الیکشن ہی واحد حل

 
0
240

تحریر: اعجازعلی ساغر
Twitter: @SAGHAR1214

اسلام آباد 25 اپریل 2022 (ٹی این ایس): پاکستان کے بہترین ایڈمنسٹریٹر شہبازشریف نے بطور وزیراعظم کام کرنا شروع کردیا ہے انہوں نے وزرات عظمیٰ کا حلف لیتے ہی حسب روایت اور عادت صبح سویرے میٹروبس کے نامکمل منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے پشاور موڑ جا پہنچے اور سب کی دوڑیں لگوادیں اور چار دن کی مختصر مدت میں التوا کے شکار منصوبے کو مکمل کرکے شروع کروا دیا۔ میٹروبس کا یہ منصوبہ میاں شہبازشریف کی قیادت میں پنجاب حکومت نے ہی شروع کیا تھا اور 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت نے اس منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ھوا کیونکہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے باضابطہ کوئی ایسا روٹ یا گاڑی موجود نہیں تھی جو نئے ائرپورٹ تک لیجائے اور پرائیویٹ گاڑیوں میں وہاں تک پہنچنے کیلئے دو سے تین ہزار روپے خرچ ھوجاتے تھے میٹروبس کے منصوبے کی تکمیل کے بعد لاکھوں کی تعداد میں مسافروں کی روزانہ کی نقل و حرکت آسان ھوگئی میاں شہبازشریف نے نہ صرف میٹروبس منصوبے کی تکمیل کی بلکہ اس کے بعد اگلے نامکمل پروجیکٹ کلب روڈ فلائی اوور کی تکمیل تھی وزیراعظم صاحب وہاں پہنچے اور اس منصوبے کی تکمیل میں حائل مشکلات کو حل کرنے کی ہدایت کی,یقیناً ملک کے سربراہ کو اسی طرح کی تیزی کی ضرورت ہے اور یہی بات عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کی حکومت کو بتا بتا کر تھک گئے تھے کہ خدارا عوامی مسائل کی طرف توجہ دیں مسائل جوں کے توں ہیں مگر پوری کابینہ بلکہ تحریک انصاف کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی یہ لوگ وزارتوں اور عہدوں کی آسائشوں و عیاشیوں میں اس قدر مگن ھوئے کہ انہیں بھول گیا کہ آگے عوام میں بھی جانا ہے اور عوام شہرت نہیں کارکردگی دیکھ کر ووٹ دے گی جن بیساکھیوں کا سہارا لیکر وہ عیش و عشرت میں مگن تھے وہ بیساکھیاں عارضی ثابت ھوئیں بلکہ وہ پچھلے 70 سال سے عارضی ہی ثابت ھورہی ہیں پتہ نہیں کیوں یہ سیاستدان بھول جاتے ہیں اور عوامی مسائل کو نظر انداز کرکے الیکشن کے قریب سہارے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف کا دیرینہ خواب بالاخر پورا ھوا اور انہوں نے بھی شیروانی زیب تن کرلی آج سے پچیس سال پہلے جب مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ختم کیا جارہا تھا تو مقتدر حلقوں کی جانب سے مائنس نوازشریف کی تجویز دی گئی اور شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کی آفر کی گئی لیکن میاں نوازشریف نے اس آفر کو رد کردیا اس وقت سے لیکر اب تک پچیس سال بنتے ہیں بہت سے مواقع آئے جب چھوٹے میاں کیلئے شیروانی سلوائی گئی لیکن ان کے بھائی ہی ان کے رستے کی رکاوٹ بن گئے۔
پچیس سال بعد گو چھوٹے میاں کا خواب تو پورا ھوگیا لیکن ان کو لولی لنگڑی حکومت دی گئی ان۔کیساتھ بھی عمران خان والا ہاتھ کیا گیا ایک طرف اتحادی تھے جو ہر وقت بلیک میل کرنے کے چکر میں رہتے تھے اور دوسری طرف پی ڈی ایم اتحاد جو ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آیا تھا عمران خان نے پونے چار سال میں بیشمار ایسے عوامی کام بھی کیے جو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی حکومت نہ کرسکی۔
عمران خان کو اندرونی مداخلت کیساتھ ساتھ بیرونی سازشوں کا بھی سامنا رہا خاص کر امریکہ کا رویہ عمران حکومت کیساتھ انتہائی سخت رہا کیونکہ وہ آزاد خارجہ پالیسی کے حامی تھے اور اسی آزاد خارجہ کی مضبوطی کیلئے انہوں نے چین اور روس سمیت دنیا بھرکے دورے کیے اور ملک میں دو بار او آئی سی کا اجلاس بلاکر مغربی طاقتوں کو سوچنے پر مجبور کردیا عمران خان نے روس کا دورہ اس وقت کیا جب یوکرائن اور روس کی جنگ جاری تھی اور امریکی دباؤ کے باوجود یہ دورہ کیا گیا جو امریکہ اور یورپی یونین کو ایک آنکھ نہ بھایا لہذا انہوں نے ملک میں رجیم چینج کی ٹھان لی اور عمران مخالف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو الرٹ کردیا گیا بس پھر کیا تھا سب کے سب اکٹھے ھوئے اور نتیجہ عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں عمران حکومت کے خاتمے پر نکلا عمران خان نے بھی شور مچانا شروع کردیا اور پوری کی پوری تحریک انصاف نے استعفے دیدیے ادھر پنجاب میں بھی مسلم لیگ ق کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر عثمان بزدار کو استعفیٰ دینا پڑا اور تحریک انصاف نے چوھدری پرویز الہی کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا۔
مسلم لیگ ق نے ڈبل گیم کرتے ھوئے اپنی پارٹی کے دو ارکان نئی حکومت میں بھی گھسا دیے طارق بشیر چیمہ اور چوھدری سالک حسین نے نئی حکومت میں وفاقی وزراء کے قلمدان سنبھالے جبکہ پنجاب میں چوھدری پرویز الہی اور حمزہ شہباز کے درمیان وزرات اعلیٰ کی رسہ کشی نے آئینی بحران پیدا کردیا عدالتی حکم پر ووٹنگ ھوئی اور حمزہ شہباز تحریک انصاف کی جانب سے مکمل بائیکاٹ کے بعد یکطرفہ طور پر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ھوگئے چونکہ آئینی عہدے تحریک انصاف کے پاس تھے لہذا وفاق کی طرح پنجاب میں بھی حلف برداری کی تقریب لٹک گئی۔
اسی طرح کا معاملہ وفاق میں بھی ھوا کہ شہبازشریف کے وزیراعظم بننے کے بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے حلف نہیں لیا بلکہ بیماری کا کہہ کر اس سارے معاملے سے پیچھے ہٹ گئے ان کی جگہ قائمقام صدر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیراعظم سے حلف لیا۔
اس وقت ملک میں حالات بہت کشیدہ ہیں ملک معیشت خراب ھونے کی وجہ سے حکومت کو ایک بار پھر آئی ایم ایف جانا پڑ رہا ہے ملک میں مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے آئی ایم ایف معاہدے کے بعد تیل اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں یکدم اضافہ ھوجائے گا جس کا عندیہ حکومت پہلے ہی دے چکی ہے حکومت کے اس اقدام سے مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا جو میاں شہباز شریف کیلئے مشکلات پیدا کردے گا۔
مخلوط حکومت نے وجود میں آتے ہی جہاں میڈیا پر پچھلی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کا خاتمہ کیا وہیں اپنے کیسیز بھی ختم کیے رانا ثناءﷲ نے وزیرداخلہ بنتے ہی اپنی قیادت سمیت پیپلزپارٹی,دوسری اتحادی جماعتوں,بیوروکریسی اور تاجروں کے نام ای سی ایل سے نکال دیے ہیں جو موجودہ حکومت کیلئے مسائل پیدا کردے گی سوشل میڈیا پر حکومت کے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے عمران خان جو شہر شہر جلسے جلوس کررہے ہیں اور نئے الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں دوسری طرف حکومت وزراء خواجہ آصف,مفتاح اسماعیل,خواجہ سعد رفیق اور شازیہ مری سمیت رہنماء بھی الیکشن کا اشارہ دے چکے ہیں ملک میں اس وقت ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہے اخلاقیات کا جنازہ نکالا جارہا ہے فوج اور عدلیہ سمیت اہم اداروں کی ٹرولنگ جاری ہے معزز ججز صاحبان کی تضحیک کی جارہی ہے ادارے اداروں کیساتھ نبرد آزما ہیں آئینی عہدوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے اسمبلیاں مچھلی بازار بنی ھوئی ہیں اس وقت ملک میں آئین و قانون کی پامالی سرعام جاری ہے اگر حالات اسی طرح رہے تو ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لاء ناگزیر ھوجائے گا اور اس عدم استحکام کا فائدہ دشمن طاقتیں اٹھائیں گی ملک کے تمام سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے ھوں گے اور سیاست میں ذمہ داری اور شائستگی کو فروغ دینا ھوگا ریاست کے کرتاؤں دھرتاؤں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ھوگا اور ہیجانی کیفیت سے سیاستدانوں اور قوم کو نکالنا ھوگا۔
اس وقت سارے مسئلوں کا ایک ہی حل نظر آرہا ہے اور وہ ہے الیکشن!
ہمیں فی الفور ملک میں فری اینڈ فئیر الیکشن کروانے ھوں گے تاکہ ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ھو اور ملک ترقی کی جانب گامزن ھو۔ الیکشن میں جو بھی جیت کر آئے اسے پورا موقع دیا جانا چاہیئے آخر وقت سے پہلے کیوں انہیں ہٹادیا جاتا ہے اگر وہ کرپٹ غدار ہیں تو ان پر سیاست کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کردینے چاہییں اور انہیں چائینہ اور شمالی کوریا کی طرح نشان عبرت بنانا چاہیئے لیکن اگر ان کو ہٹانے کی وجہ دلی تسکین یا پسند ناپسند ہے تو پھر یہ سلسلہ بند ھونا چاہیئے کیونکہ ایٹمی ملک ہے کوئی پرچون کی ہٹی نہیں کہ جب دل کیا کھولی لی جب دل کیا بند کرلی اب اس سلسلے کو بند ھونا چاہیئے حقیقی جمہوریت ہی اس ملک کیلئے بہتر ہے ملک کسی بھی غیر آئینی اقدام کا متحمل نہیں ھوسکتا لہذا اس ملک کے تمام پالیسی میکرز خصوصاً سیاستدانوں کو اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لانا ھوگی کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں لہذا سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی کو اپناکر ترقی کی اس دوڑ میں تمام ترقی پذیر ممالک سے سبقت لینی ھوگی اور پاکستان کو ترقی پذیر ملک کی صف سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا کرنا ھوگا۔
رب کریم میرے ارض پاک کی حفاظت فرمائے آمین..!!