آئی جی صاحب! آپ کا ڈی پی او اٹک اور کرپشن و ناانصافی

 
0
470

اٹک خورد چیک پوسٹ پر کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہے خیبرپختونخواہ سے پنجاب اور اسلام آباد کیلئے آنے والے سادہ لوح شہریوں سے پیسے وصول کیے جارہے ہیں ۔ اگر انکار کریں تو تھانہ میں بند کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر کے پی سے پنجاب سفر کرنے والے تو اب عادی ہو چکے ہیں۔ پولیس کی “منشا” کو سمجھنے والے اکثر گاڑی سائیڈ پر روکتے ہیں نیچے اُتر کر پولیس افسرکو سلام کرتے ہیں اور ”نذرانہ عقیدت ”تھما کر چلے جاتے ہیں ایسے کرنے والے تمام” عقیدت مند”تلاشی جیسی زحمت سے مستثنیٰ ہوجاتے ہیں ۔باقی مسافروں سے “چَھٹے” ہوئے پولیس اہلکار اپنے روایتی طریقے سے ‘نذرانہ ‘وصول کرلیتے ہیں اور یہ سلسلہ صبح صادق سے لیکر اگلی صبح صادق تک بغیر کسی تعطل کے جاری و ساری رہتا ہے ۔24گھنٹے کے دوران “مستفید” ہو جانے والے پولیس اہلکار “نذرانہ بَروزنِ جبرانہ” مہتم تھانہ کے سپرد اور اپنی مزدوری پسینہ صاف کرنے سے پہلے وصول کر کے تھانہ ہذا میں ایک بار پھر اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔
مورخہ18مئی بروز منگل کو Swat Today کے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں تھانہ اٹک خوردکی چیک پوسٹ پر ایک پولیس اہلکار گاڑی والوں سے رشوت وصول کر رہا ہے ۔ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس کا مجبوراً ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اٹک خالد محمود نے نوٹس لیتے ہوئے اٹک خورد چیک پوسٹ پر تعینات متعلقہ اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کر کے انکواری کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔جس کی خبر ڈی پی او کے فیس بک پیج Attock Police پر بھی شیئر کی گئی۔چونکہ اس واقعہ کی ویڈیو بن گئی جو وائرل بھی ہو گئی تو خانہ پوری کیلئے نوٹس لے لیا گیا۔ایک دن میں ایسے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اٹک خورد چیک پوسٹ پر اس طرح کے مسائل کا شکارہوتے ہیں جو “اٹک پولیس” کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ویڈیو نہیں بنا سکتے ۔ان کی داد رسی کون کرے گا۔؟
یہی قوم کی بدقسمتی ہے نا! کہ پیادے مارے گئے ( حالانکہ مارے وہ بھی نہیں گئے یہ صرف ٹوپی ڈرامہ کر کے عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا کیونکہ اعلی عدلیہ کے مطابق معطلی سرے سے کوئی سزا ہی نہیں) اور جو جگا ٹیکس وصول کر رہا تھا وہ وزیر (SHO)محفوظ ہے اور جس شاہ کے پاس کولیکشن پہنچ رہی تھی اس کے عوام کو بیوقوف بنانے والے فیصلے پر اس کی “”واہ واہ واہ”” ہو رہی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے نشہ کرنے والے یا چھوٹی موٹی چرس کی پڑیاں بیچنے والے پکڑے جاتے ہیں خانہ پری کے لیے۔۔ اور بڑے مگرمچھ اور سمگلر انجوائے کرتے رہتے ہیں۔ اٹک جیل میں اس وقت 9C اور ناجائز اسلحہ کے تقریبا چھ سو سے زائد قیدی ہیں۔۔ پھر بھی اٹک خورد اور حضرو کے علاقے میں دھڑلے سے نشہ اور اسلحہ بکتا ہے تھانہ اٹک خورد، تھانہ فتح جنگ اور تھانہ حضرو کے SHOs ہمیشہ DPO کے منظور نظر لگائے جاتے ہیں۔۔ باقی آپ سمجھدار ہیں؟؟؟ رہی بات اٹک پولیس کی کارکردگی کی تو تھانہ فتح جنگ میں SHO اور دیگر پولیس اہلکاروں کے تشدد سے ملزم کی ہلاکت سے ثابت ہو گیا ہے کہ ضلع اٹک کے تھانوں میں عقوبت خانے قائم ہیں ۔۔ تھانہ فتح جنگ میں تو ملزم کی ہلاکت سے بات منظر عام پر آ گئی جو ملزم تشدد سے مرتے نہیں یا تشدد کے اثر سے گھر جا کر مَر جاتے ہیں وہ تشدد تو منظر عام پر نہیں آتا نا؟ اور اس پر بھی مقتول ملزم کو ڈاکو بنانے کی کوشش کی گئی DPO خود کوشش کرتا رہا کہ میڈیکل رپورٹ میں ڈاکٹر کوئی فیور کر دے لیکن ممکن نہ ہو سکا۔۔۔
جناب آئی جی صاحب! “”ضلع کے تھانوں میں تشدد روکنا کس کی ڈیوٹی ہے صرف پروٹوکول اور “”ہٹو بچو!”” کے ہُوٹر اور تڑک تڑک سیلیوٹ لینا ہی کام نہیں DPO صاحب کا؟””تنخواہ حلال کرنا بھی اک فرض ہے۔۔ غریب کا بچہ مر گیا ہے اگر خدانخواستہ آپ کا بچہ یا بھائی یا بھتیجا بھانجا ایسے جان لیوا پولیس تشدد سے مر جاتا؟؟ ڈی پی او کی مرضی کے بغیر پولیس اہلکاروں کی جُرآت نہیں کہ تھانوں میں تشدد کر سکیں؟؟؟ آنکھیں بند کرنے یا اپنے جُرم کا بسجھ چھوٹے اہلکاروں پر ڈالنے سے آپ کی اور DPO کی غیر ذمہ داری کا گناہ اور جرم نہیں مِٹ سکتا؟
چیلنج ہے کہ اگر ایک سال میں درج 9C کے مقدمات کی منشیات برآمدگی ایک جگہ اکٹھی کی جائے تو مقدار آدھی سے زیادہ غائب پائی جائے گی۔۔؟ تھانوں میں کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائکلوں سے پرزے کون نکال کر لے جاتا ہے؟؟ ظاہر ہے پولیس ملازم ہی نکالتے ہیں نا؟ تو چور اور پولیس میں کہاں فرق رہ گیا؟ اعلی معیار کی شراب پولیس کے اہلکار اور افسران پی جاتے ہیں اور لوکل شراب یا پانی مکس کر کے مقدار برابر کر دیتے ہیں۔ اسلحہ اگر اعلی معیار کا پکڑا جائے تو پکڑنے والا ہی غائب کر کے دو نمبر اسلحہ جہانگیرہ اور نوشہرہ سے خرید کر رکھ دیتا ہے۔۔ یا پھر ضلعی افسر وہ اعلی اسلحہ اپنی PR کے لیے اِدھر ادھر کر دیتے ہیں۔
تھانہ اٹک خورد کی چیک پوسٹ پر اہلکاروں کی معطلی کا ڈرامہ عوام کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے ۔رشوت اور کرپشن کے الزام میں صرف معطل کرنا سرے سے کوئی سزا ہی نہیں ہے نہ اس سے تنخواہ رکتی ہے اور نہ ہی ترقی پر کوئی اثر پڑتا ہے اور دوسری بات یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا جب تک DPO کا منظور نظر عابد شاہ جیسا کرپٹ، متعصب اور جانبدار SHO وہاں تعینات رہے گا۔ یہ کرپشن کی شکایت نہیں تھی باقاعدہ ویڈیو بن گئی تھی جس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا ورنہ یہ سلسلہ ایک عرصے سے چل رہا ہے کیا ڈی پی او کو نہیں پتہ؟؟
حد ہے جس ڈی پی او کو اس چیک پوسٹ کی آمدنی کا علم نہیں اسے باقی ضلع کا خاک پتہ ہوگا۔ ؟
11 مئی کو شعیب نے 8787 پر کاشف نامی کانسٹیبل کے خلاف یہی شکایت درج کروائی تھی کہ وہ پکٹ پر ہر گاڑی سے وصولی کر رہے ہیں حتی کہ مقامی لوگوں کی گاڑیوں سے بھی عیدی مانگ رہے ہیں لیکن ڈی ایس پی ضیغم عباس صاحب اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور سائل کو بار بار پیش ہونے کی سزا دی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ تھانہ اٹک خورد کے SHO کے ایک کار خاص آصف کانسٹیبل کے خلاف بھی ایک ریسٹورینٹ کے مالک نے تشدد کی درخواست دے رکھی ہے جس پر بھی ڈی ایس پی حضرو سرکل نے کوئی داد رسی نہ کی بلکہ درخواست گزاروں کو پیشی پر پیشی کی سزا دی جا رہی ہے
عجیب بات ہے کہ پولیس والے جس انداز میں عید اور خوشی کے تہواروں پر جس طرح “عیدی” مانگتے ہیں اس سے ایک سرکاری ملازم اور بھکاری میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ بھکاری صرف مانگتا ہے جبکہ پولیس والے سرکاری وردی کی آڑ میں بھکاریوں والا ہی کام پوری دھونس دھاندلی سے کرتے ہیں اور بدقسمتی یہ کہ اس ساری واردات کا SHO سے لیکر DPO تک سب کو علم ہوتا ہے ۔ترقی کے عمل پر فرق نہ پڑنے کی بات پر میرا موقف یہ اس لیے بھی ہے کہ 7 مارچ 2020 کو سٹی تھانہ اٹک کے جس عادل خان ASI نے اختیارات سے تجاوز اور پولیس وردی کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سائل کو غلط حراست میں رکھا اور انکوائری میں یہ ثابت بھی ہوگیا تو اسے معطل کیا گیا لیکن سال کے اندر اندر اسے انعام کے طور پر سب انسپکٹر پروموٹ کر دیا گیا اور جو پریس ریلیز 13 مارچ 2020 کو DPO کے پیج پر عادل خان کی معطلی بارے جاری کی گئی تھی اسے Hide یا Delete کر دیا گیا ہے۔ عادل خان ASI نے جس سجاد ASI کے کہنے پر اختیارات سے ناجائز تجاوز کیا تھا اسے تھانہ گوندل چوکی کا انچارج لگا دیا گیا تھا اور آج سوا سال گزرنے کے باوجود سائل کا پرس (جس میں تقریبا سوا دو لاکھ رقم اور ضروری کاغذات تھے) بھی ریکور بھی نہ کیا گیا ہے اس لیے عوام کو بیوقوف بنانے والا “ معطلی ایکشن” ناقابل قبول ہے اور قطعا بھی قابل ستائش نہیں۔ حالانکہ شہریوں کو ناجائز تنگ کرنے والے، تذلیل کرنے والے اور بلاوجہ حراست میں رکھنے والے اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کرنے کا قانون میں حکم موجود ہے اور سپریم کورٹ کے حکم بھی اس بارے موجود ہیں۔
تھانہ اٹک خورد پکٹ پر بھتہ اور تقسیم کا نیٹ ورکSHO سے لیکر DPO تک حصہ بقدرِ جثہ جاری و ساری ہے ۔سارے صوبے اور ساری قومیں پشتون، سندھی اور بلوچی پنجاب کے خلاف کیوں ہیں؟ کیونکہ جیسے ہی وہ پنجاب میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں اٹک خورد پولیس جیسا رویہ ہی ملتا ہے ہر ناکے پر پنجاب پولیس کا رویہ اٹک خورد تھانہ کی پکٹ جیسے رویے کا منظر ہی پیش کرتا ہے ڈی ایس پی، ایس پی اور ڈی پی او تک SHOs کتنا حصہ پہنچاتے ہیں ؟؟ کہ انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ DPO کی مرضی کے بغیر ہر گاڑی سے وصولی کی جاتی ہو؟۔
اگرپولیس کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو ایسے تمام عناصر کو معطل کرنے کی بجائے نہ صرف نوکری سے نکالا جائے بلکہ ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تا کہ یہ لوگ دوسرے تمام پولیس اہلکاروں کیلئے نشان عبرت بن جائیں اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا کہ آپ پولیس میں کرپشن اور رشوت خوری جیسے ناسور سے نمٹ سکیں۔