائم ہوگی جب اشرافیہ سے لے کر تانگے والے تک قانون کا اطلاق ایک طرح کیا جائے گا‘جہاں پر ادارے کمزور ہوں اور سیاست افراتفری کا شکار ہو وہاں صحافیوں کا کردار مزید ابھر کر سامنے آتا ہے‘ پچھلے 14دنوں سے ریاست بے بس ہوئی ہے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی‘ اگر وفاق بچے گا تو ہی سیاست ہوگی‘ وار لارڈازم معاشرے کو کنٹرول کرے گا تو نہ آپ کی سیاست ہوگی نہ میری سیاست ہوگی‘ وار لارڈ ازم مختلف شکلوں میں ریاست پر حاوی ہونے کی کوشش کررہا ہے عوام کو اسے روکنا ہے‘میں جو دیکھ رہا ہوں وہ کچھ اچھا نہیں اس کو روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں‘۔

وار لارڈ ازم کو برداشت نہیں کریں گے۔پیر کو نیشنل پریس کلب میں یادگار شہداء صحافت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے کہا کہ جس محبت اور عزت سے مجھے مدعو کیا جاتا ہے اس پر میں پریس کلب کا شکر گزار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلی شہید صحافیوں کی پہلی یاد گار نہیں ہے اس سے پہلے پارلیمنٹ ہائوس میں بھی شہداء کی یاد گار بنائی گئی ہے جس میں ایک جگہ صحافتی دوستوں کے لئے ہے۔

یاد گاروں کا یہ سلسلہ مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے پہلے صرف اور صرف ان شہداء کی یادگاریں ہوتی تھیں جنہوں نے سرحد پر ملکی دفاع میں اپنی جانیں پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ قومیں بنتی ہی اس وقت ہیں جب ہم اپنے ہیروز کو یاد کریں ‘ ان کی عزت کریں۔ رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان کی ریاست میں ان تمام لوگوں کو ریاست کا حصہ نہیں سمجھا۔ احمد نورانی جیسے دوست نہ ہوتے تو شاید ریاست بکھر چکی ہوتی ان کی جدوجہد نے ہی معاشرے کو اکٹھا رکھا ہوا ہے۔

احمد نورانی کی طرح ڈنڈے کھانا اور حامد میر کی طرح گولیوں کا سامنا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ جہاں پر ادارے کمزور ہوں اور سیاست افراتفری کا شکار ہو وہاں صحافیوں کا کردار مزید ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 14دنوں سے ریاست بے بس ہوئی ہے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وفاق بچے گا تو ہی سیاست ہوگی۔ معاشرہ صحیح سمت میں چلے گا تو ہی ہماری سیاست ہوگی۔

وار لارڈازم معاشرے کو کنٹرول کرے گا تو نہ آپ کی سیاست ہوگی نہ میری سیاست ہوگی۔ وار لارڈ ازم مختلف شکلوں میں ریاست پر حاوی ہونے کی کوشش کررہا ہے عوام کو اسے روکنا ہے۔ میں جو دیکھ رہا ہوں وہ کچھ اچھا نہیں اس کو روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔ اس کو روکنے کا راستہ ایک ہی ہے کہ عوام ‘ سیاسی کارکن‘ صحافی ‘ دانشور‘ مزدور‘ کسان اور ادارے ایک پیج پر آجائیں اور اس بات کو طے کریں۔

وار لارڈ ازم کو برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان یہ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان کے مظلوم لوگوں کی آواز ہے۔ میں نے کہا تھا کہ جرنلسٹ پروٹیکشن بل لے آئیں ورنہ پارلیمان اپنا کام خود کریگی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات نے اس بل کے مسودے کو دیکھا اور مزید بہتر بنانے کے لئے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی بہت سی شقیں موجود ہیں کیا ان پر عمل درآمد ہورہا ہی انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کو نافذ کرنے کے چار معیار ہیں۔

پہلا معیار آپ کا تعلق اشرافیہ سے ہے تو قانون کا اطلاق اس طرح ہوگا‘ دوسرا معیار اشرافیہ کے سہولت کار ہیں تو اس طرح قانون کا اطلاق ہوگا‘ تیسرا معیار اگر آپ دولت مند ہیں تو اس کے مطابق اطلاق ہوگا اور چوتھا ایک عام شہری کے لئے قانون کا اطلاق اس طرح ہوگا۔ قانون کی حکمرانی اس وقت قائم ہوگی جب اشرافیہ سے لے کر تانگے والے تک قانون کا اطلاق ایک طرح کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک عام سیاسی کارکن کی حیثیت سے وعدہ ضرور کرسکتا ہوں کہ اس جدوجہد میں پاکستان کو ہم حقیقی طور پر فلاحی ریاست بنائیں گے۔ تقریب کے آخر میں سینئر صحافی حامد میر اور سعود ساحر کو ان کی اعلیٰ صحافتی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔