کووڈ ریلیف پروگرام میں خواتین کو ترجیحی بنیاد پر شامل کیا جائے، ٹی ڈی ای اے،فافن

 
0
173

اسلام آباد 09 اپریل 2021 (ٹی این ایس): ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹبلیٹی اور فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (ٹی ڈی ای اے ۔فافن ) کی طرف سے جاری ایک سروے رپورٹ کے نتائج میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے سفارش کی گئی ہے کہ نہ صرف کووڈ۔ 19 کی امدادی سرگرمیوں کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جائے بلکہ کووڈ کے باعث مشکلات کا شکار ہونیوالی خواتین کیلئے امداد کے حصول کے معیار اور امداد تک رسائی کو آسان اور ریلیف پروگرام میں ترجیحی بنیاد پر شرکت کو یقینی بنایا جائے تاکہ کویڈ 19 کی جاری لہر کے دوران انہیں درپیش صنفی فرق کو ختم کرنے کے اقدامات میں مدد مل سکے ۔

ٹی ڈی ای اے ۔ فافن کی جانب سے پاکستان بھر کے منتخب 20 اضلاع کے 6000 گھرانوں کے سروے کی بنیاد پر جاری سماجی و اقتصادی اثرات کی تجزیاتی رپورٹ میں کووڈ کی پہلی لہر کے دوران پسماندہ طبقات کو بالعموم اور خواتین کو بالخصوص جن مسائل کا سامنا ہوا ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق وبا کی پہلی لہر کے دوران خواتین اور لڑکیاں خاص طور پر متاثر ہوئی ہیں ۔

مردوں کے زیر کفالت گھرانوں کی نسبت خواتین کے زیر کفالت گھرانوں کو زیادہ پریشانی اٹھانی پڑی ہے کیونکہ کووڈ سے پہلے خواتین کی آمدنی مردوں کے مقابلے میں کم تھی ۔ لہٰذا سماجی فاصلوں کی پابندیوں اور لاک ڈاؤن کے سبب پیدا ہونیوالی معاشی سست روی نے پہلے سے ہی پسماندگی کا شکار خواتین کو آمدنی اور وسائل رزق سے محروم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔

رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے زیر کفالت تقریبا88 فیصد گھرانوں ، 62 فیصد تنخواہ دار خواتین اور 70 فیصد خود روزگار خواتین کی آمدنی میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ۔ اسی طرح اس عرصے میں لگ بھگ 27 فیصد ملازمت شدہ خواتین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں جبکہ 12 فیصد کاروباری خواتین کو اپنے کاروبار بند کرنے پڑے جبکہ تقریبا 15 فیصد خواتین کو تنخواہوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔

سروے کے دوران وبا سے متاثرہ کچھ گھرانوں نے اس وبائی مرض کے سبب ان پر پڑنے والے اضافی مالی بوجھ کی معلومات بھی فراہم کیں ۔تاہم کووڈ ۔ 19 کی اس لہر کے دوران گھرانوں کے تعلیمی اخراجات میں مجموعی طور پر کمی دیکھی گئی جبکہ کم آمدنی والے طبقات کے مقابلے میں زیادہ آمدنی کے حامل طبقات کے ذہنی تناؤ اور چڑچڑے پن میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔

رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران کووڈ کے باعث صنفی تعلقات خاص طور پر خواتین کے حوالے سے نفسیاتی ماحول کی سنگین صورتحال ابھر کر سامنے آئی اور تقریبا 31 فیصد جواب دہندگان نے صنف پر مبنی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی تصدیق کی ۔ رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے دوران تقریبا 30 فیصد دیہی اور 31 فیصد شہری گھرانوں میں خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ مزید برآں 43 فیصد جواب دہندگان نے تناؤ اور دیگر ذہنی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کو رپورٹ کیا ۔

تاہم اس تمام تر پریشان کن صورتحال کے باوجود زیر تبصرہ عرصے میں معاشرتی سطح پر کچھ مثبت رجحانات بھی مشاہدے میں آئے ۔ مثلاً لوگوں نے اپنے ارد گرد موجود مستحق افراد کی امداد کیلئے مقامی سطح پر اقدامات اٹھاتے ہوئے امدادی کمیٹیاں قائم کیں جن کے ذریعے محلہ کی سطح پر لوگوں کی امداد کی گئی ۔ تقریبا 27 فیصد جواب دہندگان جن میں خواتین کی بڑی تعداد( تقریباً 35 فیصد) بھی شامل تھی نے تصدیق کی کہ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے امداد حاصل کی ۔ رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران بیشتر جواب دہندگان (66 فیصد) نے صورتحال سے نمٹنے کیلئے اٹھائے جانیوالے حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران افراط زر اور اشیا ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پانے کے سلسلے میں حکومتی اقدامات ناکافی دکھائی دیئے اور سروے کے دوران 90 فیصد جواب دہندگان نے اپنے علاقے میں بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کو رپورٹ کیا ۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ کووڈ کی موجودہ یا آئندہ متوقع صورتحال کے پیش نظر لازم ہے کہ امدادی سرگرمیوں اور معاشی ریلف پروگراموں کو خواتین کے زیر کفالت گھرانوں اور انفرادی کام کرنیوالی خواتین کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے صنفی بنیادوں پر بھی مرتب کیا جائے تاکہ ایسے گھرانے اور خواتین کوویڈ 19 کے اثرات یا کسی بھی اسی نوعیت کے متوقع بحران کا مقابلہ کر سکیں ۔

خاص طور پر ، امدادی و مالی اعانت کے پروگراموں کو نہ صرف کم آمدنی والے افراد بلکہ جز وقتی کارکنوں ، ذاتی کام کرنے والوں اور فری لانسرز اور خاص طور پر گھروں میں کام کاج کرنے والی خواتین تک بھی وسعت دی جائے ۔رپورٹ میں حکومت سے یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ معاشی ریلیف کے پیکیجز کے تحت ان کاروباری خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر بلا سود یا سستے قرضے دیئے جائیں جن کے کاروبار اس وبا کے دوران متاثر یا بند ہوئے ہیں ۔ رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ حکومت کووڈ کی پہلی لہر کے دوران صنفی بنیادوں پر تشدد کا شکار ہونیوالی خواتین کی بحالی کے لئے بھی اقدامات کرے اور مستقبل میں اس کے تدارک کیلئے طریقہ کار کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرے ۔