ہفتہ تخفیف اسلحہ اورتیسری عالمی ایٹمی جنگ کے بڑھتے خطرات

 
0
10229

تحریر: آصف خورشید رانا

برٹنڈ رسل ایک برطانوی نژاد فلسفی، منطق داناو اور ادیب کے طور پر جانا جاتا ہے ، انھیں ایک لبرل یا آزاد خیال اور سوشلسٹ بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ ہمیشہ یہ کہہ کر اس کی تردید کرتے رہے کہ وہ ان میں سے کسی کی معیار پر بھی خود کو پورا نہیں پاتے۔جنگ کی مخالفت کرنے والوں میں برٹنڈ رسل کا نام سرفہرست شمار کیا جاتا ہے ۔ رسل نے ہمیشہ جنگ کی مخالفت کی اور اسے انسانیت کی تباہی قرار دیا ۔جنگ کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ 1918میں انہیں پہلی عالمی جنگ کی مخالفت کرنے اور اس کے خلاف تحریریں رکھنے پر جیل بھیج دیا گیا۔ ویت نام کی جنگ میں انھوں نے امریکہ کی شدید مخالفت کی، ایٹمی اسلحے کی مخالفت میں بھی سب سے آگے رہنے والوں میں شامل تھے۔ 1961میں انہیں ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف احتجاج کرنے پر پھر سے پانچ ہفتوں کے لیے جیل جانا پڑا ۔1950 میں امن کا نوبل انعام پیش کیا گیا۔ان کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’اگر پچاس لاکھ لوگ ایک جھوٹ کو سچ کہیں، تب بھی وہ جھوٹ ہی رہے گا‘‘۔جنگ کے حوالے سے ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’جنگ اس بات کا تعین نہیں کرتی کہ حق پر کون ہے بلکہ وہی باقی ہوتا ہے جو بچ جاتاہے‘‘۔

تخفیف اسلحہ منانے کا ہفتہ ابھی ختم ہی ہوا تھا کہ شمالی کوریا میں ایٹمی تجربہ کرنے والی جگہ پر سرنگ بیٹھنے سے 2سو سے زائد افراد کی ہلاکت کی خبر آ گئی ۔اس حادثے سے تابکاری اثرات پھیلنے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہاہے ۔یہ وہی جگہ تھی جس مقام پر شمالی کوریا نے 10اکتوبر کا اپنا چھٹا جوہری تجربہ کیا تھا اور امریکہ و دیگر حریف ممالک نے اس تجربے کو دنیا کے کے خطرناک قرار دیا تھا۔ اکتوبر کے مہینے میں دنیا بھر میں تخفیف اسلحہ کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔ اس ہفتے کا مقصد دنیا کی توجہ دلانا مقصود تھا کہ دنیا میں انسانیت کی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور جنگ کے لیے انسان کو اکسانے والے ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرنے کی بجائے انسانیت کو درپیش چیلنجز پر خرچ کیا جائے تاکہ دنیا میں امن وسکون کا بول بالا ہو سکے۔ ہفتہ تخفیف اسلحہ منائے جانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو اسلحے کی پیداوار کو روکا جاسکا اور نہ ہی اس کی خرید و فروخت کو روکنے کے حوالے سے کوئی اقدامات کئے جاسکے۔اس کی بڑی وجہ عالمی طاقتوں کا ردعمل ہے جو ایک دوسرے کے خلاف روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایٹمی وارہیڈز پر بھی بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی منظر نامے پر ابھرنے والی دو طاقتوں امریکہ اور روس نے ایٹمی ہتھیاروں کی پیدوار پر خصوصی توجہ دی ۔ مختلف اوقات میں ان دونوں ممالک نے اگرچہ ایک دوسرے کے ساتھ تخفیف اسلحہ اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کئی معاہدے بھی کیے تاہم اس کے باوجود ان ممالک کے بڑے ادارے اسلحہ کی پیداوار اور تجارت میں مصروف رہے ۔ روس اور امریکہ کے درمیان کئی معاہدے ہونے کے باوجود دنیا بھر کے ایٹمی اسلحہ کے 90فیصد ذخائر ان کے پاس ہیں جبکہ باقی ممالک کو فروخت کرنے والوں میں بھی یہی ممالک سرفہرست ہیں۔یہ ممالک اپنے وار ہیڈز میں کمی کا اعلان اس وقت کرتی ہیں جب انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ وارہیڈز یا تو ناکارہ ہو چکے ہیں یا ان کی معیاد پوری ہونے کے بعد ان کی جگہ جدید وارہیڈز بنانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ان کی وجہ سے دیگر عالمی طاقتوں نے بھی اپنے اپنے ہتھیاروں کو جدیدیت کے سانچے میں ڈھالنا شروع کر دیا ہے ۔

گزشتہ 4 برسوں کے دوران عالمی سطح پر 57ممالک نے 155 ممالک کو اسلحہ فروخت کیا اور فروخت کرنے والے ممالک میں امریکا بدستور سرفہرست ہے جبکہ دوسری جانب خریداروں کی فہرست میں بھی بھارت پہلے نمبر پر ہی ہے۔مقامی اخبار کے انوسٹی گیشن سیل نے مختلف ذرائع سے جو اعداد و شمار حاصل کئے ہیں اس کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران 75 فیصد اسلحہ صرف 5ممالک امریکہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی نے فروخت کیا جن میں 35 فیصد حصہ امریکا کا رہا جبکہ 23 فیصد روس، 6.2 فیصد چین، 6 فیصد فرانس اور 5.2 فیصد حصہ جرمنی کا رہا۔سویڈش ادارے سپری کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 155 اسلحہ کے خریدار ممالک میں بھارت بدستور سرفہرست ہے جبکہ سعودی عرب دوسرے، متحدہ عرب امارات تیسرے، چین چوتھے اور الجیریا 5ویں نمبر پر رہا جبکہ خریداری کی فہرست میں پاکستان 9 ویں نمبر پر رہا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت نے مذکورہ عرصے کے دوران 68 فیصد اسلحہ روس سے‘ 14 فیصد امریکا اور 7.2 فیصد اسرائیل سے خریدا جبکہ سعودی عرب نے 52 فیصد اسلحہ امریکہ سے، 27 فیصد برطانیہ اور 4.2 فیصد اسپین سے خریدا۔ پاکستان نے 68 فیصد اسلحہ چین، 16 فیصد امریکا اور 3.8فیصد اٹلی سے خریدا۔بنگلہ دیش جواسلحہ کی خریداری میں 18 ویں نمبر پر ہے نے 33 فیصد اسلحہ چین سے، 13فیصد امریکا اور 5.2 فیصد برطانیہ سے خریدا۔ ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر دفاعی اخراجات بدستور بڑھتے جارہے ہیں اور دنیا کے دفاعی اخراجات ایک کھرب 686ارب ڈالر تک تجاوز کرگئے جس کا سب سے بڑا حصہ 611 ارب ڈالر امریکا کا ہے جبکہ 215.7 ارب ڈالر کے ساتھ چین دوسرے، 69.2 ارب ڈالر کے ساتھ روس تیسرے، 63.7 ارب ڈالر کے ساتھ سعودی عرب چوتھے اور 55.9 ارب ڈالر کے ساتھ بھارت پانچویں نمبر پر ہے جبکہ 9 ارب ڈالر کے ساتھ پاکستان عالمی دفاعی اخراجات کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر ہے۔اس فہرست میں فرانس چھٹے، برطانیہ 7 ویں، جاپان 8ویں، جرمنی 9ویں اورجنوبی کوریا دسویں نمبر پر ہے۔ امریکہ جو ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ بھی دنیا کا سرفہرست ملک ہے اسلحہ سازی میں بھی کسی حوالے سے کم نہیں جس کا اندازہ اس امر سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی 10ڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے 7 کا تعلق امریکا سے ہے جبکہ ایک کا برطانیہ، ایک کا اٹلی اور ایک یورپی یونین سے ہے۔

اس رپورٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلحہ کی دوڑ میں کون سا ملک کہاں کھڑا ہے ۔ دنیا کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں بھوک ، ناخواندگی ،طبی سہولیات کی عدم دستیابی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور ان سب سے بڑھ کر مختلف ممالک میں جنگوں کی وجہ سے مہاجرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونا ہے ۔ ان حالات میں محض تخفیف اسلحہ کے دن منا نے پر اکتفا کرنا مسئلہ کا حل نہیں۔ اس وقت تیسری عالمی جنگ کا خطرہ موجود ہے یہ عالمی جنگ شام میں بھی ہو سکتی ہے اور اس کا آغاز جنوبی ایشیا سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس مرتبہ یہ عالمی جنگ عام روایتی ہتھیاروں کی بجائے ایٹمی ہتھیاروں کی بھی ہو سکتی ہے ۔شام میں اس وقت عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں دوسری طرف ایشیا پیسفک میں امریکہ جاپان اور جنوبی کوریا کے مدمقابل شمالی کوریا کھڑا ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی حمایت کے ساتھ بھارت کھڑا ہے اور پاکستان کے ساتھ چین موجود ہے ۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی ملک ہیں اور اس وقت جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں ۔اس حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کو بارہا ایٹمی جنگ میں پہل نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش کی ہے لیکن مودی سرکار کی پشت پر کھڑی انتہاپسند ہندو قوتوں نے بھارت کو جکڑ رکھا ہے اور وہ کوئی ایسا معاہدہ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔ اس لحاظ سے عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ تخفیف اسلحہ کے معاہدوں پر عملدرآمد کروانا ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر دنیا میں تیسری عالمی ایٹمی جنگ کو روکنا ناممکن ہو جائے گا ۔ اس کے ساتھ ہی لیگ آف نیشن کی طرح شاید اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اپنا وجود کھو دے گا۔