پاکستانی معیشت سے خاتمہ سود کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا وزیر اعظم شہباز شریف کو خط

 
0
266

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 28 جون 2022 (ٹی این ایس): جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اسلامی معیشت کے اصولوں سے ہم آہنگ ایسا طریقہ کار وضع کرے جس سے سود ی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ماہرین معاشیات اور بینکاری کے تعاون سے ایک عبوری رپورٹ نومبر1978ءمیں اور حتمی رپورٹ جون 1980ء میں پیش کی ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کا لب لباب یہ تھا کہ : بلاسود بینکاری نفع ونقصان کی بنیاد پر قائم ہوگی ،بینکوں کا بیشتر کاروبار مشارکت ومضاربت پر مبنی ہوگا اور اجارہ ، مرابحہ ، وغیرہ محض وقتی متبادل کے طور پر استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔1980ء کے آخر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تمام تجارتی بینکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ وہ 1981ء سے اپنے تمام معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہوں گے ۔ اسٹیٹ بینک کے اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بینکوں نے پی ایل ایس اکاؤنٹ کے نام سے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی اور عندیہ دیا کہ رفتہ رفتہ پورے بینکاری نظام کو غیر سودی نظام میں تبدیل کردیا جائے گا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جسٹس تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس منعقدہ 1983ء میں حکومت کو یاد دلایا کہ ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے لئے حکومت نے 1979ء میں تین سال کی جو مدت مقرر کی تھی وہ دسمبر 1981ء میں ختم ہوگئی ہے 1991ءمیں وفاقی شرعی عدالت، پاکستان کے روبرو ایک مقدمہ بعنوان”ڈاکٹر محمود الرحمن فیصل بنام سیکرٹری وزارتِ قانون اسلام آباد وغیرہ‘‘ سماعت کے لئے پیش ہوا۔ اس مقدمے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج متعدد قوانین کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جو سودی لین دین سے متعلق تھے اور استدعا کی گئی تھی کہ چونکہ قرآن و سنت میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے اور آئین، حکومت کو اس امر کا پابند کرتا ہے کہ وہ تمام رائج قوانین کو قرآن و سنت میں بیان کردہ اُصولوں کے مطابق ڈھالے لہٰذا ان تمام قوانین کو قرآن و سنت سے متصادم قرار دیا جائے جن میں قانونی طور پر سودی لین دین یا کاروبار کی اجازت پائی جاتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فل بنچ نے جو مسٹر جسٹس تنزیل الرحمن (چیئرمین) مسٹر جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اور مسٹر جسٹس عبید اللہ خان پر مشتمل تھا، ۷ ؍فروری 1991ء سے اس مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ ۲۴؍ اکتوبر 1991ء تک جاری رہا۔ جس کے نتیجے میں اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ۱۴ ؍نومبر 1991ء کو مسٹر جسٹس تنزیل الرحمن کی سربراہی میں وفاقی شرعی عدالت نے ۱۵۷ صفحات پر مشتمل تاریخی فیصلہ صادر کیا۔سودی نظام کےخلاف یہ جنگ پھر بھی جاری رہی۱۹۹۹ء میں بھی پھر اس کیس کی سماعت ہوئی ۔ عرفِ عام میں اس عدالتی جنگ کو ’’سود کا مقدمہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن جس انداز میں سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ کے روبرو یہ مقدمہ لڑا گیا اور خاص کر سود مخالف فریقین نے کسی مالی طمع کے بغیر جانفشانی اور دینی جذبے کے تحت کراچی سے اسلام آباد تک، جس پرجوش انداز میں اسلامی موقف کی پیروی کی، اس کی روشنی میں، سود کے خلاف اس عدالتی جنگ کو اگر عدالتی جہاد کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا۔پاکستان میں رائج سودی نظام کے خلاف اس تاریخی مقدمہ کی سماعت عدالت ِعظمیٰ کے فل بنچ نے کی۔ یہ بنچ مسٹر جسٹس خلیل الرحمن خان (چیئرمین) مسٹر جسٹس وجیہ الدین احمد، مسٹر جسٹس منیر اے شیخ، مسٹر جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اور مسٹر جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی پر مشتمل تھا۔اس کیس میں سپریم کورٹ کی درخواست پر بین الاقوامی سکالرز اور جید علماء نے سود کےخاتمہ پر دلائل پیش کیے۔اس موقعہ پر عظیم اسلامی اسکالر ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾ مدیر اعلیٰ ماہنامہ’’ محدث‘‘ لاہوروسرپرست اعلیٰ جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور کو سپریم کورٹ نے مقدمہ سود میں اپنا موقف پیش کرنے کے لیے مدعو کیا حافظ صا حب نے علمی انداز سے اپنے دلائل مذکورہ فل پنچ کے سامنے پیش کیے ’’پاکستانی معیشت سے خاتمہ سود کےلیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کا خلاصہ ‘‘ جنرل محمد ضیاء الحق  کے حکم پر اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پیش جانے والی رپورٹ کا خلاصہ ہے یہ رپورٹ جسٹس تنزیل الرحمٰن کی صدارت میں کونسل نے منظور کی تھی جو جنرل محمد ضیاء الحق کی خدمت میں پیش ہوئی ۔یہ رپورٹ اپنے موضوع پر دنیا میں سب سے پہلی کوشش تھی جس کی تیاری میں نہ صرف صاحب بصیرت علمائے دین بلکہ جدید اقتصادیات وبینک کاری کے پیچیدہ علمی اور فنی مسائل کا گہرا شعور وادراک رکھنے والے اہل نظر حضرات کا وسیع تجربہ بھی شامل ہے ۔ استیصال سود کے موضوع پر کونسل کی یہ رپورٹ مقدمہ کےعلاوہ پانچ ابواب اور ایک اختتامیہ پر مشتمل ہے جس میں کونسل کے اخذ کردہ نتائج اور اس کی سفارشات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے .اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف کے نام خط میں اپیل کی گئی ہے کہ بلا سود معیشت کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سٹیٹ بینک کی اپیل کو واپس لینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے وزیر اعظم کو تجویز دی گئی ہے کہ حکومت، شریعت، معیشت اور قانون کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دے، جو سود سے متعلق فیڈرل شریعت کورٹ کے حالیہ فیصلے پر سٹیٹ بینک کے تحفظات کا جائزہ لے کر فیصلے پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرنے لیے سفارشات مرتب کرے۔ سود مالیہ اور معاشیات میں ایک ادائیگی ہے جو ایک قرض دار یا کوئی رقمی جمع بندی کا مالیاتی ادارہ اصل رقم سے بڑھ کر دے یعنی مقروضہ رقم یا جمع کردہ رقم سے بڑھ کر۔ یہ سود کی ایک شرح ہوتی ہے جو عمومًا کچھ معینہ فی صد ہوتا ہے . تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم حاصل کرنا یہ سب وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورہٴ بقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی وذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ عصرِ حاضر کی پوری دنیا کے علماء پر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں؛ مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی، نیودہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر Interestکی رقم کے عدمِ جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتبِ فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔ ایک آئینی ادارہ ہونے کی حیثیت سے اسلامی نظریاتی کونسل نے مجوزہ ٹاسک فورس میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔مزید برآں اسلامی نظریاتی کونسل نے بینکوں کے سربراہان سے بذریعہ مراسلہ مؤرخہ 30/مئی 2022ء فیصلہ کے خلاف اپیل میں نہ جانے کی درخواست کی تھی تاہم مؤرخہ 25/جون 2022ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی،جس کو پاکستانی عوام نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا،اور مختلف فورمز پر ردعمل ظاہر کیا۔ کونسل امید رکھتی ہے، کہ وزیراعظم پاکستان اس اپیل کو واپس لینے میں اپنا کردار ادا کریں گے، اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دیں گے۔ یہ حکومت اور ملک وملت کے لیے بہترین اقدام ہوگا۔خیال رہے کہ سود کے خلاف دیے گئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سٹیٹ بینک او رچار نجی بینکوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیاہے، بینکوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں وزارت خزانہ، وزارت قانون اور چیئرمین بینکنگ کونسل سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کو سامنے نہیں رکھا اور رولز میں ترمیم کا حکم دے دیا۔ شرعی عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل کو منظور کیا جائے اور فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کی حد تک ترمیم کی جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل کو سود کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ سنا تے ہوئے قرار دیا تھا کہ سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے، معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے۔حکومت اندرونی اور بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لے۔ سی پیک کیلئے چین بھی اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے، تمام بینکنگ قوانین جن میں انٹرسٹ کا ذکر ہے وہ ربا کہلائے گا حکومت تمام قوانین میں سے انٹرسٹ کا لفظ فوری حذف کرے۔قرآنِ کریم میں معاشی نظام کو بے شمار کدورتوں سے پاک رکھنے کے لیے واضح احکامات صادر کیے گئے ہیں, اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورہٴ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔ سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہٴ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر) اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: ذَلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ فَمَنْ جَآئَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانْتَھیٰ فَلَہ مَاسَلَفَ، وَاَمْرُہٗ اِلَی اللہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ھُمْ فِیْھَا خَالِدُونَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

غرضیکہ سورہٴ بقرہ کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔۔۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سود سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور سود لینے اور دینے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں جن میں سے بعض احادیث ذیل میں ذکرکی جارہی ہیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے؛ چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم ، باب حجة النبی )

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے۔ پہلا شراب کا عادی، دوسرا سود کھانے والا، تیسرا ناحق یتیم کا مال اڑانے والا، چوتھا ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (کتاب الکبائر للذہبی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر)مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے؛ لیکن شریعتِ اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز وحلال طریقہ سے ہی مال کمائے؛ کیوں کہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ رب العزت کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔

مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود، خالقِ کائنات اور تمام نبیوں کے سردار حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ ، دھوکے کا سامان اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مال ودولت کے حصول کے لیے کوئی کوشش ہی نہ کریں؛ کیوں کہ حلال رزق کا طلب کرنا اور اس سے بچوں کی تربیت کرنا خود دین ہے؛بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔ کہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اخروی زندگی کو داوٴ پرلگانے کے بجائے فانی دنیاوی زندگی کے عارضی مقاصد کو نظر انداز کردیں، نیز شک وشبہ والے امور سے بچیں۔

اِن دنوں حصول مال کے لیے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے؛ بلکہ کچھ لوگوں نے تو اَب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لیے جائز سمجھنا شروع کردیا ہے ؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیساکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو؛ کیوں کہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ حرام کھانے،پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ (مسلم)

ہمارے معاشرہ میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔ وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest یا Usuryکہتے ہیں۔ جس وقت قرآنِ کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو، یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple Interestہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے ۱۰۰ روپے بطور قرض اس شرط پر دیے کہ وہ ۱۱۰ روپے واپس کرے، تو یہ سودہے؛ البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں؛ بلکہ ایسا کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے؛ لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ بھی سود ہے۔سب سے زیادہ سود کی حرمت پر زور دے کر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی کیونکہ معاشی نظام میں سود دجال کا اہم ترین ہتھیار ہے اور اسی کے ذریعے وہ عالم انسانیت کو معاشی جہنم میں دھکیلتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی، اخلاقی، اجتماعی اور فکری تباہی خود بخود واقع ہونے لگتی ہے۔سود کو عربی زبان میں ”رِبا‘‘کہتے ہیں،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا‘ پروان چڑھنا او ر بلندی کی طرف جانا ہے۔ شرعی اصطلاح میں رِبا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا ‘‘۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے‘ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص وطمع، خود غرضی،سنگدلی، مفاد پرستی، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔قرآن پاک کی 12 آیات میں رِبا کے متعلق ذ کر آیا ہے۔وفاقی شرعی عدالت نے لگ بھگ 19سال بعد سود کے خلاف تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اس نظام کے مکمل خاتمے کیلئے 5 سال کی مہلت دی ہے۔عدالت نے برطانوی نو آبادیاتی دور کے انٹرسٹ ایکٹ 1839ء اور سود سے متعلق تمام شقوں کو یکم جون 2022ء سے غیر مؤثر کرتے ہوئے حکومت کو اندرونی و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کی ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کے خلاف ہے، ملک سے رِبا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہوگا، رِبا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی احکامات میں سے ہے، بینکوں کی قرض کی رقم سے زیادہ وصولی رِبا کے زمرے میں آتی ہے، ہر قسم کا انٹرسٹ رِبا ہی کہلاتا ہے، قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو‘ اس پر لاگو انٹرسٹ رِبا کہلائے گا،اصل رقم سے زائد رقم لینا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ دری ہے۔وفاقی شرعی عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سی پیک کیلئے اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے‘ رِبا سے پاک نظام ہی فائدہ مند ہو گا۔
درحقیقت تمام دنیا میں دجالی معاشی نظام بین الاقوامی سودی بینکوں کی شکل میں انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اسی نظام کے ذریعے تمام دنیا کو معاشرتی اور اخلاقی گرواٹ میں مبتلا کردیا گیا۔ حرام چونکہ فطرت سے بغاوت پر اکساتا ہے‘ اسی لیے سود کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہےسودی نظام کے ذریعے تمام دنیا کو معاشرتی اور اخلاقی گرواٹ میں مبتلا کردیا گیا۔ حرام چونکہ فطرت سے بغاوت پر اکساتا ہے‘ اسی لیے سود کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہےکسی نے مضاربہ کے نام سے موجودہ نظام کوجائزیت کا لبادہ اڑھانے کی کوشش کی ہے تو کوئی ”اسلامی‘‘ کے نام پر اپنے آپ کو دھوکا دینے پر تلا ہوا ہے اورکوئی بین الاقوامی مالیاتی نظام سے الگ ہونا تصور میں ہی نہیں لاسکتا۔کیا اس طرح کے ملک کو اسلامی کہا جاسکتا ہے جہاں پر دجالی سودی بینکاری کے ذریعے معاشی نظام چلایا جاتا ہو؟ اگر شروع سے ہی سود سے پاک اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جاتا تو آج ہمارا ملک‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان صحیح معنوں میں دنیا کے رول ماڈل بن جاتا۔اس وقت دنیا کا معاشی نظام دجال کے پیروکاروں کے ہاتھ میں ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی سیاست، معاشرت اور اخلاقیات پر خود بخود قابض ہوچکے ہیں۔ فیڈرل ریزرو،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف خطرناک شکل اختیار کر چکے ہیں۔ضروری ہے کہ حکومت غیر اسلامی مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔ضرورت اس امر کی ھے کہ وزیر اعظم اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف لکھےگئے خط کےتناظر اپنے اثر و رسوخ کو استمعال میں لاتے ہوئے مالیاتی اداروں کو سود کے خاتمےکیلئے حکومت کی معاونت کیلئے ہدایت کریں تاکہ پاکستان اسلامی امہ کےلئے مثال بن سکے۔۔۔۔