بلاول اور مولانا اسعد کا امتحان

 
0
342

جاوید ملک /شب و روز

اسلام آباد 21 اپریل 2022 (ٹی این ایس): موجودہ وفاقی کابینہ کا ایک حسن یہ ہے کہ اس میں ماضی کے دو طاقت ور اور تاریخ ساز سیاستدانوں کے نواسے اور پوتے نے بھی حلف لیا اور یہ دونوں نوجوان عملی طور پر پہلی بار بہ طور وزیر خدمات سرانجام دیں گے ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو کا حلف اگرچہ ابھی تک نہیں ہو سکا لیکن یہ واضح ہے کہ وہ جلد یا بدیر وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھال لیں گے جب کہ مفتی محمود کے پوتے مولانا اسعد محمود نے وزارت مواصلات کا قلمدان سنبھال کر کام شروع کر دیا ہے بلاول بھٹو چونکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں اور یہ پارٹی مسلسل سندھ میں برسر اقتدار ہے تو انہیں عنان حکومت کا اندازہ ضرور ہے جبکہ مولانا اسعد محمود کیلئے یہ وزارت ان کی پہلی سیاسی اننگز ہے جو ان کے مستقبل کی سیاست کا بھی تعین کرے گی اور سی پیک جیسے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے کے سبب یہ وزارت انتہائی اہمیت بھی اختیار کر چکی ہے وزارت مواصلات مسلم لیگ نون کا رومانس بھی ہے میرے لئیے یہ بھی اچنبھے کی بات تھی کہ حکمران جماعت یہ وزارت کیسے اپنی اتحادی جماعت کو دے رہی ہے وزارتوں کی تقسیم کے معاملہ میں اتحادیوں کے درمیان جس ہلکی پھلکی موسیقی کی خبریں گردش کرتی رہیں شاید اس کے درپردہ ایسی ہی وزارتوں کی تقسیم تھی جو مسلم لیگ نون نے یقیناً دل پر پتھر رکھ کر اپنے اتحادیوں کی جھولی میں ڈالی ہیں بلاول بھٹو کی بغیر حلف لندن روانگی یہ عیاں کر رہی ہے کہ شاید حکمران جماعت کو اس وقت اپنے اتحادیوں کے معاملہ میں جس کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر پا رہی ہے ممکن ہے میرا یہ خیال باطل ہی ہو مگر وزارت مواصلات کا قلمدان مولانا اسعد کے پاس جانے کے باوجود وزارت کے اہم جزو نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں احد چیمہ کی غیر ضروری دل چسپی اور مداخلت ان خدشات کو آکسیجن فراہم کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے اور کپتان کو چاروں شانے چت کرنے میں مرکزی کردار مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کا ہے سابقہ حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی مولانا فضل الرحمان نے لنگوٹ کس لیا تھا اور اگر مسلم لیگ نون کو مولانا کا کندھا میسر نہ ہوتا تو یہ تبدیلی خواب ہی رہ جاتی اگرچہ عمران خان کو گھر بھیجنے کے معاملہ میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے اس قدر تاخیر سے ہوا کہ مولانا کپتان کو جس اہتمام کے ساتھ میدان سے بے دخل کرنا چاہتے تھے وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور عمران خان بیرونی مداخلت کا کارڈ لئیے اب سڑکوں پر ہے اور کم از کم وہ اپنے ووٹرز کو یہ باور کرانے میں ضرور کامیاب ہوگیا ہے کہ اس نے اپنے خوابوں کا نیا پاکستان بس بنا ہی ڈالا تھا صرف رنگ روغن باقی رہ گیا تھا کہ اپوزیشن نے سیاپا کھڑا کر دیا واقفان حال کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف پریشان ہیں کیونکہ ملک کے معاشی حالات اور داخلی خارجی مسائل ان کی توقع اور سوچ سے زیادہ گھمبیر ہیں حکومتی ترجمانوں نے اس پر رونا پیٹنا بھی شروع کر دیا ہے مگر یہ بیانیہ اس لئیے مقبولیت حاصل نہیں کر پائے گا کہ پاکستان میں یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہر آنے والا جانے والے کو کوستا ہے اس لئیے مسلم لیگ نون اور اتحادیوں نے جو ڈھول گلے میں ڈالا ہے اب اسے بجانا پڑے گا قومی انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور اب واحد حل ایسی بے مثال کارکردگی ہے جو عوام کو متاثر کرسکے

جمعیت علمائے اسلام کیلئے یہ امتحان زیادہ کھٹن ہے کیونکہ جماعت کو یہ موقعہ ملا ہے کہ وہ وفاقی سطح پر اپنی کارکردگی دکھائے اور اس تاثر کو زائل کرے کہ ملا صرف مصلے تک ہی محدود ہے بالخصوص مولانا اسعد محمود کیلئے یہ کڑا امتحان ہے کیونکہ وہ مستقبل کی قیادت ہیں ان کے ہاتھ ایک ایسی وزارت آئی جس کے سابق وزیر مراد سعید نے غلط اعداد و شمار اور مصنوعی ترقی کی اتنی داستانیں سنا رکھی ہیں کہ اب اس گنجل میں سے سچ ڈھونڈنا اور سامنے لانا بھی ایک مشکل کام ہے میں نے بارہا اپنے کالموں میں نشاندہی کی مراد سعید سی پیک جیسے قومی اہمیت کے منصوبے کیلئے خودکش حملہ آور بن کر نازل ہوئے تھے انہوں نے شہباز شریف اور چائینہ کی کچھ اہم کمپنیوں اور ان سے جڑی اہم شخصیات پر جو بے بنیاد الزامات لگائے اس سے نہ صرف تاریخ میں پہلی بار دونوں دوست ممالک کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوئی بلکہ یہ منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہوا مراد سعید کے بچگانہ طرز عمل کا خیمازہ پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبی اس قوم کو تاخیر کے تاوان کی صورت میں بھی برسوں ادا کرنا پڑے گا لیکن مجھے خوشی ہے کہ مولانا اسعد محمود نے یہ چیلنج بڑے حوصلے سے قبول کیا ہے مجھے وہ بالکل گھبرائے ہوئے یا نئے کھلاڑی نہیں لگے میری پہلے بھی ان کے حوالے سے رائے بہت اچھی تھی اور میں ان کو پاکستان کی سیاست میں خوش گوار ہوا کا جھونکا قرار دے چکا ہوں لیکن گزشتہ روز جب ان کی وزارت کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو وہ مجھے بہت پرعزم دکھائی دئیے وزارت کا حلف لینے کے فوراً بعد جس طرح وہ اپنے دفتر پہنچے افسران کو طلب کیا اور بریفنگ لی وہ عیاں کر رہی ہے کہ مفتی محمود کا پوتا اپنی اننگز کھیلنے کیلئے مکمل تیار ہے اور شاید اس کا پہلا شارٹ سری نگر ہائی وے پر تبلیغی جماعت کے اس مرکز کو راستہ دینے سے شروع ہو جسے ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے بلاوجہ روک کر دین دار طبقے میں اپنے لئیے نفرت پیدا کی ہے