پلی بارگین کرنے والے ملزمان پر قانون کے مطابق تمام سزائیں لاگو ہوتی ہیں ،ملزم پلی بار گین کی درخواست میں نہ صرف ملزم اپنےجرم کا اعتراف کرتاہے بلکہ لوٹی گی واجب الادا رقم اداکرتاہے

 
0
4896

اسلام آباد 06 فروری 2021 (ٹی این ایس): پلی بارگین کرنے والے ملزمان پر قانون کے مطابق تمام سزائیں لاگو ہوتی ہیں ،ملزم پلی بار گین کی درخواست میں نہ صرف ملزم اپنےجرم کا اعتراف کرتاہے بلکہ لوٹی گی واجب الادا رقم اداکرتاہے۔ بدعنوانی تمام برائیوں کی ماں ہے جو کہ ملک کی ترقی و خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نیب کا قیام بدعنوانی کے خاتمے اور بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی رقم کی وصولی اور قومی خزانے میں جمع کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ نیب نے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی متحرک قیادت میں “سب کے لئے احتساب” کی اپنی پالیسی کے ذریعے نہ صرف بڑی مچھلیوں کو گرفتار کیا بلکہ بدعنوان عناصر سے 487 ارب روپے کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائی۔ . نیب نے نہ صرف سب کا احتساب یقینی بنانے کا وعدہ کیا بلکہ اپنی بلا امتیاز احتساب کی پالیسی پرکامیابی سے عمل کیا۔ قومی احتساب بیورو نیب ہیڈ کوارٹرز کے ساتھ ساتھ نیب کے تمام ریجنل بیوروز کی کارکردگیکا جائزہ لیاجاتاہے۔ افسران کی کارکردگی میں بہتری کے لئے ان کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔نیب چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی متحرک قیادت میں خود احتسابی پر پختہ یقین رکھتاہے۔ نیب نے شکایت کی تصدیق ، انکوائریوں اور انویسٹی گیشنز کو مکمل کرنے اور متعلقہ احتساب عدالت میں مقدمات دائر کرنے کے لئے دس ماہ کا وقت مقرر کیا ۔ نیب نے نئے انویسٹی گیشن آفیسران اور لاءآفیسرز کوتعینات کرکے نیب کے استغاثہ اور آپریشن ڈویژنوں کو مزید متحرک کیا جارہاہے اور انہیں وائٹ کالر کرائمز کے مقدمات سمیت دیگر مقدمات کی بھرپور انداز میں انکوائری کرنے اور عدالتوں میں ان کی پیروی کرنے کے لئے جدید خطوط پر تربیت فراہم کی جارہی ہے۔ملزم نیب آرڈیننس 1999 کے آرٹیکل 25بی کےتہت بارگین کی درخواست دیتاہے۔ملزمان نیب کی جانب سے اکٹھے گئے ٹھوس ثبوت اور شواہد کو دیکھ کر پلی بارگین کا راستہ رضاکارانہ طور پر اختیار کرتا ہے۔کیونکہ اس کے پاس قانون کے مطابق اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔نیب لوٹی گئی رقم کا تعین کرتاہے۔ملزم کو مجموعی واجب الا دا رقم کے بارے میں آگاہ کیاجاتاہے اور نیب پلی بارگین کی ملزم کی درخواست کو متعلقہ معززاحتساب عدالت مین پیش کرتا ہے ۔ احتساب عدالت پلی بارگین کی حتمی منظوری دیتی ہے۔ملزم احتساب عدالت میں نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے۔عدالت فریقین کے دلائل سننے کے بعد پلی بارگین کی ملزمان کی درخواست منظور کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔یہ درست نہیں کہ نیب پلی بارگین کی منظوری دیتا ہے۔ملزم احتساب عدالت میں نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے بلکہ احتساب عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتا ہے اور لوٹی گئی رقم کی پہلی قسط بھی جمع کراتا ہے۔امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا اور بھارت جیسے ممالک میں پلی بارگین کی جاتی ہے۔پلی بارگین ملزم پر تمام قانونی سزائیں لاگو ہوتی ہیں۔پلی بارگین کے بعد ملزم 10سال کے لئے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نا اہل ہو جاتا ہے۔کاروباری فرد ہونے کی صورت میںوہ شیڈول بینکوں سے قرضہ کے حصول کے لئے نا اہل ہو جاتا ہے۔اس کی کمپنی بلیک لسٹ ہو جاتی ہے۔اگر وہ سرکاری ملازم ہے تو احتساب عدالت سے پلی بارگین کی منظوری کے بعد ملازمت سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے۔یہ رقوم قومی خزنہ میں جمع کرائی جاتی ہے کیونکہ نیب یہ قومی فرض سمجھ کر ادا کر رہاہے۔اعلامیہ میں مزید کہاگیاہے کہ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید ، اقبال کے دور میں ، نیب فعال ادارہ بن گیا ہے اور اس کی سب کا احتساب کی پالیسی کی وجہ سے اس کی ساکھ اور تشخص میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ چیئرمین نیب حکومت یا اپوزیشن میں ان کی حیثیت یاعہدے کو سامنے رکھے بغیر “سب کے لئے احتساب” کی پالیسی اپناتے ہوئے بلا امتیازاحتساب پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ گیلانی اینڈ گیلپ سروے کے مطابق 59فیصد عوام نیب پر اعتماد کرتے ہیں۔نیب انسداد بدعنوانی کا واحد ادارہ ہے جس نے اپنے قیام سے اب تک714 ارب روپے بدعنوان عناصر سے برا مدکر کے قومی خزانہ میں جمع کروائے ہیں۔نیب مقدمات میں سزا کی شرح68.8فیصدہے۔جوکہ پاکستان کےدیگر انسداد بدعنوانی کے اداروں کے مقابلے میں کسی ادارے کی بہترین کارکردگی ہے۔بدعنوانی کے خاتمے کے لئے نیب کی کوششوں اور کارکردگی کو قومی اور بین الاقوامی معتبر اداروں جیسے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل،عالمی اقتصادی فورم،پلڈاٹ اور مشال پاکستان نے سراہا ہے۔نیب سارک انسداد بدعنوانی فورم کا پہلا چیئرمین ہے اور اقوام متحدہ انسداد بدعنوانی کنونشن کے تحت ملک کا فوکل ادارہ ہے ، جو نیب کی کاوشوں کی وجہ سے پاکستان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔ر بدعنوانی کے خاتمے سے متعلق ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیلئے نیب کو چین کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پرپر دستخط کرنے کا اعزاز ہاسل ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب نے کرپٹ عناصر سے براہ راست یا بالواسطہ ریکارڈ 487ارب روپے برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائے جو ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ چیئرمین نے تمام ڈی جی کو ہدایت کی ہے کہ وہ آنے والے تمام افراد کی عزت نفس کا احترام کریں کیونکہ نیب ایک انسان دوست ادارہ ہے جو نیب میں آنے والے ہر فرد کی عزت نفس پر پختہ یقین رکھتا ہے۔نیب کا ایمان کرپشن فری پاکستان ہے ۔