نیب افسران بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے اپنی کوششیں دوگنا کریں   نیب ملک کو قانون کے مطابق کرپشن فری بنانے کیلئے پرعزم ہے,  چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال

 
0
131

اسلام آباد۔5اپریل 2021  (ٹی این ایس): چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ آگاہی، تدارک  اور  انفورسمنٹ کی انسداد بدعنوانی کی جامع اور موثر قومی حکمت عملی وضع کی جس کو معتبر قومی و بین الاقوامی اداروں نے سراہا ہے، نیب افسران بدعنوانی کے خاتمہ کو قومی فرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہو ں نے پیر کو نیب ہیڈکوارٹرز میں نیب کی مجموعی کارکردگی سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔  اجلاس میں بتایا گیا کہ نیب کے آپریشن اینڈ پراسیکیوشن ڈویزنز، شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائریوں، انویسٹی گیشنز اور متعلقہ عدالتوں میں نیب کے مقدمات کی پیروی کیلئے تمام علاقائی بیوروز کو آپریشنل او ر قانونی معاونت فراہم کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ چیئرمین نیب  کی آگاہی، تدارک  اور  انفورسمنٹ کی انسداد بدعنوانی کی جامع اور موثر قومی حکمت کو معتبر قومی و بین الاقوامی اداروں نے سراہا ہے،  نیب قانون کے مطابق شواہد پر مبنی احتساب سب کیلئے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، نیب کا ایمان کرپشن فری پاکستان ہے۔ نیب کی موجودہ انتظامیہ نے متعلقہ ڈائریکٹر جنرل کی زیر نگرانی اجتماعی دانش کا فائدہ اٹھانے کے لئے 2 انویسٹی گیشن افسران ، ایک لیگل کنسلٹنٹ، ایک مالیاتی ماہر، ایک کیس آفیسر/ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا نظام وضع کیا ہے۔ اس نظام سے انکوائری اور انویسٹی گیشن کے معیار میں بہتری آئی ہے۔ احتساب عدالتوں میں نیب کے مقدمات میں مجموعی سزا کی شرح 68.8 فیصد ہے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کے افسران و اہلکاران کی کارکردگی میں مزید بہتری اور جائزہ کیلئے یکساں معیار پر معیاری مقداری نظام کے تحت ششماہی اور سالانہ بنیادوں پر کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ ادارہ جاتی نگرانی اور مدد کے ذریعے آپریشنل ایفییشنسی  انڈیکس ، کام کی تقسیم اور ذمہ داریوں کا واضح تعین کرکے معیاری اور مقداری بہتری لائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ تمام فریقین  کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جائزہ اور نگرانی کا نظام وضع کیا ہے جس کی نمایاں خصوصیات میں شکایات کا اندراج، شکایت کی تصدیق، انکوائری، انویسٹی گیشن، پراسیکیوشن، علاقائی بورڈز  کے اجلاسوں، ایگزیکٹو بورڈز اجلاسوں سمیت مقدمات سے متعلق تفصیلات کے اعداد و شمار کو جمع کرنا ہے۔ نگرانی اور جائزہ کے نظام پر معیاری اور مقداری اعداد و شمار کے تجزیہ کیلئے بھی بروئے کار لایا جائے گا تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو تنبیہ کی جا سکے۔ چیئرمین نے نیب ہیڈ کوارٹرز اور تمام علاقائی بیوروز کی کوششوں کو سراہا ہے اور انہیں ہدایت کی کہ وہ بدعنوانی کے خاتمہ اور بدعنوان عناصر سے لوٹی گئی رقوم کی وصولی کیلئے اپنی کوششیں دوگنا کریں کیونکہ نیب ملک کو قانون کے مطابق کرپشن فری بنانے کیلئے پرعزم ہے۔  گیلانی اینڈ گیلپ سروے کے مطابق 59 فیصد لوگ نیب پر اعتماد کرتے ہیں۔ نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا چیئرمین ہے، نیب سات ممالک کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ معتبر قومی اور بین الاقوامی اداروں جیسے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان، عالمی اقتصادی فورم، گلوبل پیس کینیڈا، پلڈاٹ اور مشال پاکستان نے بدعنوانی کی روک تھام کے لئے نیب کی کوششوں کو سراہا ہے۔نیب اقوام متحدہ کے انسداد بدعنوانی کنونشن (یو این سی اے سی) کے تحت پاکستان کا فوکل ادارہ ہے۔ نیب وہ ادارہ ہے جس نے بدعنوانی کی روک تھام میں تعاون میں اضافہ اور سی پیک کے تحت منصوبوں کی نگرانی کے لئے چین کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔نیب راولپنڈی نے جدید فرانزک سائنس لیبارٹری قائم کی ہے۔نیب نے گزشتہ تین سالوں کے دوران چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی دانشمندانہ قیادت میں بدعنوان عناصر سے 487 ارب وصول کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائے ہیں جو کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں شاندار کامیابی ہے۔  نیب کے اس وقت مختلف احتساب عدالتوں میں بدعنوانی کے 1230 مقدمات زیر سماعت ہیں جن کی مالیت 947 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔نیب نے نوجوانوں کو اوائل عمری میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو بدعنوانی کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے تھے۔ اس سلسلہ میں ملک بھر میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 50ہزار سے زائد کردار سازی کی انجمنیں قائم کی گئی ہیں جن کے اجلاس باقاعدہ بنیادوں پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہوتے ہیں۔ نیب کے اس اقدام کے شاندار نتائج سامنے آئے ہیں۔ نیب نے سرکاری اداروں میں خامیوں کی نشاندہی کیلئے پریوینشن کمیٹیاں قائم کی ہیں۔ چیئرمین نیب نے تمام علاقائی بیوروز کو ہدایت کی ہے کہ وہ بدعنوان عناصر، عدالتی مفروروں اور اشتہاریوں کو گرفتار کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں تاکہ انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے اور ان سے لوٹی گئی رقم وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائی جا سکے۔