قانون سب کیلئے برابر…فوج کو گالیاں دینے والوں کو مثالی سزا دی جائے

 
0
165

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 27 مئی 2022 (ٹی این ایس): قانون سب کیلئے برابر ہوتا ہےکوئی سیاستدان,قانون دان, جج, جنرل, جرنلسٹ” قانون سے بالاتر نہیں”قانون کی نظر میں سب ہیں,مگر مملکت پاکستان میں مذہب کارڈ ۔عورت کارڈ۔لسانی کارڈ اور علاقائی کارڈ۔نسل کارڈ کا نام استعمال کرکے قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتاہے اور بدقسمتی ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کے بجائے ان قانون شکن افراد کو بچانے کیلئے انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن سامنے آجاتےہیں جس سے پاکستان میں ذمہ داروں پر انگلیاں اٹھتی ہیں .ہمیشہ بات کی جاتی ہے کہ پاک فوج الزام اور بہتان تراشی کرنے والوں کے خلاف قانونی راستے کی بجائے اقدامات کرتی ہے21 مئی کی شام پانچ سے چھ بجے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے پاک فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف سرعام من گھڑت، بے بنیاد الزامات لگائے۔ آرمی قیادت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیاجان بوجھ کر دیے گئے ریمارکس کا مقصد فوج کے رینکس اینڈ فائل میں اشتعال دلانا تھایہ اقدام پاک فوج کے اندر نفرت پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔یہ بیان دینا پاک فوج کے افسروں، جوانوں کو حکم عدولی پر اکسانے کے مترادف ہےایمان مزاری کے خلاف تھانہ رمنا میں گزشتہ روز مقدمہ درج کیا گیافوج کی طرف سے درج اس ایف آئی آر میں لیفٹیننٹ کرنل سید ہمایوں افتخار نے پولیس کو بتایا کہ 21 مئی کو غروب آفتاب سے قبل پانچ سے چھ بجے کے درمیان شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے فوج، آرمی چیف (جنرل قمر جاوید باجوہ) کے خلاف تضحیک آمیز بیان دیا ہے خیال رہے کہ شیریں مزاری کو 21 مئی کو ان کے گھر کے سامنے سے ان کی گاڑی سے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ ایمان مزاری نے اسے اغوا قرار دیتے ہوئے اس کا الزام فوج کے سربراہ پر عائد کیا تھا۔ ایمان مزاری کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھافوج کے مطابق ایمان مزاری نے اعلیٰ قیادت کے خلاف یہ الفاظ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں ادا کیے ہیں، جن کا مقصد فوج میں بغاوت پیدا کرنا اور اس کی قیادت کو دھمکانا ہے۔ایمان مزاری کے بیان کا مقصد فوج میں نفرت، بے یقینی اور افراتفری پیدا کرنا ہے، جو کہ بہت سنگین اور قابل سزا جرم ہے۔فوج کے مطابق ایمان مزاری نے افسران کو اعلیٰ قیادت سے بدگمان کرنے کی کوشش کی ہے۔ جی ایچ کیو کے مطابق ایمان مزاری کا بیان فوج کی شبیہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کے بیان کا مقصد عوام میں ڈر اور خوف پیدا کرنا ہے، جو کہ ریاست کے خلاف جرم ہے۔اس مقدمے کے اندراج کے فوری بعد ایمان مزاری نے بتایا تھا کہ وہ ابھی فوج کی طرف سے درج مقدمے سے متعلق قانونی حکمت عملی پر مشاورت کر رہی ہیں اور اس حوالے سے جلد قانونی راستہ اختیار کریں گی۔ایمان مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ایمان مزاری کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور دھمکیوں کے مقدمے میں ایمان مزاری کی 9 جون تک عبوری ضمانت منظور کی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ پٹیشنر کی جانب سے زینب جنجوعہ اور دانیال حسن ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ سب لوگوں کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے؟اس پر زینب جنجوعہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایمان مزاری کے خلاف تھانہ رمنا میں گزشتہ روز مقدمہ درج کیا گیا ہے۔عدالت نے عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ریاست اور مدعی مقدمہ کو 9 جون کیلئے نوٹس جاری کر دیا۔عدالت نےکہا کہ پٹیشنر عدالتی پالیسی کے مطابق کیش شورٹی ضمانت جمع کرانے میں آزاد ہے۔ عدالت نے ایمان مزاری کو ہر تاریخ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت بھی کی۔عدالت نے سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کیا کہ پٹیشنر کے مطابق بدنیتی کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی جس کا مقصد تضحیک کرنا ہے۔حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ پٹیشنر کے وکیل کے مطابق مقدمے میں گرفتاری کا خدشہ ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ریاست اور مدعی مقدمہ کو 9 جون کے لیے نوٹس جاری کیا اور ان سے جواب طلب کیاہے۔ہائی کورٹ میں پٹیشنر ایمان مزاری کے مطابق ایف آئی آر بدنیتی کے تحت درج کرائی گئی جس کا مقصد تضحیک کرنا ہے ایمان مزاری پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کی بیٹی ہیں قانون شکنی اگر کوئی عام آدمی بھی کرے تو قابل معافی عمل نہیں۔قانون شکنی کوئی قانون دان کرے تو اسے غلطی ہرگز نہیں قرار دیاجاسکتا کیونکہ وہ جانتاہے قانون اور آئین پاکستان میں کسی جگہ بھی یہ گنجائش نہیں کہ قانون شکنی پر معاف کردیاجائے۔قانون سے لاعلمی عذر نہ ہے یہ مقولہ ہر روز عدالتوں قانون دان دھراتے نظر آتے ہیں مگر بدقسمتی سے عمل نہ ہونے کے برابرہے قانون شکنی پر قانون دان کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کی حمایت میں درجنوں سامنے آجاتے ہیں جس سے انصاف کے نظام پر سوالات اٹھتے ہیں۔گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک خاتون وکیل اور انسانی حقوق کی خود ساختہ علم بردار ایمان مزاری نے اپنی والدہ اور پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ وزیر شیریں مزاری کی دن کی روشنی میں اپنے گھر کے باہر سے محکمہ اینٹی کرپشن کی کارروائی پر پاک فوج کے سربراہ افواج پاکستان کو بلا وجہ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے گالیاں دیں ان کی گالیوں کی ویڈیو فوٹیج سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی۔گو کہ اسلام آباد ھائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مداخلت پر شیریں مزاری کی گلوخلاصی ہوئی مگر بدقسمتی سے ایمان مزاری اور انکی والدہ نے اپنی دانستہ حرکت پر نادم ہو نے کے بجائے فوج کو اس معاملے میں بلاوجہ بغیر کسی ثبوت کے گھسیٹنے کی روش برقرار رکھی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اعلئ عدلیہ نے قانون اور آئین میں شہری کے حقوق کی تو تشریح خوب فرمائی مگر درخواست گزار ایمان مزاری کی طرف سے پاک فوج کے سربراہ کے خلاف بےبنیاد الزامات لگانے پر سرزنش تک نہ کی جس پر ایف آئی آر میں نامزد ملزمہ رہائی کے بعد بھی گرفتار کرنے والوں کا تعلق آئی ایس آئی سے جوڑنے پر مصر نظرآئی۔ایمان مزاری پہلے بھی ایسی حرکت متعددبار کر چکی ہیں اور خاتون وکیل ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاکر عدالتوں میں معصوم بن کر ریلیف لیتی رہتی ہیں ۔ابھی اسی سال اس کے خلاف اسلام آباد ھائیکورٹ کے فاضل جج جسٹس اطہرمن اللہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر قانون شکنی پر اسلام آباد پولیس کی طرف سے درج ایف آئی آر ختم کی مگر ایسا لگتاہے خاتون وکیل سمجھتی ہے کہ اسلام آباد کی عدلتوں سے ریلیف لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جس سے عدالتوں پر سوال اٹھتے رہیں گےبنیادی بات یہ تھی کہ آخر شیریں مزاری کو گرفتار کیوں کیا گیا۔ یقینی طور پر ان کیخلاف کوئی کیس ہوگا۔ وہ درست ہے یا غلط اس کا پتہ تو چل جائے گا۔ ابتدائی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پرانا معاملہ ہے‘ یہ راجن پور کا کیس ہے۔ زمین کا تنازعہ ہے۔ جب ان کے والد نے یہ زمین کسی اور نام منتقل کی تھی۔ بہت سے حقائق‘ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں منظر عام پر آجائیں گے۔ اس میں جو بات زیادہ اہم اور قابل غور ہے وہ یہ کہ جب وہ عدالت میں داخل ہورہی تھیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے اہلکاروں نے بتایا تھا کہ ا نہیں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے حکم پر گرفتار کیا گیا ہے‘ لیکن عدالت سے ریلیف کے بعد باہر آکر انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں ایجنسیوں کے ذریعے گرفتار کرایا گیا۔ اس طرح وہ اپنے اس بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں، جس کے تحت عمران خان اور پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی ایماء پر اسٹیبلشمنٹ نے امریکی سازش کے تحت عمران حکومت گرانے میں معاونت کی۔ یہ کتنی ذمہ داری کی بات ہے کہ بعض اندازوں کے تحت ہی کسی پر یہ الزام دھر دیں۔ یہ ہماری سیاست میں بہت منفی رجحان چل پڑا ہے کہ کوئی نہیں تو ایجنسی ہوگی۔ یہ بہت غلط روایت ہے۔ ایمان مزاری نے بھی اس سے پہلے جو بیانات ٹوئٹر پر دیئے وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے محض غیر ذمہ داری سے بات کی۔ بہرطور پاکستان کے اداروں نے ہی انہیں فوری ریلیف فراہم کیاپایمان مزاری اور شیریں مزاری کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ بغیر ثبوت کے وہ اندھا دھند بنا سوچے سمجھے اور ان کے مضمرات پر نظر رکھے بغیر بس اپنی بات کہتی جاتی ہیں۔ غیر ذمہ داری اور وہ بھی ذمہ دار لوگوں سے ہو تو اس پر افسوس ہوتا ہے۔خیال رہے کہ شیریں مزاری کو 21 مئی کو ان کے گھر کے سامنے سے ان کی گاڑی سے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ ایمان مزاری نے اسے اغوا قرار دیتے ہوئے اس کا الزام فوج کے سربراہ پر عائد کیا تھا۔ ایمان مزاری کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔اسلام آباد آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی درخواست پر انہیں رات ساڑھے 11 بجے پیش کرنے کا حکم دیا’۔شیریں مزاری کی بیٹی نے عدالت سے استدعا کی کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیں اور چیف جسٹس نے حکم دیا کہ شیریں مزاری کو رہا کردیا جائے اور اس کی تحقیقات کی جائیں شیریں مزاری کی گرفتاری پرایمان نے فوج کوگالیاںدیںسوشل میڈیاپر ایمان مزاری نام لیکر آرمی چیف اور فوج کے ادارے کیخلاف بغیر تحقیق کے گندی اور غلیظ زبان استمعال کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ یہ کارروائی حکومت کی نہیں بلکہ فوجی ادارے کی ھے ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ.مرد پولیس اہلکار میری ماں کو مارتے ہوئے لے گئے:جبکہ ٹی وی کی رپورٹ اور فوٹیج میں سب الزاماٹ جھوٹ اور غلط ثابت ہوئے۔۔آخر اس الزام تراشی اور حساس ادارے کے سربراہ کوگالیاں دینےپر قانون حرکت میں آئے گا یا محض تماشائی بن کر اداروں کو بے توقیر کرنے پر بھی خاموشی رہےگی؟سوشل میڈیاپر ایمان مزاری نام لیکر آرمی چیف اور فوج کے ادارے کیخلاف بغیر تحقیق کے گندی اور غلیظ زبان استمعال کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ یہ کارروائی حکومت کی نہیں بلکہ فوجی ادارے کی ھے سیاستدانوں اور یوتھ کا وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ آئے دن فوج کے خلاف غلیظ زبان استمعال کر کے مہذب ہونے کا ڈرامہ کرتےہیں اور انکے غیر زمہ درانہ الزامات پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی شیریں مزاری کی بیٹی نے نام لیکر آرمی چیف اور پوری فوج کو سرعام ننگی گالیاں دے کر واقعہ میں ملوث کرکے برابھلا کہاگیاجبکہ ٹی و ی فوٹیج کے بعد حقیقت واضع ہوگئی مگر افسوس صدکہ اسلام آباد ھائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر اطہرمن اللہ نے رات گئے عدالت لگاکر شیرین مزاری کو طلب کروالیااوررہائی کا حکم دے دیامگر فوج پر بے ہودہ الزامات عائد کرنے والی پیٹیشنر ایمان مزاری کی سرزنش تک نہ کی۔جس پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتاہے قانون اندھا ہوتاہے۔۔شائد کبھی اپنا رستہ بھی بنا لےگا اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اعلئ عدالت کو قانون کی حکمرانی ثابت کرنا ہو گی تاکہ ادروں کے خلاف ننگی گالیاں دینے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ایسی سزا دی جائے جو دوسروں کیلئے مثال بن جائے سنا ہے کہ قانون اندھا ہوتاہے ۔اب یہ تاثر بھی ختم ہونا چاہیے کہ عدالتیں چہرے دیکھ کر فیصلے کرتی ہیں۔قابل ذکر حقیقت یہ ہے کسی بھی اینکر۔صحافی۔ تجزیہ نگار یا ساسی شخصیت نے فوج کے سربراہ جنرل باجوہ اور فوج کے پر بلا وجہ الزامات اور تنقید پر ایک لفظ بھی مذمت کا ادا نہیں کیا جس سے ان سقراط اور بقراط نما شخصیات کی پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ عقیدت و محبت ایک سوالیہ نشان ہے جو کہ از خود آزاد میڈیا کے ذمہ داروں کیلئے بھی لحمہ فکریہ ہے اللہ انہیں ہدایت دے اور اللہ اس ملک کا حامی و ناصررہے ۔۔آمین۔۔۔۔پاک فوج زندہ باد۔۔پاکستان پائندہ باد۔۔۔