ملٹری ڈپلومیسی ؛برٹش سکھ سولجرکا دورہ پاکستان شروع

 
0
150

اندر کی بات؛ کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 23 جون 2022 (ٹی این ایس): برٹش آرمڈ فورسز کے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر و جوان پاکستان کے دورے اسلام آباد پہنچے ہیں برٹش آرمی سولجر کادورہ پاکستان 23 جون سے 29 جون تک رہےگا برطانیہ میں سکھوں کی تاریخ اور بادشاہت کے ساتھ ان کا تعلق سکھ سلطنت کے آخری مہاراجہ سے شروع ہوتا ہے۔ مہا راجا رنجیت سنگھ پنجاب میں سکھ سلطنت کا بانی تھا ۔ پنجاب میں اس کا اقتدار 1799ء تا 1849ء تک رہا شہزادہ دلیپ سنگھ 15 سال کے تھے جب وہ عیسائیت اختیار کر چکے تھے انہیں 1854 میں برطانیہ لایا گیا تھا۔ یہ حسن اتفاق ھےکہ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کے خاندان کا تعلق گکھڑ منڈی گوجرانوالہ سے ہے۔ شہر رسول نگر گوجرانوالہ میں دریائے کے کنارے تاریخی قصبہ ہے۔ جسے نور محمد چھٹہ نے سترھویں صدی عیسوی میں آباد کیا تھا۔ سکھوں اور انگریزوں کی آخری لڑائی 1849ء میں پاکستانی پنجاب کے تاریخی قصبہ رسول نگر میں لڑی گئی۔ برٹش آرمڈ فورسز کے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر و جوان پاکستان کے دورے اسلام آباد پہنچے ہیں جب ملکہ برطانیہ کی پلاٹینیم جوبلی تقریبات کے علاوہ پاکستان میں آزادی کے جشن کے 75ویں سالگرہ منانے کا آغاز ہوچکاہےسکھوں اور انگریزوں کی آخری لڑائی 1849ء میں پاکستانی پنجاب کے تاریخی قصبہ رسول نگر میں لڑی گئی۔ 1838ءمیں سکھوں سے آخری لڑا ئی میں بر طا نو ی فو ج کے جنر ل چا ر لس را بر ٹ ، لا ر ڈ کو چ ، ویلیم ہیولاک، بر یگیڈیئر سی آ رکریٹون 16 آفیسرز ہلاک 64 زخمی اور 14 لاپتہ ہو ئے تھے جن کی عمودی قبریں رسول نگر میں موجود ہیں, ہلا ک ہو ئے 4 جنرل 2 بریگیڈیئر اور 2 کرنل رینک کے آفیسر کی قبر یں علا قہ بھر میں کھڑی قبروں کے نا م سے مشہور ہیں،

برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے والے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچ چکے ہیں اپنے قیام کے دوران برٹش آرمی کے سکھ سولجر و آفیسران مذہبی مقامات کے دورے کےدوران مذہبی رسومات کی ادائیگی کے علاوہ اعلئ سول و فوجی افسران سے ملاقاتیں بھی کریں گے برٹش آرمی سولجر کادورہ پاکستان 23 جون سے 29 جون تک ھوگا خیال رہےکہجنرل قمر جاوید باجوہ نے کرتارپورہ راہداری کو کم وقت میں مکمل کروا کر سکھوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے۔آرمی چیف کی نجوت سنگھ سدہو سے تاریخی جپھی کو دنیا میں امن کے متوالوں نے خوب سراہا۔ پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے یہ بھی ثابت کردکھایا ہے کہ کرتارپور راہداری کے کھلنے سے خطہ میں امن اور دوستی کی فضا وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتی ہوگی آرمی چیف جنرل باجوہ نے بڑی بے تکلفی سے نجوت سنگھ کو اْن کی بچپن کی عرفیت ’’شیری‘‘کے نام سے مخاطب کیا تو وہ ہکابکا رہ گئے، اْس موقع پر بے اختیار جنرل قمر باجوہ اور سدھو بغلگیر ہوئے تو بھارت کے ہندوتوا حلقوں میں ایک کہرام مچ گیا سدھو پر لعن طعن ہونے لگی اسی موقع پر جنرل قمرجاوید باجوہ نے سدھو سے کہا کہ ’’پاکستان آئندہ چند ماہ میں باباگورونانک صاحب کی پانچ سوپچاسویں سالگرہ کے دن کرتارپور راہداری کو سکھوں کے کھول دے گا‘‘ یہ سن کر توسدھو خوشی سے جھوم اْٹھا اور بھارت سمیت دنیا بھرکے سکھ مت کے کروڑوں پیروکاروں خوشگوار حیرت میں متعجب ہوگئے جنرل قمرجاوید باجوہ کی سفارتی حکمت عملی نے پاکستان اور بھارت کے برسوں کے سفارتی فاصلوں کو چندہی ماہ میں طے کرکے دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے

پاکستان خطہ میں امن کا داعی ہے اب تمام مذاہب کے ماننے والے کرتار پور کے راستے پاکستان آجاسکیں گے اسے اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ کی ڈپلومیسی کام کرگئی ہے پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ بھی ہر موقع پر یہی کہتے ہوئے سنائی دئیے ہیں کہ پاکستان نے اب کامیابی کی جانب اپنا سفرشروع کردیا ہے جنرل باجوہ کا اصرار رہا کہ اب ہم سب نے باہم یک سو اور یکجا ہوکر اپنے فکری اور نظری اتحاد سے دنیا پر یہ باورکرانا ہے کہ پاکستان خطہ میں اپنے پڑوسی ممالک بھارت،ایران اور افغانستان کے ساتھ امن اور دوستی کے تعلقات کو ہر صورت میں ہر قسم کے تحفظات سے ماورا ہوکر اپنی سرحدوں کے حدود میں رہ کر ترقی اور امن کے لئے سرگرم رہنے کا غیر متزلزل عزم کرلیا ہے دنیا بھر میں ایک بڑی آبادی ’’سکھ مت‘‘ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب سکھ قوم کے دلوں کو جیتنے کا یہ بہترین موقع تھا جو پاکستان ھاتھ سے جانے نہ دیا, سکھ سلطنت کے زوال اور اس کے بادشاہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد، انگریزوں نے اس بڑے علاقے کو بڑی مشکل سے فتح کیا کیونکہ یہ ہندوستان میں انگریزوں کے قبضے میں آنے والی آخری سلطنت تھی،انگریزوں نے بڑی تعداد میں سکھوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا۔سارہ گڑھی کی لڑائی کو سکھ فوجی تاریخ کی عظیم لڑائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔12 ستمبر 1897 کو 36 ویں سکھ رجمنٹ (اب ہندوستانی فوج کی سکھ رجمنٹ کی چوتھی بٹالین) کے اکیس سپاہیوں کے دستے نے حوالدار ایشر سنگھ کی قیادت میں 10,000 جوانوں کے افغان حملے کو کئی گھنٹوں تک روکا۔تمام 21 سکھ فوجیوں نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے موت سے لڑنے کا انتخاب کیا۔

ان کی قربانی کے اعتراف میں، برطانوی پارلیمنٹ نے ان کو انڈین آرڈر آف میرٹ (وکٹوریہ کراس کے برابر) سے نوازاپاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کے خاندان کا تعلق گکھڑ منڈی گوجرانوالہ سے ہے۔ شہر رسول نگر گوجرانوالہ میں دریائے کے کنارے تاریخی قصبہ ہے ۔ جسے نور محمد چھٹہ نے سترھویں صدی عیسوی میں آباد کیا تھا۔ سکھوں اور انگریزوں کی آخری لڑائی 1849ء میں پاکستانی پنجاب کے تاریخی قصبہ رسول نگر میں لڑی گئی۔ 1838ءمیں سکھوں سے آخری لڑا ئی میں بر طا نو ی فو ج کے جنر ل چا ر لس را بر ٹ ، لا ر ڈ کو چ ، ویلیم ہیولاک ، بر یگیڈیئر سی آ رکریٹون 16 آفیسرز ہلاک 64 زخمی اور 14 لاپتہ ہو ئے تھے جن کی عمودی قبریں رسول نگر میں موجود ہیں, ہلا ک ہو ئے 4 جنرل 2 بریگیڈیئر اور 2 کرنل رینک کے آفیسر کی قبر یں علا قہ بھر میں کھڑی قبروں کے نا م سے مشہور ہیں ، مہا راجا رنجیت سنگھ پنجاب میں سکھ سلطنت کا بانی تھا ۔ پنجاب میں اس کا اقتدار 1799ء تا 1849ء تک رہا ۔ اس نے 1822ء میں دریائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2 کلومیٹر مشرق کی جانب اپنے دور کی خوبصورت ترین بارہ دری تعمیر کی ۔ 25 ایکڑ پر پھلوں کے باغات اور 64 کنال کی چار دیواری کے علاوہ دریائے چناب میں اتر نے کے لیے زیر زمین سر نگ تعمیر کی جس میں اس کے اہل خانہ نہانے کے لیے اترتے تھے۔

خوبصورت ترین اس بارہ دری کے بارہ دروازے بنائے گئے جو چاروں اطراف سے آنے جانے کے لیے تھے اس بارہ دری سے شہر رسول نگر تک 2کلو میٹر زیر زمین سر نگ بنا ئی گئی جو رنجیت سنگھ کے محل سے خواتین بارہ دری تک آنے کے لیے استعما ل کر تی تھیں ۔ مہا راجا رنجیت سنگھ ہر سا ل 3ما ہ کے لیے اس با ر ہ در ی میں قیا م کر تا تھا۔ سکھ برادری کے پانچ اہم ترین مذہبی مقامات پاکستانی پنجاب میں واقع ہیں۔ سکھوں کے اِن مذہبی مقامات میں سے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور سکھوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اُن کے روحانی پیشواگرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری 18برس یہیں گزارے تھے۔ اُن کی آخری آرام گاہ اور سمادھی بھی یہیں ہے سکھ مت ہر وقت عقیدت اور خدا کی یاد، سچائی پر مبنی زندگی، مساوات، سماجی انصاف پر زور دیتا ہے سکھ مت مذہب کا سب سے اہم عقیدہ وا ہے گرو Wahe guru پر ایمان ہے – جسے “اک اونکار”، آفاقی خدا کی مقدس علامت سمجھا جاتا ہے۔راقم الحروف کے آباو اجداد کئی صدیوں اسی سرزمین پر مدفون ہیں اور زمانہ طالب علمی کا ابتدائی عرصہ بھی رسولنگر میں گزرا میرے دادا حکیم نیاز علی کو برطانوی راج میں سند فضیلت عطا ہوئی اور وہ اپنے دور کےنامورطبیب رہے جبکہ نانا نذرعلی نذر ایک مشہور شاعر اور مصورتھے جنکے درجنوں شاگرد نیشنل کونسل آف آرٹس کے استاتذہ رہ چکے ہیں علاوہ ازیں راقم الحروف کے سسرال کے آباو اجداد بھی صدیوں سے یہاں آباد رہ کر ملک و قوم کی خاطر جانیں قربان کرچکے ہیں شہید مظہرعلی مبارک جو میرے حقیقی بھائی تھے سال 2013 میں دھشت گردانہ کارراوئی میں شہید ہوئےتھے آج بھی ہماراآبائی گھر محلہ پٹھانوالہ میں آباد وشاد ھے اور عہد رفتہ کی حسین یادوں کامسکن ھے اس علاقہ کی اعزاداری کا اہتمام بسلسلہ محرم الحرام لائسنسداری نسل درنسل ہمارے خاندان کیلئے اعزازھے اور یہ اعزاز کئی صدیوں پر محیط ھےپاکستان سکھ ثقافت کا واحد امیر ترین ملک ہے جبکہ برطانیہ میں سکھوں کی تاریخ اور بادشاہت کے ساتھ ان کا تعلق سکھ سلطنت کے آخری مہاراجہ سے شروع ہوتا ہے۔شہزادہ دلیپ سنگھ عیسائیت اختیار کر چکے تھےجب انہیں 1854 میں بادشاہی ملی, انگریزوں نے سارے ہندوستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا لیکن وہ دلیپ کے والد کی موت کا انتظار کر رہے تھے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ – “پنجاب کا شیر” –

اپنی کمزور پنجابی سلطنت کی طاقت کو سنبھالنے سے پہلے ہی مر گیا جو کسی بھی یورپی طاقت کا مقابلہ تھا۔دلیپ سنگھ سفولک-نورفولک سرحد پر واقع ایلویڈن گاؤں میں چلا گیا، اور برسوں تک اس نے ایک انگریز ملک کے شریف آدمی کی زندگی گزاری۔ایمانداری سے ملکہ وکٹوریہ اور شہزادہ البرٹ کے ایک وفادار خادم کا کردار ادا کیا، جن کے ساتھ وہ شکار پر جاتا تھا۔یہ اس وقت تک تھا جب تک کہ 30 سال بعد ایک افواہ نے اسے سکھ مذہب میں واپس آنے پر مجبور کیا اور اس نے بادشاہت اور دولت کی واپسی کا مطالبہ کیا، جس میں مشہور کوہ نور ہیرا بھی شاملتھا جو ملکہ وکٹوریہ کو جنگ کے سامان کے طور پر دیا گیا تھا اور شاہی تاج کی زینت بنا تھا,جب وہ 1893 میں پیرس میں 55 سال کی عمر میں فالج کے دورے سے مر گیا، اس نے اپنے آخری سال اپنی شناخت کے کھو جانے پر افسوس کرتے ہوئے گزارے تھے۔ دلیپ سنگھ کی تیسری بیٹی شہزادی صوفیہ سنگھ بعد میں برطانیہ میں ایک مشہور ووٹنگ بن گئیں۔ وہ ویمنز ٹیکس ریزسٹنس لیگ کی رہنما تھیں، جس نے خواتین کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کے احتجاج میں ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرنے کیا۔اور اس نے یہ سب کچھ ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے دیے گئے محل کے اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے کیادلیپ سنگھ کی شرمناک موت پر آج بھی بہت سے برطانوی سکھ سوگوار ہیں — ایلویڈن میں ان کی قبر دنیا بھر کے سکھوں کے لیے ایک زیارت گاہ ہے — اور اس کی مصیبتوں نے برطانیہ اور خاص طور پر بادشاہت کے ساتھ ان کے تعلقات کو داغدار کر دیا۔1857 میں، دلیپ کے ساتھ ہزاروں میل دور نورفولک میں بحفاظت چھپ گئے، سکھ سپاہیوں نے ہندوستانی بغاوت کے دوران انگریزوں کا ساتھ دیا۔کئی دہائیوں بعد، ہزاروں سکھ “مادر وطن” کے لیے دو عالمی جنگوں میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔

اس کے برعکس، یہ بنیادی طور پر پنجاب کے سکھ تھے جنہیں انگریزوں نے راج کے خلاف مسلح مخالفت کرنے پر پھانسی دی تھی۔ 2018 کے اواخر میں، ایک سکھ سپاہی کا مجسمہ، جسے عالمی جنگوں میں ہندوستانی تعاون کی یاد میں نصب کیاتھا، تویسٹ مڈلینڈز کےمندر کے باہر توڑدیاگیا,۔نوجوان برطانوی نژاد سکھوں نے بعد میں نجی طور پر اعتراف کیا کہ انہوں نے کیا” یہ اصطلاح ہندوستانی فوجیوں کا حوالہ دیتی ہے جنہوں نے برطانوی ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دیں۔پولیس نے اس واقعے کو “نسلی طور پر بڑھے ہوئے مجرمانہ نقصان” کے طور پر پیش کیا،تاہم، سکھوں اور برطانوی بادشاہت کے درمیان تاریخی رابطوں کے ساتھ ساتھ ان جنگی روابط کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ میں اقلیتی گروہوں میں، برطانوی اکثر سکھوں کو ایک “پسندیدہ برادری” کے طور پر دیکھتے ہیں۔اس طرفداری نے برسوں کے دوران برطانوی سکھوں کی اچھی طرح خدمت کی ہے، مثال کے طور پر موٹر سائیکل ہیلمٹ کی بجائے پگڑی پہننے سے متعلق آپٹ آؤٹ شقوں پر کامیاب مذاکرات کی اجازت دی گئی، جیسا کہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں بہت سے پالیسی سازوں نے پگڑی والے سکھوں کی اجتماعی یاد کو برقرار رکھا۔ یہ خیر سگالی آج بھی جاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ برطانوی سکھوں کے 2013 کے سروے میں دکھایا گیا ہے کہ 95 فیصد کو برطانوی ہونے اور برطانیہ میں رہنے پر فخر ہے۔ لیکن سطح کے نیچے کھرچنا اور تیز نسلی تقسیم کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم، بہت سے پہلی نسل کے سکھوں کے لیے جو 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں پنجاب سے آئے تھے، ان کی بھی ملکہ ہیں: ایک بادشاہ جس نے سکھوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا اور واقعتاً انہیں اپنے ملک میں بسنے کی “اجازت” دی۔قوم پلاٹینم جوبلی منا رہی ہے، بہت سے بزرگ سکھ بلا شبہ فخر محسوس کر رہے ہوں گے اور مقامی تہواروں میں حصہ لے رہے ہوں گے۔ ان میں سکھ جیون سنگھ کنڈولا، ایک سکھ گیانی، یا اسکالر شامل ہیں، جنہیں سینٹ پال کیتھیڈرل میں دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ تشکر کی خدمت میں مدعو کیا گیا ہے۔”ملکہ الزبتھ ایک گہری عقیدت مند فرد ہیں اور واقعی چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ ہیں۔ فرض اور ایمان کے ساتھ اس کی لگن سب سے زیادہ قابل تعریف ہے۔ سیاسی طبقے کا کردار، نیکی اور تقویٰ تیزی سے زوال پذیر ہے۔ ایسی دنیا میں، ملکہ الزبتھ کی زندگی تمام لوگوں، خاص طور پر ایمان والوں کے لیے ایک نادر اور مستحکم الہام ہے۔تاہم، یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملک بھر میں 700,000 سکھوں کی نمائندگی کرنے والی سکھ تنظیمیں اور مندر تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں۔1997 میں اس نے بھارتی حکومت کے انتباہات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کا ایک متنازعہ دورہ کیا۔اندر کمار گجرال، جو اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم تھے، نے کہا کہ یہ دورہ خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ اس شہر میں رہنے والے سکھ 1919 کے جلیانوالہ باغ کے قتل عام بارے میں اب بھی ناراض تھے جب برطانوی رائفل نے استعمار کے خلاف پرامن سکھ اجتماع کے سینکڑوں مارے تھے۔لیکن سکھ بزرگ ملکہ کی میزبانی کے خواہشمند تھے اور احترام کے نشان کے طور پر انہیں ننگے پاؤں چلنے کے بجائے مندر میں موزے پہننے کے لیے خصوصی انتظام بھی کیا گیا، جس سے کچھ سکھ ناراض ہوئے۔

تاہم، یہ سفر گولڈن ٹیمپل کمپلیکس سے محض گز کے فاصلے پر جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام کے لیے ملکہ سے معافی مانگنے کے مطالبات کے زیر سایہ تھا۔1940 میں ایک سکھ انقلابی ادھم سنگھ نے اس قتل عام کا بدلہ ہندوستان سے لندن کے کیکسٹن ہال میں لے کر لیا جہاں اس نے پنجاب کے سابق لیفٹیننٹ گورنر جنرل سر مائیکل او ڈوائر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اپنے اولڈ بیلی میں قتل کے مقدمے میں، ادھم نے کہا: “وہ اس کا مستحق تھا۔ وہ میری قوم کی روح کو کچلنا چاہتا تھا اس لیے میں نے اسے کچل دیا۔ وہ مجرم پایا گیا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔نوآبادیاتی پس منظر والی کمیونٹیز اکثر گہری جڑوں والے بین نسلی صدمے کی وجہ سے بادشاہت کے ذریعے متحرک ہوتی ہیں۔ نقطہ نظر میں اختلاف کے باوجود، میں سمجھتا ہوں کہ بحث کے تمام اطراف سے مزید بحث کی گنجائش ہمیشہ موجود ہے لیکن ہر طرف سے زیادہ حساسیت اور احترام کی ضرورت ہے۔”جلیانوالہ باغ کے قتل عام پر ملکہ اور بادشاہت کی خاموشی “بتاتی” تھی اور مزید کہا: “ملکہ الزبتھ نے جلیانوالہ قتل عام کا حکم نہیں دیا تھا لیکن ان کے پاس برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے معافی مانگنے کے لیے کافی وقت ہے جس کی وہ سربراہ ہیں۔”اس کے بعد سے، ہزاروں سکھ اس کے لیے دو عالمی جنگوں میں لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں لیکن اس نے کبھی بھی ان قربانیوں کا بدلہ صرف راج اور برطانوی بادشاہت کے جھنڈے تلے ہونے والے خاص واقعات کے لیے معافی مانگ کر نہیں دیا۔””برطانیہ میں سکھ شاید تمام اقلیتوں میں سب سے بہتر انٹیگریٹڈ ہیں میرے خیال میں میں بہت سے دوسری اور تیسری نسل کے برطانوی سکھوں کے لیے بات کرتا ہوں جو بنیادی طور پر بادشاہت کے خلاف متضاد ہیں لیکن وہ سب جلیانوالہ باغ کے بارے میں جانتے ہیں۔ یہ حساسیت آج تک گونجتی ہے۔آخری بار برطانوی پریس میںکرسمس کے دن “سکھ” اور “ملکہ” کا ایک ساتھ تذکرہ کیا گیا تھا2009 میں ملکہ نے اپنا پہلا سکھ باڈی گارڈ رکھا۔پگڑی اور داڑھی والے سگنلر سمرن جیت سنگھ، 26، اور لانس کارپورل سروجیت سنگھ، 28، کی بکنگھم پیلس کے اندر اپنی بندوقوں کے ساتھ پوز دیتے ہوئےتصاویر چھپی ،امرتسر کے اپنے شاندار سفر کے پانچ سال بعد، ملکہ نے اپنی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے ایک حصے کے طور پر، 2002 میں ایک برطانوی سکھ مندر، یا گوردوارے کا اپنا پہلا دورہ کیا۔ لیسٹر کے گرو نانک گوردوارے میں گرجیت سنگھ سمرا نے ان کا استقبال کیا۔”یہ ایک اہم موقع تھا ملکہ نے مندر میں تین گھنٹے گزارے۔وہ ہماری مقدس کتاب کے سامنے جھک گئی، ملکہ کو سکھ خنجر اور کچھ پھول دیئے گئے اور وہ بہت شکر گزار اور خوش ہوئیں “اگرچہ میں ملکہ کی زندگی کا کوئی ماہر نہیں ہوں، لیکن یہ میرے لیے ظاہر ہے کہ کم از کم عوامی زندگی میں اس نے سکھوں کے مقدس صحیفوں کی ایک سطر کی عکاسی کرنے والے ایک متوازن نقطہ نظر کی قیادت کی جس میں کہا گیا ہے، ‘کوئی بھی میرا دشمن نہیں ہے اور کوئی بھی اجنبی نہیں ہے۔ میں سب کے ساتھ مل جاتا ہوں‘ ۔”سکھوں کے طور پر ہمارا واحد خود مختار خدا اور اس کے گرو ہیں لیکن میں کہوں گا کہ زیادہ تر برطانوی سکھ ملکہ کو پسند کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔”