پاکستان میں پائے جانے والے مخصوص جراثیم و امراض کے لئے ویکسینز اور ادویات کی تیاری کے لئے دنیا کی ممتاز جامعات کے ساتھ تحقیق کے شعبہ میں بین الاقوامی شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا ہے؛ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد عمران مجید

 
0
157

اسلام آباد 24 مئی 2021 (ٹی این ایس): وائس چانسلر نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز (نمز) لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد عمران مجید نے پاکستان میں پائے جانے والے مخصوص جراثیم و امراض کے لئے ویکسینز اور ادویات کی تیاری کے لئے دنیا کی ممتاز جامعات کے ساتھ تحقیق کے شعبہ میں بین الاقوامی شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اتوار کو یہاں ایک ایف ایم ریڈیو پروگرام میں میڈیکل ایجوکیشن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی شراکت داروں کے ساتھ پاکستانی میڈیکل یونیورسٹیز کا تحقیقی اشتراک کار طبی شعبہ میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔نمز تحقیق کے فروغ کیلئے برطانیہ، امریکہ چین، ملائشیا اور ترکی میں بعض یونیورسٹیز کے ساتھ پہلے ہی اشتراک کار کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی نے میڈیکل پروفیشنلز کو وسیع تر معلومات تک رسائی دی ہے لیکن ہمیں سرکردہ بین الاقوامی جامعات کے ساتھ اپنی شراکت داری قائم کر کے تحقیق کے شعبہ میں دنیا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کے برعکس پاکستان میں اب تخصیصی میڈیکل یونیورسٹیز موجود ہیں جنہیں محض ڈگریاں عطا کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنے عوام کے مسائل کے حل کے لئے تحقیق پر بھی توجہ مرکوز کرنا چاہیے، طبی تحقیق سیاق و سباق کی حامل ہوتی ہے اور ہم صرف دوسروں کی تحقیق پر انحصار نہیں کر سکتے۔ وائس چانسلر نمز نے کہا کہ طب کا علم ہر ماہ بہتر ہوتا رہتا ہے لہذا ڈاکٹروں کو اپنی معلومات میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ علم تیزی سے تغیر پذیر ہوتا ہے اس لئے اگر ہم اپنی ضروریات کے مطابق تحقیق پر توجہ مرکوز نہیں کرتے تو پیچھے رہ جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کو مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے معیاری تحقیق کرنے میں اپنے میڈیکل پریکٹیشنرز کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے صحت کی تعریف محض بیماری کی عدم موجودگی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی دیگر چیزوں سمیت اچھی صحت اس میں شامل ہوتی ہے،طبی میدان میں ہمہ جہت اپروچ ضروری ہے۔ انہوں نے پاکستان ہیلتھ کمیشن کے قیام پر زور دیا جو ادویات کے معائنے سمیت صحت عامہ کی نگہداشت کے نظام میں کام کرنے والے الائیڈ ہیلتھ انسٹی ٹیوٹس کی نگرانی کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نجی شعبہ کو ریگولیٹ نہیں کیا جاتا تو یہ خطرناک ہو گا لہذا تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر اس کی مناسب نگرانی ہونی چاہیے۔وائس چانسلر نمز نے چینی نظام علاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنے دورہ چین کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ چینیوں کی علمی بنیاد بہت گہری اور وسیع ہے کیونکہ انہوں نے اپنی تحقیق کی ہے۔ چین میں تشخیص کے بعد مریضوں کو اپنی مرضی کا مغربی یا چینی علاج کرانے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ عمومی طور پر 60 فیصد مریض روایتی چینی ادویات کے علاج کو اپناتے ہیں۔چین میں اوسط عمر گزشتہ دو برسوں میں بڑھی ہے جو ان کے اپنے طریقہ علاج کی کامیابی کی نشاندہی کر تی ہے۔