سیاسی امور میں فوج کا کردار

 
0
848

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

زمانہ امن ہو یاجنگ پاک فوج کاکردار ہمیشہ مثالی رہاہے کچھ سیاسی بونے فوج کو تنقید کا نشانہ بناکر اپنا قد اونچاکرنے کی کوشش میں مصروف ہیں,عوامی جلسے جلوسوں میں گھٹیا زبان استمعال کرکے ناعاقبت اندیش سیاستدان غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس حوالے سے سیاست دانوں کو خبردار کیا کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ پاکستان میں جب بھی کسی بڑے منصوبے پر کام شروع کرنا ہوتا ہے تو حکومت پاک فوج کی مدد ضرور حاصل کرتی ہے۔ چاہے معاملہ ملک میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا ہو یا چین پاکستان اقتصادی راہداری کی سکیورٹی کا، ملک میں کرکٹ کی لیگ کا فائنل منعقد کرانا ہو یا پھر خانہ و مردم شماری، غرض فوج ہر مرض کا علاج ہے۔عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان فوج کو ترکی کی طرح حکومت میں خصوصی کردار ملنا چاہیےترکی کے سیاسی نظام میں فوج کو جو منفرد کردار حاصل ہے وہ فوج کا جمہوری کردار ہےترکی کی سیاست میں فوج کے کردار کا آغاز مصطفےٰ کمال پاشا اور عظمت انونو کے ادوار میں ہوا دونوں رہنماء ترکی کے بلند قامت فوجی رہنماء تھےترکی کی سیاست میں فوج کے جمہوری کردار کی سب سے انوکھی اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 122 کے تحت کابینہ کو صدر مملکت کے زیرقیادت ہونے والے اجلاس میں، نیشنل سیکیورٹی کونسل کی سفارش پر آئینی طور پر ملک میں کلی یا جزوی طور پر چھے ماہ کی مدت کے لیے مارشل لا لگانے کا حق حاصل ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں صدر مملکت، منتخب وزرا اور فوج کے چیف آف سٹاف شامل ہوتے ہیں۔خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک ترکی پر فوج کا کنٹرول ہے۔ آئیں اب پاکستانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔پاکستان میں بھی اب تک چار مارشل لا لگ چکے ہیں اور 13میں سے پانچ صدور فوجی تھےجتنی ترقی آمریت کے دور میں ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی جبکہ اس کے بر عکس جمہور ی دور میں کرپشن اور لاقانونیت بڑھی ہے۔ پاکستان کے سابق فوجی صدر، جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ ملک میں جب بھی مارشل لا لگائے گئے یہ اس وقت کے حالات کا تقاضا تھا، پاکستان میں فوج ملک کو پٹری پر لاتی ہے اور سویلین آ کر پھر اسے پٹری سے اتار دیتے ہیں۔سابق جنرل مشرف نے کہا کہ ’حکومت کو ہٹانے کا اختیار عوام کو ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں حالات مختلف ہیں۔ عوام تب ہوتی ہے جب آئین کے اندر چیکس اینڈ بیلنسز ہوں۔ عوام خود بھاگ کر فوج کے پاس آتی ہے کہ ہماری جان چھڑوائیں۔ لوگ میرے پاس آکر کہتے تھے کہ ہماری جان چھڑوائیں۔۔ میں نے عوام کے مطالبے پر ٹیک اوور کیا تھا۔‘انھوں نے کہا کہ آئین مقدس ہے لیکن آئین سے زیادہ قوم مقدس ہے۔ ’ہم آئین کو بچاتے ہوئے قوم کو ختم نہیں کر سکتےجب سے تحریکِ عدم اعتماد میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، عمران خان کی جانب سے فوجی قیادت کا نام لیے بغیر بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انھیں ’نیوٹرل‘ نہیں ہونا چاہیے اور عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے۔پاک فوج کے خلاف نہ ختم ہونے والا منفی پروپیگنڈہ شروع ہوگیا ہے جس میں فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست واضح اور مختلف حوالوں سے تنقید کی جارہی ہے اور سوشل میڈیا پر سیاسی شخصیات اور تجزیہ نگار غیر مصدقہ، ہتک آمیز اور اشتعال انگیز ریمارکس دے رہے ہیں جو ادارے کیلئے کسی طور مناسب نہیں ترجمان پاک فوج کو اس معاملے پر بولنا پڑا اور گزشتہ دنوں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے یہ اعلان کیا کہ ملک میں جاری سیاسی گفتگو اور مباحثوں میں پاکستان کی مسلح افواج اور اس کی قیادت کو منظم سازش کے تحت دانستہ طور پر گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ملک کے مفاد میں نہیں اور پاک فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار اس سے قبل بھی صاف الفاظ میں یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ پاک فوج کا حالیہ سیاسی بحران سے کوئی تعلق نہیں اور وہ نیوٹرل ہے مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی کے سربراہ اور سینئر لیڈرشپ عوامی جلسوں میں لوگوں کو گمراہ کررہی ہے کہ فوج پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کی ذمہ دار ہے اور اسے نیوٹرل نہیں ہونا چاہئے تھاپی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بھی پاک فوج کے سربراہ کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف عمل ہے اور اس طرح جو کام ہمیشہ سے ہمارا دشمن سرحد پار بیٹھ کر کرتا آیا ہے ایسی صورتحال سے دشمن ملک بھارتی میڈیا عمران خان کے فوج مخالف بیانات کو مرچ مسالہ لگاکر پیش کررہا ہے اور دشمن ملک کی ایجنسیوں کے لوگ بھی فائدہ اٹھارہے ہیں اور مختلف چینلز پر پاک فوج کے خلاف تجزیے پیش کررہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایف آئی اے اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں نے پاک فوج کے سربراہ اور ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلانے کے الزام میں پی ٹی آئی کے درجنوں افراد کو گرفتار کیا تھا جو ایک منظم مہم کے تحت پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف تھے اور عوام میں یہ تاثر پیدا کررہے تھے کہ پاک فوج کی لیڈرشپ تقسیم ہے یہ بات خوش آئند ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ اعلان کرکے تمام سازشوں کا خاتمہ کردیا ہے کہ پاک فوج کی قیادت میں کوئی دراڑ نہیں اور آرمی چیف اور تمام جنرلز دشمن کے خلاف متحد ہیں جو اپنے سربراہ کے آرڈر پر عمل کرنا اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما، خصوصاً مریم نواز، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر سیاست میں مداخلت اور عمران خان کی حکومت کی حمایت کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ یہ الزام انھوں نے گذشتہ ہفتے بھی اپنے ایک جلسے کے دوران دہرایا تھا۔خیال رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس وقت الیون کور کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، جبکہ اس سے پہلے وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر تعینات تھے۔ آئی ایس آئی میں اپنی تعیناتی کے دو ادوار کے دوران ان کا نام موضوع بحث رہا اور انھیں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے ایک متنازع شخصیت سمجھا جاتا رہا۔وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قریب سمجھے جاتے تھے اور ان کے آئی ایس آئی سے تبادلے کے موقع پر عمران خان نے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار کیا تھا۔ یہ جی ایچ کیو اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان عمران خان کے دور حکومت کا وہ پہلا تنازع ثابت ہوا جو عوامی سطح پر زیر بحث آیا.فوج گذشتہ دو ماہ کے دوران پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کے دوران متعدد بار یہ کہہ چکی ہے کہ مسلح افواج کو سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹا جائے۔فوجی حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت فوج کے خلاف چلنے والی مہم روکنے میں ناکام ہوئی ہے۔ فوج عوامی، سیاسی پلیٹ فارمز، پارلیمان اور میڈیا میں اپنا دفاع خود نہیں کر سکتی کیونکہ اس ادارے کا اپنا ایک تقدس ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخارکا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اس بات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا سرچشمہ ہے، افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کی کردار کشی کسی طور قبول نہیں، فوج کی تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے،عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ منفی مہم میں صرف فوج نہیں سب زد میں آرہے ہیں، آرمی چیف ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور یہ ادارہ حکومت کے ماتحت ہے اگر سیاسی تقاریر میں آرمی چیف کا نام لیا گیا ہے تو یہ پوچھنا کس کا کام ہے؟میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پراپیگنڈے کے ذریعے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے، ڈس انفارمیشن سے فوج کو نشانہ بنایا جارہا ہے، پراپیگنڈ ے سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، عوام کی حمایت فو ج کے لیے ضروری ہے، آرمی چیف جس طرف دیکھتے ہیں 7 لاکھ افواج اسی جانب دیکھتی ہیں، فوج اتحاد کے تحت کام کرتی ہے، فو ج کے خلاف منفی مہم کا حصہ نہ بنا جائے۔واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ ن کو وفاقی حکومت کی کمان سنبھالنے کو ملی ہے۔ ایسے وقت میں جب ملکی معیشت انتہائی کمزور حالت میں کھڑی ہے، نو جماعتوں کی حکومت میں ہر کسی کی اپنی رائے اور ترجیحات ہیں اور تمام اتحادیوں کو خوش رکھتے ہوئے ملکی حالات میں بہتری کے لیے سخت فیصلے لینا مشکل امر ہے۔تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مقاصدکیلئے فوج کے خلاف توہین آمیز پراپیگنڈہ فوری بند کیا جائے اور اس سلسلے میں زمہ داروں کو قانون کےتحت ایکشن لیناہوگا۔۔۔۔۔