سزا معطلی کی اپیل: سپریم کورٹ نےحتمی نتیجہ اخذ کیے بغیر کیس ٹرائل کورٹ بھیجا، جسٹس اطہر

 
0
388

اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپیلوں پر سماعت
اسلام آباد اگست 20(ٹی این ایس) میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نےحتمی نتیجہ اخذ کیے بغیر کیس ٹرائل کورٹ کوبھیجا اور ہمیں ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگز کو دیکھنا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزامعطلی کی درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔
نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پرشریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائرکیے، عدالت عظمیٰ کےحکم پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی، لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کے نام پر تھے، ہم نے دستاویزات سےثابت کردیا ان کمپنیوں کے مالک نوازشریف ہیں، یہ جائیدادیں بے نامی دار کے نام پر تھیں، نیلسن کمپنی فلیٹ نمبر16 کی 1995 سے مالک ہے، یہ ٹائٹل دستاویز13 دسمبر2017 میں جاری ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیلسن لمیٹڈ کی ملکیت کسی شخص کی تو نہیں ہے، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ فلیٹس جس کے قبضے میں ہیں کمپنی کا مالک بھی وہی ہوگا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ اپنےآپ کوسزا معطلی تک محدود رکھیں، اس پر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ یہ جائیداد ان کی ملکیت ہے، ایم ایل اے کے ذریعے معلوم ہوا کہ نیلسن اور نیسکول مریم کی ملکیت ہے، دستاویزکے مطابق فلیٹ نمبر 16 اے کی ملکیت31 جولائی 1995 سے نیلسن کےپاس ہے، 2006 میں بینیفشل مالک ہونےکو ظاہر کرنا ضروری تھا، عدالت میں پیش کی گئی 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔
جسٹس اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 2012 میں یہ خط لکھا کیوں گیا تھا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے نے باہر رجسٹرڈ کمپنیوں سے متعلق معلومات کیلئے عمومی خط لکھا تھا، میں ٹرائل کورٹ میں جمع شدہ دستاویزات کےحوالے دے رہا ہوں۔
جسٹس اورنگزیب نے مزید استفار کیا کہ سپریم کورٹ میں والد نے بچوں کے مؤقف کو اختیار کیا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کی تقاریر میں وضاحتیں دی گئی ہیں کہ جائیدادیں کیسےبنائیں، نوازشریف نے اولاد کے مؤقف کو غلط قرار نہیں دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دفاع کا کیس ہے ضروری عوامل کی تفتیش نہیں کی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ان کا مؤقف ہے، معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں،12 ملین درہم کی بات بھی درست نہیں ہے، ان کا ذریعہ بھی ہم نے غلط ثابت کیا اور ثبوت بھی لائے، ہم معلوم ذرائع آمدن کا ثبوت بھی لائے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ وہ معلوم ذرائع آمدن کیا ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ وہ معلوم ذرائع آمدن فلو چارٹ ہیں، جسٹس اطہر نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ سردار مظفر نے کہا کہ میں آپ کو1980 کا جعلی معاہدہ دکھانا چاہتا ہوں۔اس موقع پر نیب پراسیکیوٹرنے 1980 کے معاہدے سے متعلق جےآئی ٹی رپورٹ کی تفصیلات سنائیں۔
جسٹس اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے منی لانڈرنگ کی اپیل نہیں ہے، سزا معطلی کی حد تک رہیں۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ جو ٹرائل کورٹ میں ہوا وہ بتائیں، ہمیں صرف ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ دیکھنا ہے، سپریم کورٹ نےنتیجہ نہیں نکالا ،معاملہ ٹرائل کورٹ کوبھیجا، ہمیں اب صرف ٹرائل کورٹ کا نتیجہ ہی دیکھنا ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل کا مطلب کیا تھا؟ کیا ٹرائل کورٹ کو صرف سزا کو اسٹیمپ کرناتھا؟ آپ سزا معطلی معاملے تک رہیں، ہمیں امید ہے آپ ہم مطمئن کریں گے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ تفصیلات میں جارہے ہیں، اگر آپ اس آبزرویشن پر جائیں تو سزا ہونا ہی ہے، سپریم کورٹ نےحتمی نتیجہ اخذ کیے بغیر کیس ٹرائل کورٹ کوبھیجا، ہمیں ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگز کو دیکھنا ہے۔واضح رہےکہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزائیں سنائیں جس کے بعد تینوں شخصیات اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔