پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کے مستعفی کا فیصلہ

 
0
199

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونےکےبعد حکومتی ارکان اسمبلی کے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیاہے تحریک انصاف کے انتہائی معتبر زرائع نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے بعد کہاکہ موجودہ حالات میں کسی طرح بھی اسمبلی کو برقرار نہیں رکھاجاسکتا اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد155 ہے۔ ممبران کی کل تعداد342ہے ۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی کے تمام ممبران اسمبلی مستعفی ہو جائیں۔

اگر پی ٹی آئی اور ا ن کے اتحادی جو اگرچہ اب تعداد میں کم رہ گئے ہیں اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائیں تو نئی حکومت کا چلنامشکل ہوجا ئے گا۔ اتنی تعداد میں ضمنی الیکشن کرانا بھی مشکل ہوگا۔ اب جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آئی ہے تو عام انتخابات (2023) کے انعقاد میں لگ بھگ ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی ہے، ایسے میں پی ٹی آئی کو اپنی ’وکٹیں‘ سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان اسمبلیوں سے استعفے دینے کا کارڈ استعمال کر رہے ہیں جس سے نئی حکومت بحران سے دوچار ہوجائے گی۔واضع رہے کہ عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیاہے,اسپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کردی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلایا جائے۔سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے کے اہم نکات ; ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ پانچ صفر سے متفقہ طور پر سنایا گیا
3 اپریل کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور صدر کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا، سپریم کورٹ
قومی اسمبلی بحال کی جاتی ہے، سپریم کورٹ
قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلایا جائے، سپریم کورٹ
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، سپریم کورٹ
صدر کی نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، سپریم کورٹ
تحریک عدم اعتماد منظور ہوجائے تو اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے، سپریم کورٹ
کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہ روکا جائے، عدالت عظمیٰ
تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے، سپریم کورٹ……..سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، ووٹنگ کرائے بغیر اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ کیا جائے، صدر کی نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو اسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔عدالت نے متقفہ فیصلے میں کہا کہ کسی ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا، تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان اور ان کی کابینہ کو عہدوں پر بحال کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ فیصلہ سنانے کیلئے 8 بجکر 26 منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچا۔سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو سپریم کورٹ میں طلب کیا جس پر وہ فوری طور پر سپریم کورٹ پہنچے۔پانچ رکنی بینچ عدالت میں پہنچا تو انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے استفسار کیا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہمیں 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے تیار رہنا چاہیے، الیکشن کمیشن ہر وقت تیار ہے الیکشن کرانے کے لیے لیکن ہمیں حد بندی کرنی ہیں لہٰذا ہمیں 6 سے 7 ماہ چاہئیں۔ تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے رہنما فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بد قسمت فیصلہ قرار دے دیا۔اپنے ٹوئٹر پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ اس بد قسمت فیصلے نے پاکستان میں سیاسی بحران میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ فوری الیکشن ملک میں استحکام لا سکتا تھا بدقسمتی سے عوام کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ابھی دیکھتے ہیں معاملہ آگے کیسے بڑھتا ہے۔