“سرخ آندھیاں اب کیوں نہیں چلتیں”

 
0
379

تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214

تھوڑی دیر میں ہیڈ لائن لگنے والی تھیں لہذا میں نے چائے کا کپ اٹھایا اور ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھ گیا ویسے اب یہ معمول سا بن گیا ہے کہ جب تک ٹی وی نہ دیکھیں سکون ہی نہیں ملتا اس اثناء میں خبریں لگ گئیں ہیڈ لائن کے درمیان میں ہی نیوز کاسٹر نے غالباً سرگودھا میں ایک قتل کے متعلق بتانا شروع کیا کہ خاندانی دشمنی کی وجہ سے رشتہ داروں کی فائرنگ سے کچہری آئے دو افراد جاں بحق ھوگئے وڈیو میں واضح طور پر ایک شخص کو گاڑی پر فائرنگ کرتے ھوئے دکھایا گیا۔
خبریں سن کر موبائل اٹھایا اچانک سوشل میڈیا پر ایک وڈیو نظروں سے گزری کہ داماد نے فائرنگ کرکے ساس اور بیوی کو قتل کردیا اور موقع سے فرار ھوگیا پھر اسی سوشل میڈیا پر ایک اور وڈیو جوکہ ساہیوال کی تھی جس میں ایک غریب مزدور کو زمیندار نے اس وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس غریب نے زمیندار کو اپنی بیٹی کو چھیڑنے سے روکا تھا اس شخص کی تذلیل کی گئی اسکی گردن میں کتے کا پٹہ ڈال کر کتے کے ہی برتن میں دودھ پلایا گیا اسے گھسیٹا گیا بظاہر ایسی خبریں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں اور شاید اب ہم بھی ایسی خبروں کے عادی ھوچکے ہیں تبھی ہم اس بات کی پرواہ ہی نہیں کرتے کہ کون مر رہا ہے اور کون جی رہا ہے ھمیں تو بس اپنی فکر ہے کہ ہمارا پیٹ بھرا ھونا چاہیئے ھمارے گھر میں سکھ اور خوشی ھو چاہے کوئی مرے یا جیئے ھمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔
یہ ادب اور کتابوں کی آخری صدی ہے اور شاید ہم آخری نسل ہیں
اس کے بعد کوئی کتابوں کو پوچھے گا نہ ہی کوئی کسی کا ادب کرے گا (ﷲ کرے ایسا کبھی نہ ھو) یعنی لوگ ایکدوسرے کا احترام تھے اکثر جب ھم کالج جاتے تو گاڑی میں دیکھتے کہ کوئی ھم سے بڑا شخص کھڑا تو نہیں ہے اور اگر وہ کھڑا ھوتا تو اسے سیٹ دے دیتے لیکن اب ایسا نہیں ہے موجودہ دور کی نسل اب کسی کا لحاظ نہیں کرتی مرد تو مرد خواتین بیچاری کھڑی ھوتی ہیں اور کوئی سیٹ دینے کو تیار نہیں ھوتا اسی طرح پہلے پہلے ایک ایک سبحیکٹ کی تین تین بکس ھوتی تھیں ھمارے ٹیچرز ھمیں کہتے کہ فلاں بک سے تیاری کرنی ہے تو ھم لے آتے آج کے اسٹوڈنٹس یوٹیوب سے ہی مواد لے لیتے ہیں بلکہ 70 فیصد تیاری یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا ذرائع سے کی جاتی ہے اب ھمارے پاس کتاب پڑھنا تو دور اس کو کھولنے کا ہی ٹائم نہیں ہے۔ پتہ ہے پہلے اگر کوئی ناحق قتل ھوتا تھا یا کسی پر ظلم ھوتا تھا تو سرخ آندھیاں چلتی تھیں جب بھی سرخ آندھی آتی اور آسمان کا رنگ سرخ ھوتا تو ھمارے والدین بتاتے کہ آج پھر کوئی ناحق قتل ھوا ھوگا یا کسی پر ظلم ھوا ھوگا تبھی آسمان سرخ ھوگیا ہے اور سرخ آندھی آرہی ہے اسکے بعد موسلا دھار بارش ھوتی تو بزرگ کہتے کہ اس ناحق خون پر آسمان بھی رو رہا ہے۔ اب ایسا کیوں نہیں ھوتا اب سرخ آندھیاں کیوں نہیں چلتیں آخر کیا وجہ ہے؟
بالکل واضح ہے کہ پہلے کبھی کبھار ایسا ھوتا تھا کہ کسی پر ظلم ھو یا کوئی ناحق قتل ھوجائے اب روز ھوتا ہے شاید کہ خدا نے بھی ھم کو ھمارے حال پہ چھوڑ دیا ہے ھم میں اب برداشت کا مادہ ختم ھوگیا ہے اب ھم کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے باپ,ماں بہن بیٹی سب ھماری حیوانیت کا شکار بن رہے ہیں اب ہم بہت زیادہ ترقی جو کرچکے تبھی ھماری بہو بیٹیوں کی عزتیں ہم سے ہی محفوظ نہیں ہیں پہلے پہل سہولیات کا فقدان ھوتا تھا فون اور ٹی وی نہیں تھا ان کے آنے سے بے حیائی عروج پہ چلی گئی وقت بدل چکا ہے اب ہم بہت زیادہ ترقی کرچکے ہیں پہلے سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے محبتیں تھیں رشتوں میں تقدس تھا اب سب الگ الگ کمروں میں رہتے ہیں لیکن وہ تقدس ختم ھوگیا۔ 8 سے 10 بہن بھائیوں کو ماں اور باپ ملکر پال لیتے ہیں ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں لیکن یہ آٹھ دس بہن بھائی جب جوان ھوجاتے ہیں اور کمانے والے ھوجاتے ہیں تو یہ مل کر بھی دو بوڑھے والدین کو نہیں پال سکتے بلکہ پھر تو یہ والدین بوجھ لگنے لگ جاتے ہیں وقت تیزی سے گزر رہا ہے جیسے جیسے ھم ترقی کرتے جارہے ہیں ویسے ویسے ھماری اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے لوگ ترقی کیلئے شہروں میں جابستے ہیں اور جب بہت زیادہ ترقی کرلیتے ہیں تو پھر شہر سے باہر بھاگتے ہیں اور گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہتے ہیں جب تک موبائل اور ٹی وی نہیں تھا تب لوگ ایک دوسرے کو وقت دیتے تھے خوب گہما گہمی ھوا کرتی تھی لیکن اب وہ رونقیں پتہ نہیں کہاں چلی گئیں اب واقعی ہم نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے اب ھم ایکدوسرے کے پاس بھی بیٹھے ھوتے ہیں تو ایکدوسرے سے بے پرواہ ھوتے ہیں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں اپنے علاوہ ھمیں کسی کی پرواہ نہیں ھوتی۔
اپنے گاؤں کا ایک واقعہ پیش کررہا ھوں سادہ دور تھا موبائل اس وقت تک نہیں آیا تھا میں اس وقت مڈل کلاس میں تھا شام ھوتے ہی گاؤں کے تمام مرد کبڈی کا میچ دیکھنے کیلئے ایک جگہ اکٹھے ھوجاتے عموماً چاندنی راتوں میں رات گئے تک کھیل جاری رہتا تھا ھمارے گاؤں کی شیخ برادری کی نئی نئی ڈور بیل لگی تھی کچھ شرارتی قسم کے نوجوان کبڈی سے واپسی پہ ڈور بیل بجا کر چھپ جاتے شیخ صاحب باہر نکلتے تو کوئی بھی نظر نہ آتا وہ بچارے واپس جاکر سوتے اور پھر بیل بج اٹھتی یہ پریکٹس کافی دیر جاری رہتی جب لڑکے پکڑے جاتے تو انہیں یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔
کچھ لڑکے گھروں کے باہر لگے بلب توڑ کر بھاگ جاتے یا کسی کا درواز کھٹکھٹا کر چھپ جاتے۔
لڑائی جھگڑے بھی ھوتے تھے مگر ڈیروں پر یا گھروں میں ہی صلح ھوجاتی تھی وہ دور واقعی سنہرا دور تھا اس وقت یہ ٹی وی چینلز نہیں آئے تھے صرف PTV ھوا کرتا تھا جس پر سبق آموز ڈرامے اور فلمیں لگتی تھی وہ ڈرامے اور فلمیں فیملی ٹائپ کے ھوا کرتے تھے بچے بوڑھے اور عورتیں سب مل کر دیکھتے تھے پھر دیکھتے ہی دیکھتے دھڑا دھڑ چینل کھلتے گئے اور ساتھ ساتھ وہ پرانی روایات بھی دفن ھوتی گئیں اب ھمارے ڈرامے اور فلمیں بھابھی دیور,ساس,بہو,کزن اور دوسرے پاک رشتوں سے ناجائز تعلقات کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں یعنی بے حیائی پھیلانے میں ٹی وی کا بہت کردار ہے اور رہی سہی کسر آجکل کے ٹچ موبائلوں نے نکال دی ہے نوجوان نسل بے راہ روی کا تیزی سےشکار ھورہی ہے جس کے واضح ثبوت آئے روز خبروں میں ملتے ہیں۔ ھم جب کرکٹ کھیلتے تھے تو اس وقت 10 روپے کی ٹیپ آتی تھی اور 30 روپے کی بال ھم سب تھوڑے تھوڑے پیسے اکٹھے کرتے تب جاکر گیند اور ٹیپ لیکر آتے آج شاید ھم ہر چیز انفرادی طور پر لے لیں گے مگر 11 پلیئر اکٹھا کرنا اب مشکل ہے وقت بدل گیا ہے شاید اب آسمان کبھی رنگ نہ بدلے شاید سرخ آندھیاں اب کبھی نہ آئیں کیونکہ ھم اب بہت آگے نکل چکے ہیں چھوٹی چھوٹی بات پہ بندہ مار دیتے ہیں ہم میں برداشت کا مادہ ختم ھوگیا ہے اور بدقسمتی سے ھمارا قانون اور انصاف کا نظام اس قدر بیکار اور بدتر ہے کہ جرم کرتے ھوئے کسی کو خوف نہیں آتا اب انسان نما درندے نے معصوم کلیوں کو نوچنا شروع کردیا ہے کتنی زینب درندوں کی نظر ھوگئیں لیکن پھر بھی جرم ختم ھونے کا نام ہی نہیں لے رہا آخر کب تک ایسا چلے گا ھم کب اس دور میں لوٹیں گے جس دور میں مکان کچے اور لوگ سچے ھوا کرتے تھے ایسا کب ھوگا کاش ایسا ھوجائے اور ھم ماضی میں لوٹ جائیں اس ماضی میں جہاں بد تہذیبی اور بے حیائی نہیں تھی ایکدوسرے کے گھروں میں بلاجھجھک آنا جانا تھا کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ھوا کرتی تھی اسکی وجہ یہ تھی کہ برائی اور بے حیائی نہیں تھی لیکن اب بھائی سگے بھائی کو گھر نہیں آنے دیتا کیونکہ بے حیائی اب ٹی وی اور موبائلوں سے نکل کر ذہنوں میں گھس گئی ہے اب کوئی کسی کا اعتبار نہیں کرتا شاید ھمارا رب ہم سے بہت ناراض ھوگیا ہے اس نے ھمیں ھمارے حال پہ چھوڑ دیا ہے اس میں ہمارا ہی قصور ہے ہم خون کے رشتوں کو بھول بیٹھے ہیں بھائی,بھائی کا دشمن ہے ایک گھر میں رہنے کے باوجود ہم اپنے دوسرے فیملی ممبرز سے بات نہیں کرتے فیس بک,ٹویٹر,انسٹاگرام پہ ناجانے ہم نے کتنے دوست بنا لیے ہیں لیکن اپنے سگے بھائی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔
کچھ دن پہلے ایک دوست کے گھر جانا ھوا وہاں ھمارا دو تین دن کا قیام تھا اس دوست نے بتایا کہ اس کے چھوٹے بھائی کا گھر میں رویہ بہت برا ہے جبکہ گھر سے باہر جاتے ہی وہ شہد کھا لیتا ہے یعنی لہجے میں اتنی مٹھاس آجاتی ہے لیکن گھر آتے ہی اس کا رویہ خراب ھوجاتا ہے خیر میں چیک کرنے کیلئے ایک دو دفعہ اس کے ساتھ باہر گیا جب باہر لوگوں سے اس میل میلاپ دیکھا تو سوچنے لگا کہ یار اس کے نامناسب رویے کے بارے میں اس کا بھائی غلط کہتا ہے اس سے زیادہ شیریں مزاج شخص تو میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا ایسا لڑکا بد مزاج کیسے ھوسکتا ہے شاید اس کے بھائی کی اس کے ساتھ نہیں بنتی تبھی وہ اسکی شکایتیں لگاتا ہے خیر ہم گھر آگئے اور رات کا کھانا کھانے لگے اس دوران دوسرے کمرے سے زور زور سے بولنے اور گالیاں دینے کی آواز آنے لگی جب جاکر دیکھا تو وہی شیریں مزاج لڑکا اپنی بہنوں کو گالیاں دے رہا تھا اور اپنی امی سے بھی لڑ رہا تھا خیر دوسرے دن اس کو بلایا اور کہا کہ بھئی آپ کے میٹھے بول اور اخلاق کی سب سے زیادہ ضرورت آپ کے گھر والوں کو ہے آپ گھر والوں کی بھڑاس باہر کے لوگوں پہ نکالا کرو اور جو محبت آپ باہر بانٹتے پھرتے ھو اسکی ضرورت آپ کے اہل خانہ کو ہے لہذا اپنے مزاج میں تبدیلی لاؤ۔
اس جیسے واقعات تقریباً اب ہر گھر میں ھوتے ہیں باہر محبتیں بانٹتے ہیں اور گھر میں آسمان سر پہ اٹھایا ھوتا ہے ھمیں اپنے رویے درست کرنے کی ضرورت ہے ھماری محبتوں اور چاہتوں کے زیادہ مستحق ھمارے گھر والے ہیں جو ھمارے ہر دکھ سکھ کے ضامن ھوتے ہیں اور خاص کر والدین کا احترام بہت ضروری ہے لہذا ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھیں اور حقوق العباد پورے کرتے ھوئے ﷲ اور اسکی مخلوق کو راضی کریں تاکہ ھماری دنیا اور آخرت دونوں سنور سکیں..!!