راحت کا حصول 

 
0
828

عاصمہ فضیلت


ہر شخص خوشگوار زندگی کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ ہر ممکنہ خوشی کو حاصل کرنے کی جستجو میں رہتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں لاکھ کوششوں کے باوجود انسان مکمل خوشی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ، کیونکہ اس کا دوسرا پہلو مسائل اور غم ہیں، جو انسان کو احساس دلاتے ہیں کہ زندگی میں بہتر حکمت عملی کرنا ضروری ہے اور کسی طرح زندگی کے غموں کو خوشیوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اکثر لوک دولت کما کریا اپنے کسی خاص مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کو خوشی تصور کرتے ہیں۔ وہ سمھجتے ہیں کہ ٹرکٹس کو حاصل کرنا ہی اصل خوشی اور بہترین حکمت عملی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کسی بھی ایک خاص مقصد کو حاصل کرنے کے بعد خوشی زیادہ وقت تک نہیں رہتی کیوں کہ انسان کی عادت ہے، وہ ایک چیز حاصل کرنے کے بعد دوسری چیز کے پیچھے بھگنے لگتا ہے۔ اسطرح ناختم ہونے والا سسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال آج کل کی نوجوان نسل ہے ۔ جب پڑھائی کر رہے ہوتے ہیں تب اچھی جاب کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب اپنا کیریئر بنا لیتے ہیں اور گاڑی کی بھی خواہش پوری ہو جاتی ہے تو ان کی خواہشات بڑھ جاتی ہیں، انہیں لگتا ہے ابھی تک تو ان نے کچھ حاصل نہیں کیا ۔ انہیں اپنی زندگی پہلے سے بدتر لگنے لگتی ہے ۔انسان کبھی بھی خوش نہیں رہتا، جیسے ہی ایک مقصد پورا ہو گا ، ایک نیا ہدف سامنے آجاے گا ، اور آپ کامیابی حاصل کر کے بھی اتنی خوشی محسوس نہیں کریں گے۔
انسان دولت کا پچاری ہے، سائیکل سے موٹر سائیکل ، موٹر سائیکل سے گاڑی، گاڑی سے پنجارو کی خواہش اسے ہر وقت بے چین کئے رکھتی ہے ۔ ہماری خواہشوں کا تعلق ہماری ضروتوں سے ہوتا ہے۔ جوں جوں ضرورتیں بڑھتی ہیں خواہشات بھی بڑھنے لگتی ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ ہر خواہش ایسی کہ، ہر خواہش پے دم نکلے ) زیادہ کی خواہش بری نہیں، لیکن ایسی دولت کا کیا فائدہ جس کے حصول کے لئے انسان نہ تو آرام سے کھانا کھا سکے ، نہ خوشگوار موسم میں چائے کا کپ انجوائے کر سکے اور نہ ہی اپنے خوبصورت رشتوں کووقت دے سکے۔ ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بجائے خواہشوں کے پیچھے بھاگیں۔ کیونکہ ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں، لیکن خواہشات کبھی پوری نہیں ہوتی۔ اکثر خواہشات کے
حصول کا جنون ہم سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھین لیتا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا۔ یہ تو وہ باتیں یا کوشیشیں ہیں جو ہم راحت کے حصول کے لئیے کرتے ہیں۔ لیکن راحت یا خوشی ہے کیا ؟
راحت کا تعلق کیسی مادی چیز سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں اطمینان سکون، فرحت ومسرت کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔ یہ انسان کے اندر سے پھوٹنے والے ایک احساس کا نام ہے۔ یہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ایک انسان وہ چیز پا لیتا ہے جس کی اسے خواہش ہوتی ہے ، یا پھر حالات و واقعات اس کی خواہش کے مطابق ہوں۔ خوش ہونے اور اس کے اظہار کا انداز ہر انسان کا مختلف ہوتا ہے ۔ بعض لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بنیاد بنا کر خوش ہو جاتے ہیں ۔ جیسے کچھ لوگ سیروتفریح کر کے خوشی محسو س کرتے ہیں ، تو کوئی امتیحان میں کامیابی حا صل کر کے جھوم اٹھتا ہے ، ایسے ہی کوئی دوست کی مدد کر کے خوش ہے ۔ مزدور کو اگر اپنی مزدوری سے کچھ زیادہ پیسے مل جائیں تواس کی کیفیت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے ۔ بیٹا جب پہلی تنخواہ لا کر ماں کے ہاتھ پے رکھتا ہے تب اس ماں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے ۔ جب کیسی بھوکے کو اچانک اچھا کھانا ملتا ہے اس کی حالت بھی قابل دید ہوتی ہے ۔یہ وہ کیفیت ہے جس کا اظہار ہر انسان مختلف موقعوں پر مختلف انداز میں کرتا ہے۔یہ تمام خوشیاں اور ان کے اظہار تو وقتی ہیں ، جو ایک وقت کے لئیے محسوس ہوتی ہے اور ختم ہو جاتی ہیں ۔ ابدی راحت کیا ہے ہو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے ۔
اگر انسان دولت پانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے باوجود بھی اصل خوشی حاصل نہیں کر سکتا تو پھر خوشی کا حصول کیسے ممکن ہے ۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر اس انسان کا ہو سکتا ہے جو ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد بھی اپنی زندگی میں مسرت اور سکون نہیں محسوس کرتا۔ اس سوال کا جواب بڑا سادہ سا ہے، لیکن ہر کوئی اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اصل خوشی ہے کیسی دوسرے کو سکون مہیا کرنا۔ کیسی کے کام آنا ،خدا کے دیئے ہوے سے دوسروں کی مدد کرنا ۔ اسی اصول کو اپناتے ہوئے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس(مایئکروسافٹ کے بانی ) اور زرگ برگ ( فیس بک کے بانی) نے اپنا سب کچھ لوگوں میں بانٹنا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ جو خوشی بانٹنے میں ہے وہ بنانے میں نہیں ۔ ہمارے ملک میں بھی ایک ایسا طبقہ پایا جاتا ہے جو اپنی کمائی کا بیشتر حصہ لوگوں کی فلاح وبہبود پرخرج کرتا ہے۔ جیسے کہ ایک مخصوص طبقہ کی خوراک، تعلیم ، اور صحت پر خرج کرنا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن نے اس راز کو سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ جن نے خدا کے دیئے ہوئے سے خدا سے کاروبار شروع کیا ہے۔ اللہ تعالی تو وہ ہستی ہے جو کبھی کیسی کا رائی برابر بھی حساب نہیں
رکھتا ، نہ ہی کیسی کی ذرے کے برابر نیکی ضائع کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے وہ اس شخص کو سکون اور خوشی نہ مہیا کرے، جس نے اس کے بندوں کو تب راحت میسر کی جب وہ بے یارومدد گار تھے ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں ( تم میرے بندوں کی مدد کرو ، میں تمہاری مدد کروں گا) تو کیسے ممکن ہے وہ خوشیاں بانٹنے ولے کو خوشیوں سے محروم رکھے۔ اصل خوشی وہ ہے جو ہم کیسی دوسرے کو مہیا کرتے ہیں، اور اللہ تعالی اس کے بدلے ہمیں دلی راحت اور سکون عطا فرماتا ہے۔ جب تک ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آے گی ہم دولت تو بناتے جائیں گے لیکن خوشیوں سے دور ہوتے جائیں گے ۔آپ اس وقت تک خوش رہتے ہیں جب تک اپنی زندگی کا موازنہ کیسی دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے ، خوشی کیسی شے کی محتاج نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ لوگ جن کے پاس دنیا جہاں کی دولت ہے وہ کبھی نا خوش نہ ہوتے۔ اس لئے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشی تلاش کرنی کی کوشش کریں ۔ جتنا ممکن ہو دوسروں کے کا م آنے کی کوشش کرنی چایئے تاکہ ہم دلی سکون اور راحت حاصل کر سکیں ۔