آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنا ایگزیکٹو کی بدنیتی کا تاثر دیتا ہے، چیف جسٹس

 
0
145

اسلام آباد 30 مارچ 2022 (ٹی این ایس): چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ تو ایگزیکٹو کا اختیار نہیں ہے کہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے سامنے نہ رکھے اور آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ایگزیکٹو کی بدنیتی شامل ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کس تاریخ کو یہ آرڈینس جاری ہوا ؟ کیا آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے کسی ہاؤس کے سامنے پیش کیا گیا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ آرڈینس 18 فروری کو جاری ہوا اور آفیشل گزٹ میں 19 فروری کو آیا ہے۔ آرڈیننس ابھی تک پارلیمنٹ کے دونوں ہاؤسز کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ تو ایگزیکٹو کا اختیار نہیں ہے کہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے سامنے نہ رکھے اور آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ایگزیکٹو کی بدنیتی شامل ہے۔ قومی اسمبلی یا سینیٹ کسی بھی وقت آرڈیننس کو مسترد کر سکتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین پابند بناتا ہے کہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اگر آج آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوتا تو کیوں نہ عدالت ایگزیکٹو کی بدنیتی قرار دے۔ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے اور ایگزیکٹو یہ نہیں کر سکتی کہ جس ایوان میں اکثریت ہو وہاں پیش کر دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ایگزیکٹو نے اپنے فرض کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ کیا ایگزیکٹو پارلیمنٹ کو آرڈیننس منظور یا مسترد کرنے کے اختیار سے روک سکتا ہے؟ آئین کہتا ہے آرڈیننس جاری ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش ہو گا اور پارلیمنٹ سپریم ہے وہ آرڈیننس کو مسترد کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایگزیکٹو جان بوجھ کر اپنے فرض کو پورا نہیں کر رہی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اور ایگزیکٹو کے پاس آئین کی خلاف ورزی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ آئین کہتا ہے آرڈیننس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے گا اور اگر پارلیمنٹ کا کوئی بھی ایوان آرڈیننس کو مسترد نہیں کرتا تو پھر وہ بل کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ ایگزیکٹو پارلیمنٹ کو آرڈیننس کا جائزہ لینے کے حق سے محروم رکھ رہی ہے اور اگر پارلیمنٹ کا ایک ایوان آرڈیننس کو مسترد کر دیتا ہے تو وہ ختم ہو جائے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں پیکا آرڈیننس کا معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ حکومت اس آرڈیننس کو ہی واپس لے لے کیونکہ کسی درخواست میں بھی پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 کو چیلنج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت تو اس کیس کو پس پشت نہیں ڈال سکتی اور ایسی درخواست موجود ہے جس میں پیکا ایکٹ کی دفعات کو بھی چیلنج کیا گیا۔ سیکشن 20 میں گرفتاری کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اور کیوں نہ عدالت پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 کو کالعدم قرار دے۔