پروین رحمان قتل کیس: پولیس نے حکم عدولی کی انتہا کر دی

 
0
76

سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران آئی جی پولیس اور ایس ایس پی پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ آپ لوگوں نے عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی کی انتہا کردی ہے۔

دوران سماعت صوبائی سیکرٹری داخلہ سعید احمد، آئی جی سندھ غلام نبی میمن اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بد نیتی پر مبنی فیصلے کرتے ہیں اور یہاں آکر اعتراف کررہے ہیں۔ جب ہائی کورٹ نے بری کرنے کا حکم دیا تو نظر بندی کا کیا جواز؟ ۔آپ کو فیصلے پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں، اس طرح کا رویہ ہر گز قابل قبول نہیں۔

عدالت نے کہا کہ اگر ملزمان سے نقضِ امن کا خدشہ ہے تو ملزمان کا سی آر او کہاں ہے؟۔جسٹس کے کے آغا نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر آئی جی آپ پبلک سرونٹ ہیں، کسی حکومت کے ملازم نہیں۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے خلاف پروین رحمان قتل کا ایک ہی مقدمہ درج ہے۔عدالت نے کہا کہ ہم پندرہ پندرہ قتل کے ملزمان کو عدم شواہد پر رہا کردیتے ہیں، ان کے خلاف ایم پی او کیوں نہیں لگاتے؟۔ عدالت شواہد دیکھتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہآپ کو کس نے اطلاع دی کہ ان سے خطرہ ہے؟۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ ملزمان کے حوالے سے انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔ عدالت نے پوچھ اکہ آپ کو کسی ایس ایچ او یا کسی پولیس افسر نے بتایا ؟۔ عدالت نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کا کوئی عذر قابل قبول نہیں۔آپ ملزمان کو جرائم پیشہ کہہ رہے ہیں مگر کوئی شواہد پیش نہیں کرسکے۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ تھوڑی مہلت دے دیں تو کچھ تفصیلات پیش کردیں گے ۔ عدالت نے کہا آپ ملزمان کو سنگین جرائم پیشہ کہہ رہے ہیں، مگر سی آر او دیں۔

ایس ایس پی ویسٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے پاس انٹیلی جنس اطلاعات تھیں، اسی بنیاد پر جرائم پیشہ لکھا گیا۔ جسٹس کے کے آغا نے ایس ایس پی ویسٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ کو یہاں سے جیل کیوں نہ بھیج دیں ؟۔ آپ کو قانون کا نہیں پتا ؟ قانون میں جرائم پیشہ کی تعریف درج ہے۔