افواج پاکستان کے عوامی فلاح و بہبود کے قومی منصوبے

 
0
172

اندر کی بات؛ کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 23 جون 2022 (ٹی این ایس): پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی آخر کارفعال ہوگئی ہے۔ وہ تو بھلا ھو پاک فوج کا جس کی قیادت کی دور اندیشی سے ہر قسم کی بربادی سے ملک بچتارہاہے افواج پاکستان کے عوامی فلاح وسلامتی کے منصوبے آج جاری وساری ہیں پہلی مرتبہ روایتی فوجی سلامتی کو انسانی فلاح و بہبود کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور اقتصادی سلامتی پر بنیادی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے،جس کا نتیجہ لازمی طور پر انسانی سلامتی کو پاکستان میں عمل پیرا کرنے اور ایسی تدابیر کو اپنانے پر مرکوز ہوگا جس سے عوامی معاشی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے..گزشتہ 75 سالوں سے پاکستان قومی سلامتی کی پالیسی کے بغیر موجود تھا، پھر بھی بھارت کے ساتھ چار جنگوں، 1990 کی دہائی میں جوہری تجربات، دہشت گردی کے خلاف جنگ او امریکا کی جانب سے پابندیوں سے بچ گیا کئی معاشی خرابیوں و کوتاہیوں کے باوجود پاکستان بحیثیت ایک خود مختار ’اسلامی‘ ملک کہلانا پسند کرتا ہے،گو کہ اس 75سالہ تاریخ میں قومی سلامتی کے مطالبات کی بنا پر انسانی و عوامی وسائل کے فروغ اور ان کی ترقی پر دھیان نہیں دیا وہ تو بھلا ھو پاک فوج کا جس کی قیادت کی دور اندیشی سے ہر قسم کی بربادی سے ملک بچتارہاہے افواج پاکستان کے عوامی فلاح وسلامتی کے منصوبے آج جاری وساری ہیں 62 صفحات پر مشتمل این ایس پی کا غیر مصرحہ حصہ قومی سلامتی کے فریم ورک کی وضاحت کرتا ہے، اس کے نفاذ کے اصولوں کو بیان کرتا ہے،

قومی ہم آہنگی کو تقویت دینے، ملک کے اقتصادی مستقبل کو محفوظ بنانے، اس کے دفاع، علاقائی سالمیت اور پاکستان داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی کو رہنما اصول دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی بدلتی ہوئی دنیا میں خارجہ پالیسی اور انسانی سلامتی کے لیے رہنما اصول دینے کی بھی کوشش کی گئی۔ ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ظاہر ہوگا کہ جس طرح سے اسے تیار کیا گیا ہے،اس میں ’امن‘، ’جیو اکنامکس‘ اور’مکمل‘ جیسے ظاہری طور پرمتوجہ کرنے والے دعوے ، پوشیدہ معنی اور حکومت کا نقطہ نظر سمجھنے کے لیے کافی ہے۔پالیسی کا دعویٰ ہے کہ ’تمام اسٹیک ہولڈرز‘ یا شراکت داروں میں اتفاقِ رائے اس پالیسی کا لب لباب ہے، لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر اور ان کا ڈویژن پارلیمنٹ کو ‘تمام اسٹیک ہولڈرز’ کے نظام کا حصہ نہیں مانتے۔ نئی پالیسی گزشتہ 75 سالوں میں پہلی بار تشکیل دی گئی ہے،پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ’معاشی تحفظ‘ کو یقینی بنائے بغیر ’’روایتی تحفظ‘‘ یعنی دفاع ممکن نہیںہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روایتی سیکورٹی کے بوجھ تلے ایک کمزور معیشت پاکستان میں پہلے ہی منہدم ہو چکی ہے۔ اور فوجی سیکورٹی بھی بڑھتے ہوئے دباؤ میں آ تی چلی جارہی ہے۔سادہ اور واضح الفاظ میں، انسانی سلامتی، ریاست کی سلامتی کے برعکس، لوگوں کے بنیادی حقوق کی بنیاد پر ان کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن کسی بھی قسم کی تبدیلی کی اس بنیادی خصوصیت کا ذکر اتفاقی اور سطحی طور پر ہی پالیسی میں کیا گیا ہے، اور وہ بھی دستاویز کے آخری باب میں۔ پانچ ابواب صرف روایتی سلامتی اور اس سے متعلق دیگر معاملات سے متعلق ہیں، ایک اور باب خارجہ پالیسی کا احاطہ کرتا ہے اور ایک باب اقتصادی سلامتی سے متعلق ہے دستاویز میں بلاشبہ پاکستان کے دفاع پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں میں بڑھتے ہوئے عدم توازن پر تشویش بھی ظاہر کی ہے اور معیشت کی ترقی میں ازالہ ضروری شرائط کے طور پر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگر ایک منحصر اور کمزور معیشت کے تضادات اور مطالبات بنیادی ہیں تو پہلے انہیں درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے پھر منطقی طور پر روایتی سلامتی کے تمام پہلوؤں کو معاشی ضروریات کے تابع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو پرامن بقائے باہم، مفید اقتصادی تعاون، اور طویل وصبر آزما مذاکرات کے ذریعے ہی ’’بنیادی مسائل کی بحالی اور ان کے ممکنہ حل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ تمام پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کے پرامن حل، سرحدوں کے پار باہمی طور پر فائدہ مند تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور اقتصادی باہمی انحصار کو مضبوط بنانے کے لیے اقتصادی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جیو اکنامکس پورے خطے کے لیے اہم ہے، تو اسے ہر ایک مخالف کی مخالف جغرافیائی۔تزویراتی (جیواسٹریٹجک) ضروریات سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس کا مطلب کسی بھی طرح پاکستان کی علاقائی سالمیت اور آزادی پر آنکھیں بند کرنا نہیں ہے۔ وسیع حفاظتی کاروباروں اور وسیع حفاظتی ایجنڈوں کی اجازت دینے کے بجائے اپنے دفاع کے لیے ایک سرمایہ کاری کا مؤثر طریقہ تلاش کیا جا سکتا ہے تاکہ اسے محدود ذرائع میں رکھا جا سکے۔ پاکستان تب ہی مضبوط ہو سکتا ہے جب اس کے عوام اور آنے والی نسلوں کی انسانی سلامتی اور آزادی محفوظ ہو۔ اقتصادی سلامتی جو بہت بنیادی ضرورت ہے، اسے علاقائی تنازعات کی بجائے علاقائی تعاون اور اقتصادی شراکت داری سے زیادہ فروغ دیا جاسکتا ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کو پائیدار اور شراکتی ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 17 SDG اہداف کوحاصل کرنے اور عوامی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

اقتصادی تحفظ کی تجویز میں جو بات آسانی سے پوشیدہ رکھی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ وسائل اور آمدنی کیسے اور کہاں سے حاصل ہوںگے اورپاکستانی عوام کے معیار ِزندگی کو بلند کرنے کے لیے انسانی سلامتی کی ترجیحات کے مطابق یہ رقم کیسے تقسیم کی جائے گی۔ پالیسی میں ایک نئے سول- ملٹری شراکت دار ی کے پس منظر میں، نئی سیکیورٹی پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے ایک پوری نئی حکومتی ایجنسی متعارف کرائی گئی ، جو شاید آئینی طور پر حکومت سے زیادہ وسیع اور طاقت ور ہوگی سپریم کمیٹی ہو سکتا ہے کہ حکومت سے زیادہ طاقت ور اور با اختیار ہو ساتھ ہی اس کے کسی کو جوابدہ ہونے کے امکانات بھی بہت کم ہوں۔خارجہ پالیسی پر بھی، این ایس پی سرد جنگ کے دور کے تجربات اور بھارت مخالف تقسیم کے نامکمل ایجنڈے سے دوچار نظر آتی ہے،جبکہ اس طرح کا موقف اپنانے سے یہ ہندوتوا کے غیر سنجیدہ ایجنڈے کی تکمیل کرتی نظر آرہی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ امریکا کے ساتھ وسیع البنیاد شراکت داری ہو جو پاکستان کی پانچویں اور چھٹی دہائیوں کے دوران تھی پاکستان سے امریکا اور بھارت کے تعلقات کو الگ کرنے اور ایشیا -پیسیفک کے خطے میں بھارت کے ساتھ اپنی سٹریٹجک شراکت داری کو مستحکم کرنے کے بعد، امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو افغانستان میں جنگ کے نتیجے تک محدود رکھنے پر اصرار کرتا نظرآ رہا ہے اور مستقبل کے علاقائی منصوبے میں وہ پاکستان کو کوئی بھی مرکزی کردار دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ہے۔ پہلی مرتبہ پر یہ تسلیم کیا گیاکہ جب تک آپ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی نہ بنائیں تب تک آپ قومی ترقی اور قومی دفاع کے مطالبات کو غیر جانبداری کے ساتھ اور عوامی فلاح و بہبود کو فروغ نہیں دے سکتے۔اب تک کی پالیسیوں اور بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ پاکستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے پابند نظر آرہے ہیں اور وہ ایسے نئے تجربات کرنا چاہتے ہیں جس سے کہ عوامی ترقی اور خوشحالی کو آپ قومی ترقی اور خوشحالی میں تبدیل کرسکیں، لیکن ان کو پاکستان میں جن عناصر کا مقابلہ ہے، ان کی سوچ یہی رہی ہے کہ آپ عوام کی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر صرف اپنی یعنی ملٹری-

سیاسی اتحاد کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں۔ان کی ترجیحات میں عوامی فلاح و بہبود سب سے آخری ترجیح نظر آتی ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں جس طرح پاکستانی سیاسی جماعتوں نے ملک کے وسائل کو اپنی ذاتی ترقی کے لیے استعمال کیا ہے اور ایسا نظام بنانے میں کامیاب رہے ہیں جس میں سیاسی اتحاد ہمیشہ سب سے آگے رہے،افواجِ پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی اور اخُّوت ملی کی مثالی فضا برقرار رکھی ہے۔ افواج پاکستان قومی مساوات و یگانگت کی ایک زندہ تصویر ہیں۔ ان کی صفوں میں ہر صوبے اور خطے کے افرادکی شمولیت کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ افواجِ پاکستان کے افسر اور جوان علاقائی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہو کر دفاعِ وطن اور مشکل حالات میں فرائض کی ادائیگی کے لئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ مصروف عمل رہتے ہیں عساکرِ پاکستان اپنے ہموطنوں کے لئے تن من دھن کے ساتھ مصروف خدمت ہیں اور اپنے اعلیٰ نظم و ضبط کی بناء پر قومی وحدت اور ملی اتحاد کے لئے منفرد شناخت رکھتی ہیں افواج پاکستان وا حد ادارہ ہے جِس کا وقار اور بے لوث خدمات پوری دنیا میں مسّلم ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ افواجِ پاکستان نے ملک کے پس ماندہ ا علاقوں کی نمائندگی پر بھرپور توجہ دی ہے۔پاک فوج بلوچستان اور فاٹا کے سینکٹروں نوجوانوں کو فنی تعلیم فراہم کررہی ہے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو کمیشن حاصل کرنے آسانی بہم پہچانے کے لئے آئی ایس ایس بی کے امتحانات کے انتظامات وہیں پر کئے گئے ہیں جس سے بلوچی نوجوان دفاعِ وطن کے لئے کمیشن پا کر افواجِ پاکستان میں شامل ہورہے ہیں۔ فوج جہاں سلامتی کے معاملات کو سنجیدگی سے لیتی ہے، وہیں ان کی توجہ تمام صوبوں کی نمائندگی پر رہتی ہے۔ گزشتہ چندسالوں میں ہزاروں بلوچ نوجوان فوج میں شامل ہوہے۔ پاک فوج کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں لے کر چلیں ۔ جہاں یہ عمل ان خاندانوں کی معاشی بہتری کے لیے معاون ثابت ہو گا وہیں اس سے بہت سے وسوسے ختم ہو جائیں گے۔ فاٹا میں ہزاروں کلومیٹر سڑکوں کی تعمی. آبی منصوبوں.سکولوں و کالجوں کی تعمیر جبکہ صرف کوہلو اور ضلع بگٹی کے اضلاع کی ترقی پردس ارب روپے خرچ کئے گے ہیںضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم اتفاق واتحاد اور برداشت کے ایسے ہی جذبے کا مظاہرہ کرے اور مخالف قوتوں کی ہر سازش کو قومی یکجہتی کے جذبے سے مات دے دیں۔ عدم برداشت اور معتصّبانہ سازشوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد سے ہی ہم نہ صرف تعصب کے زہر کا تریاق کر سکتے ہیں بلکہ اخُّوتِ ملی کی ایک عمدہ مثال پیش کر سکتے ہیں۔پاک فوج عسکریہ پاکستان کی سب سے بڑی شاخ ہے۔ اِس کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدوں کا دِفاع کرنا ہے۔

پاکستان فوج کا قیام 1947 میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔ یہ ایک رضاکارپیشہ ور جنگجو قوت ہےپاک عسکریہ ایک نہایت منظم ادارہ ہے جس میں اختیاری طاقت کا ایک مکمل اور متوازن نظام موجود ہے۔ پاکستانی معاشرے میں پاک عسکریہ کو بے پناہ عزت حاصل ہے۔ عوام اس ادارے کو اپنی حفاظت کا ذمہ دار اور اپنی قربانیوں کا امین تصور کرتی ہے۔پاک فوج کی تنظیم ایسی ہی ہے جیسا کہ عام طور پر پوری دنیا میں ہے۔ اس کی کمیشنڈ یافتہ عہدے سکینڈ لیفٹینٹ سے شروع ہوتے ہیں۔ پاکستان کے دفاع کا ذمہ دار ادارہ عسکریہ پاکستان یا پاکستان مسلح افواج ہے۔ پاکستان مسلح افواج کو پاکستان کا سب سے منظم اور ترقی یافتہ ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تین بڑے حصے پاک فوج, پاک فضائیہ اور پاک بحریہ ہیں,افرادی قوت کے لحاظ سے پاکستان فوجی افرادی قوت کے اعتبار سے 7 ویں نمبر پر ہے۔ اگر نیم فوجی اداروں کے افراد بھی شامل کر لیے جائیں تو پاک عسکریہ کی مضبوط افرادی قوت ایک ملین تک پہنچ جاتی ہے۔پاک فوج عسکریہ پاکستان کی سب سے بڑی شاخ ہے۔ اِس کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدوں کا دِفاع کرنا ہے۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 243کے تحت، پاکستان کے صدر افواج پاکستان بشمول پاکستانی بری فوج، کے سویلین کمانڈر ان چیف یا سپاہ سالار اعظم کا منصب رکھتے ہیں۔ آئین کے مطابق صدرپاکستان، وزیر اعظم پاکستان کے مشورہ و تائید سے چیف آف آرمی سٹاف پاکستان آرمی یا سپہ سالارپاکستان بری فوج کے عہدے کے لیے ایک چار ستارے والے جرنیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ فی الوقت پاک فوج کی قیادت جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف آرمی سٹاف کر رہے ہیں، جبکہ جنرل زبیر محمود حیات چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی زمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔1947ء میں آزادی کے بعد سے پاک فوج بھارت سے 4 جنگوں اورمتعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے چکی ہے۔ عرب اسرائیل جنگ، عراق کویت جنگ اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امداد کے لیے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ گزشتہ کچھ ایام سے سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس میں بے شمار خود ساختہ اعدادوشمار کے ذریعے عسکری فلاحی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے مبالغہ آمیز اور قیاس آرائیوں پہ مشتمل ایک نام نہاد تجزیہ پیش کیا گیا، جس میںافواجِ پاکستان کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بے بنیاد الزامات کا سہارہ لیا گیا- * فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفئیر ٹرسٹ*
یہ شہداء اور دوران سروس وفات پانے والے افراد کے لواحقین کی فلاح و بہبود کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے دوران زخمی یا معذور ہو جانے والے اور ریٹائرڈ ملازمین کو باعزت روزگار فراہم کر رہا ہے جس کا تخمینہ 10 ارب روپے سالانہ ہے-
لہٰذا اس بات کو سراہا جانا اشد ضروری ہے کیونکہ اگر فوجی فاؤنڈیشن اس فلاح و بہبود کے لیے یہ کام نہ کر رہی ہوتی تو حکومتی بجٹ پر سالانہ 10 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑتا۔
علاوہ ازیں، فوجی فاؤنڈیشن 74 طبی سہولیات چلاتی ہے جو کہ فوجی ارکان اور ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ پاکستان کی 5 فیصد آبادی تقریبا 90 لاکھ افراد کی صحت کی ضروریات کو بھی پورا کرکے حکومت پاکستان کے بوجھ کو کم کررہا ہے۔
فوجی فاؤنڈیشن اور ای ڈبلیو ٹی فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ذریعہ معاش بھی فراہم کرتا ہے جس سے ایک کثیر تعداد میں سولین افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ ان اداروں میں کام کرنے والے 83 فیصد افراد سولین ہیں ۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنے وسائل کو فلاحی کاموں میں لگانے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ اپنی آمدنی پر قانون کے مطابق ریاست پاکستان کو ٹیکس بھی ادا کرتا ہے۔ صرف فلاحی کاموں میں استعمال ہونے والے وسائل اور آمدنی پہ ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے اور تمام کمرشل سرگرمیوں میں فوجی فاؤنڈیشن کے دیگر کمرشل ادارے باقی تمام کارپوریشنز کی طرح ہی مختص کردہ ٹیکس ادا کرتے ہیں – جیسا کہ
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق گزشتہ سال فوجی فاؤنڈیشن نے 150 ارب روپے کے ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرائے-
فوجی فاؤنڈیشن نے گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت کو ٹیکس اور لیویز کے طور پر 1 ٹریلین روپے ادا کیے ہیں ۔
اسی طرح آرمی ویلفیئر ٹرسٹ نے گزشتہ سال تقریباً 2.54 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ بحریہ فاؤنڈیشن
یہ ادارہ ( جوجنوری 1982 میں حکومت پاکستان نے انڈومنٹ ایکٹ کے تحت ایک خیراتی ٹرسٹ کے طور پر قائم کیا تھا) اپنے فنڈز خود پیدا کرتا ہے اور اسے کسی بھی قسم کا حکومتی فنڈ یا امداد حاصل نہیں ہے۔ بحریہ فاؤنڈیشن نے 2005 کے زلزلے کے دوران زبردست کام کر کے اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا۔ یہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک عوامی فلاحی ادارہ ہے جو نہ صرف شہدا اور جنگ میں زخمی افراد کے لواحقین کی فلاح و بہبود میں کردار ادا کر رہا ہے بلکہ ایک بڑی تعدار میں سویلینز بھی بحریہ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں * شاہین فاؤنڈیشن*
یہ پاکستان ایئر فورس کا فلاحی ادارہ ہے، جو چیریٹیبل انڈومنٹ ایکٹ کے تحت 1977 میں قائم کیا گیا- اس کا قیام ریٹائرڈ پی اے ایف اہلکاروں، شہداء اور عام شہریوں کی فلاح وبہبود م کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ شاہین فاؤنڈیشن، تعلیم، صحت، انجینئرنگ، خدمات، پیداوار، تعمیراتی کام، اشتہارات اور ہاؤسنگ وغیرہ کے شعبوں اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ اس کے 3000 سے زائد ملازمین میں سے صرف سات سو سابق پی اے ایف اہلکار ہیں جو کل تعداد کا تقریباً 23 فیصد بنتے ہیں۔ * نیشنل لاجسٹک سیل*
یہ ادارہ جنگ کے دوران مسلح افواج کے لیے ریزرو ٹرانسپورٹیشن کے انتظام کے لیے مادر وطن کی سٹریٹجک ضرورت ہے۔ اس میں 6500 سے زیادہ عام شہری اور سابق فوجی ملازم ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں نیشنل لاجسٹک سیل نے ملک بھر میں محفوظ نقل و حمل اور ضروری اشیاء کی تیز رفتار ترسیل کو کامیابی سے انجام دیا ہے۔ نیشنل لاجسٹک سیل میں حاضر سروس فوجیوں کا تناسب بہت کم ہے جو کہ تقریباً 12 فیصد ہے۔ باقی 88 فیصد ملازمین عام سویلین شہری ہیں۔ایس-سی-او
سپیشل کمیونیکیشن اورگنائزیشن کا بنیادی مقصد شمالی علاقہ جات، آزاد کشمیر کے مشکل حطوں تک معلوماتی نظام اور ٹیکنالوجی کی رسائی ممکن بنانا ہے۔ کسی اور نظام کی غیر موجودگی میں ایس سی او ان مشکل علاقوں میں بھی ترسیلات معلومات کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن
یہ ادارہ 1966 میں اپنے قیام کے بعد سے مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہاہے
اور لائن آف ڈیوٹی میں اب تک 1300 سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکا ہے۔
فرنٹئر ورکس آرگنائزیشن مختلف تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کر رہا ہے جن میں سڑکوں، ریلوے لائنوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر، ڈیموں، نہروں اور بیراجوں کی تعمیر، ٹنلنگ/کان کنی، اور رہائشی اور صنعتی انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہیں۔
فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن پیشہ ورانہ طور پر ایک قابل اور منظم ادارہ ہے، جو میرٹ پر ٹینڈرز حاصل کرتا ہے اور معیاری تعمیراتی کام خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہا ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی ریکارڈ وقت میں کرتارپور بارڈر کراسنگ کی کامیاب تعمیر اور افتتاح ہے۔
یہاں ایک مفروضہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ تمام تر پراجیکٹس FWO کو دے دیے جاتے ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں FWO نے 126 پراجیکٹس کا ٹینڈر حاصل کرنے کے لیے بولی میں حصہ لیا جن میں سے صرف 34 ٹینڈر FWO کو ملے جو کل پراجیکٹس کا 26 فیصد ہے باقی 74 فیصد پراجیکٹس دوسری کمرشل کمپنیوں کو ملے۔
علاوہ ازیں، یہ تنظیم آپریشنل علاقوں کے انتہائی ناگزیر حالات اور سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر حساس مقامات پر میگا سول انجینئرنگ پراجیکٹس چلا رہی ہے جہاں سنگینی حالات اور سکیورٹی خدشات کے باعث پرائیویٹ اور سول کنسٹرکشن کمپنیاں کام کرنے سے گریز کرتی ہیں-
ریاست کی طرف سے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق، یہ تنظیم پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین کے مطابق بولی کے ذریعے پروجیکٹس حاصل کرتی ہے ان میں سے بہت سے قومی معیشت کی ترقی اور عوامی آسانی کے لیے گراں قدر منصوبے ہیں جن میں مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر، تمام تر مشکلات اور خطرات کے باوجود، حکومت پاکستان کی طرف سے ذمہ داری ملنے پر، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے صرف 40 دنوں میں اسلام آباد میں متعدی بیماریوں کے علاج کے لیے خصوصی ہسپتال کی تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں سڑکوں کا جال، M-8، N-85 اور سکھر بیراج کی بحالی قابلِ ذکر ہیں۔
اس ادارے کا سب سے شاندار کارنامہ قراقرم ہائی وے (KKH) کی تعمیر ہے جو آج چین پاکستان اقتصادی راہداری اور دیامیر بھاشا ڈیم کی کامیابی کے لیے جاری قومی منصوبوں میں ایک سنہرے تاج کی حیثیت رکھتی ہے۔
اگر ان تمام حقائق کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس بنیاد پہ ان اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاری ہے وہ بنیاد ہی جھوٹ اور مبالغہ آرائیوں پہ مشتمل ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ در حقیقت یہ ادارے اپنے وسائل و ذرائع پیدا کرنے کے لیے خود مختار ادارے ہیں جن کا بنیادی مقصد شہداء کے لواحقین کی فلاح ، جنگ میں زخمی و معذور افراد، ریٹائرڈ ملازمین اور بڑی تعداد میں عام شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ یہ تمام ادارے ریاست کی جانب سے مختص کردہ تمام ٹیکسز بروقت ادا کر کے ملکی خزانے میں بھی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ لاکھوں لوگوں کے علاج ، تعلیم اور ملازمت کی سہولیات مہیا کر رہے ہیں-آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے گزشتہ سال فوجی فائونڈیشن ہیڈکوارٹرز راولپنڈی کے دورے میں 100بستروں کے اسپتال اور نرسنگ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح کیا۔ فوجی فائونڈیشن ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود کے لئے قائم ادارہ ہے جس سے لاکھوں سویلین بھی مستفید ہورہے ہیں۔ اس ادارے کے موجودہ منیجنگ ڈائریکٹر وقار احمد سمیت 71فیصد ملازمین سویلین اور 29فیصد ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ اسے ایسا ادارہ کہا جاسکتا ہے جس سے ہر پاکستانی قلبی لگائو رکھتا اور جس کی کارکردگی کو سراہتا ہے۔ بری فوج کے سپہ سالار کو اس دورے میں فوجی فائونڈیشن کے جاری اور مستقبل کے منصوبوں سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی فائونڈیشن کی خدمت، کارکردگی اور عزم کی تعریف کی اور انتظامیہ کو مستقبل کے حوالے سے بھرپور معاونت کی یقین دہانی کرائی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1954ء سے قومی خدمت میں مصروف مذکورہ ادارہ نہ صرف فلاح و بہبود کے امور میں سابق فوجیوں کے علاوہ عام شہریوں کے لئے بھی قابل قدر خدمات انجام دے رہا ہے بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو محاصل کی صورت میں معقول سرمایہ فراہم کررہا ہے۔ پچھلے برس اس ادارے نے ٹیکس، ڈیوٹی اور لیویز کی مد میں 175؍ارب روپے ادا کئے جو ملکی بجٹ کا دو اعشاریہ چار پانچ فیصد ہے۔ دس برسوں میں ساڑھے تیرہ سو ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے۔ 100بستروں پر مشتمل اسپتال اور انسٹی ٹیوٹ اسکول آف نرسنگ فوجی فائونڈیشن کے فلاحی اداروں میں نیا اضافہ ہیں جن سے انتہائی معیاری طبی خدمات اور اعلیٰ تربیت کی حامل نرسوں کی تیاری کی توقعات وابستہ ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ ادارے بھی فائونڈیشن کے دیگر اداروں کی طرح بہترین قومی سرمایہ ثابت ہوں گے