جو عناصر خطے میں امن نہیں چاہتے ان پر نگاہ رکھنی ہو گی: شاہ محمود قریشی

 
0
475

اسلام آباد 28 ستمبر 2020 (ٹی این ایس): وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان، افغان تنازع کے پرامن اور پائیدار سیاسی حل کی حمایت کرتا ہے لیکن ہمیں ان عناصر پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی جو خطے میں امن اور استحکام نہیں چاہتے ہیں۔

افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے چیئرمین اور ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ آج تین روزہ دورے پر نور خان ایئر بیس پہنچے جہاں مشیر تجارت عبدالرزاق داود اور افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے ان کا استقبال کیا۔

عبداللہ عبداللہ کے ہمراہ افغان قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے اہم اراکین سمیت اعلیٰ سطح کا وفد بھی پاکستان آیا۔

افغان رہنماؤں نے دفتر خارجہ میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس میں افغان امن عمل اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغان حکومت اور عوام کی قیادت میں افغان تنازع کے پرامن اور پائیدار سیاسی حل کی حمایت کرتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ مشترکہ ذمہ داری کے طور پر افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ اور بعد ازاں دوحہ میں ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات نے افغانستان میں پائیدار امن کے امکانات کو روشن کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان قیادت کو چاہیے کہ وہ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائے اور افغان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔

شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ ہمیں ان عناصر پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی جو خطے میں امن اور استحکام نہیں چاہتے ہیں اور عالمی برادری سے افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی استحکام کے لیے آگے آنے کا مطالبہ کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کی ان کے آبائی وطن میں باعزت واپسی کا خواہاں ہے اور پاکستان، افغانستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے جبکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط معاشی تعاون کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔

اس موقع پر افغان اعلیٰ سطح کی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے افغان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی مفاہمتی اور مخلصانہ کوششوں کو سراہا اور اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنے پر پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ سے جو گفتگو ہوئی اس پر افغانستان کا وفد بھی شکر گزار دکھائی دے رہا ہے، میں نے ان سے کہا کہ آج ہمیں یہ تاریخی موقع میسر آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 29 فروری کو دوحہ میں ہونے والے معاہدے کا میں بھی حصہ تھا جبکہ 12 ستمبر کو جس انٹرافغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوا اس میں آپ خود تشریف لے گئے لہٰذا یہ معاملات کا آگے لے جانے کا سنہری موقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلسل کہتا چلا آیا ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ایک سیاسی حل درکار ہے، ہم نے اپنی ذمے داری نبھا دی ہے، اب آپ کو آگے بڑھنا ہے اور اپنا کردار ادا کرنا ہے، مجھے اُمید ہے کہ آپ اس میں کامیاب ہوں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی سہولت کاری کی ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے، آج خوشی کی بات یہ ہے کہ دنیا بھی اسے تسلیم کر رہی ہے اور پاکستان بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام سول اور فوجی ادارے ایک پیج پر ہیں اور افغانستان کی خوشحالی، استحکام، خود مختاری اور یکجہتی میں ہمارا قومی مفاد ان سے منسلک ہے، افغانستان خوشحال ہو گا تو پاکستان خوشحال ہو گا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک نئے باب کا آغاز ہو، اب ماحول بہتر ہے، ہم چاہیں گے کہ جو وہاں تشدد میں کمی واقع ہو اور وہ سیز فائر کی طرف آگے بڑھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس کمرے میں عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی، اسی کمرے میں طالبان کے وفد سے بھی ملاقات ہوئی تھی اور انہیں بھی یہ پیغام دیا تھا کہ آگے بڑھیں، یہ آپ کا ملک ہے اور اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ اپنے کرنا ہے، ہم نہیں کر سکتے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن ہو گا تو نئے راستے کھلیں گے، علاقائی سالمیت کے راستے کھلیں گے، دوطرفہ تجارت کے راستے کھلیں گے اور ہم نے طے کیا ہے کہ مستقبل قریب میں رزاق داؤد کابل جائیں گے اور دوطرفہ تجارت اور علاقائی رابطے منصوبوں پر گفتگو کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ماحول میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا یہ دورہ پاکستان کے لیے اہمیت رکھتا ہے اور میری کوشش ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور افغانستان کے ساتھ ایک دیرپا تعلقات کی بنیاد رکھیں۔

اپنے تین روزہ دورہ پاکستان کے دوران ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ وزیراعظم اور صدر سے ملاقات کریں گے جبکہ وہ چیئرمین سینیٹ، اسپیکرقومی اسمبلی، وزیرخارجہ اور دوسری اہم شخصیات سے بھی ملیں گے۔