افغانستان میں امن واستحکام ہمسائے کے طورپر پاکستان کےمفاد میں ہے، وزیر خارجہ

 
0
151

اسلام آباد 11 نومبر 2021 (ٹی این ایس): وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ رابطہ نہ صرف بحال رہنا چاہئے بلکہ کئی وجوہات کی بنا پر اس میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ پھر سے یہ ملک خانہ جنگی کی نذر نہ ہو۔

’ٹرائیکا پلس‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاشی انحاط وانہدام کا خواہاں نہیں، جس سے عدم استحکام بڑھے گا، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر فعال دہشت گرد عناصر سے موثر انداز سے نمٹا اور مہاجرین کے ایک نئے بحران سے بچا جائے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے متعلق ہم سب کی تشویش وفکر مندی مشترک ہے جبکہ وہاں امن واستحکام ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے اور ان سب کا حصول ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے‘۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس صورتحال میں ’ٹرائیکا پلَس‘ نے نمایاں اہمیت حاصل کرلی ہے اور اس کا کردار نہایت اہم ہے جو اسے ادا کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پُراعتماد ہیں کہ ’ٹرائیکا پلَس‘ کے نئی افغان حکومت سے امور کار، امن واستحکام کے فروغ ، پائیدار معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے لیے گنجائش مسدود ہوتی چلی جائے گی‘۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے لہٰذا ناگزیر ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کرے، صحت، تعلیم اور میونسپل سروسز کی فراہمی کو فوری توجہ درکار ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام قریب ترین ہمسائے کے طورپر پاکستان کے براہ راست مفاد میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم نے گذشتہ چار دہائیوں میں، مہاجرین، منشیات اور دہشت گردی کی صورت میں اس تنازعے اور عدم استحکام کا براہ راست نقصان اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اپنے حصے کے طور پر میں امن، ترقی اور خوش حالی کے راستے پر افغانستان کی مدد کرنے کے ہمارے وزیراعظم کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں‘۔

اس اجلاس میں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان، پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ، روس کے خصوصی سفیر برائے افغانستان ضمیر کابلوف، چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان یاؤ یاؤ یانگ شریک ہوئے۔

’بیجنگ کے آئندہ کے اجلاس میں طالبان کو مدعو کریں گے‘
اجلاس کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ’بیجنگ کے آئندہ کے اجلاس میں طالبان کو مدعو کریں گے تاکہ ان کے تحفظات کو عالمی برادری تک پہنچایا جاسکے اور بین الاقوامی برادری کی توقعات کا بھی ان کو علم ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم برادر ممالک کے شکرگزار ہیں اور انہیں احساس دلاتے ہیں کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ افغانستان میں امن و استحکام کے عالمی سطح پر بھی اور خطے پر بھی اثرات ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’افغانستان میں بگاڑ سے پاکستان تو متاثر یقیناً ہوگا تاہم اور کوئی بھی نہیں بچ پائے گا جو سمجھتے ہیں کہ ہم دور ہیں اور وہ اس کی زد میں نہیں آئیں گے وہ تاریخ سے سبق سیکھیں‘۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان انسانی قدروں کو بنیاد بناتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہا ہے جو ہمارا فرض ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں افغانستان کے امن، استحکام میں دلچسپی رکھتے ہیں، ہمیں احساس ہے کہ افغانستان مخلتف نسلوں پر مبنی ایک معاشرہ ہے اور پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے‘۔