قومی وحدت سے دہشتگردی کی نئی لہرپر قابوپانا ممکن ؟

 
0
160

قومی وحدت سے ہی دہشتگردی کی نئی لہرپر قابو پایا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ماضی کے تجربات کو ضرور مدنظر رکھنا ہو گا ،دوسری جانب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے،وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ” ہمیں پہلے اپنا گھر درست کرنا ہے”جو سانحہ کل ہوا ہے، مسجد میں نماز کے وقت اگلی صف میں دہشت گرد کھڑا تھا اور خود کو اڑا دیا، یہ ایک ایسا سانحہ کہ ہمیں یک جہتی کے ساتھ اسی طرح کے قومی عزم کی ضرورت ہے جو 7 یا 10 سال قبل ہوا تھا۔ پشاور میں دہشت گردی کے بدترین واقعے پرانکا کہنا ہے کہ آج سے ڈیڑھ دو سال پہلے جو فیصلہ کیا گیا تھا اس کی ایوان سے منظوری نہیں لی گئی اور وہ تباہ کن ثابت ہوا ہے۔پشاور میں پولیس لائنز کے قریب مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں 100 افراد کی شہادت کے واقعے کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ حالیہ تاریخ میں خیبرپختونخوا میں اس سے پہلے 2016 میں آرمی پبلک اسکول میں حملہ ہوا اور ایسے کئی واقعات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہوئے جہاں قیمتی جانیں دہشت گردی کی نذر ہوگئیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج سے ڈیڑھ دو سال قبل یا اس سے بھی پہلے اسی ایوان میں دو تین دفعہ بریفنگ دی گئی اور واضح طور پر بیان کیا گیا کہ ان لوگوں سے بات چیت ہوسکتی ہے اور یہ امن کے راستے پر آسکتے ہیں اور اس پر مختلف آرا سامنے آنے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ 2010 سے لے کر 2017 تک اس دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی گئی، پیپلزپارٹی کے دور میں یہ جنگ سوات سے شروع ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں اس کا خاتمہ بالخیر ہوا اور ملک میں کراچی سے لے کر سوات تک امن قائم ہوا۔وزیردفاع نے کہا کہ اس دوران افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار ہونے والوں کو بلا کر پاکستان میں بسایا گیا، اس کا سب سے پہلے ثبوت سوات سے آیا، جب وہاں شہریوں نے احتجاج کیا، پھر حال ہی میں وانا میں عوام نے اپنے جذبات کا بڑی شدت سے اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردی کے بیج شروع میں ہم نے خود بوئے، افغانستان میں روس کی مداخلت ہوئی تو ہم نے اپنی خدمات امریکا کو کرائے پر دی اور اس وقت جنرل ضیاالحق حکمران تھے۔


وزیردفاع کا کہنا تھا کہ امریکا فتح کے شادیانے بجاتا ہوا واپس چلا گیا اور ہم 10 سال اس سے نمٹتے رہے اور اسی دوران نائن الیون ہوا اور اس پر ایک دھمکی ملی، وہ اصلی تھا یا نقلی لیکن ہم ڈھیر ہوگئے اور ہم ایک نئی جنگ میں شامل ہوگئے۔افغانستان کی جنگ ہماری دہلیز پر آگئی، ہمارے گھروں، بازاروں، مسجدوں، اسکولوں اور عوامی مقامات پر آئی اور ایک عرصے تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو آج سے دو یا ڈیڑھ سال پہلے لا کر بسایا گیا جو غلط فیصلہ تھا اور ایک ایسی پالیسی کا شاخسانہ تھا جو تباہ کن ثابت ہوا، ان لوگوں نے امن دیکھا بھی نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امن کے گہوارے کے معاشرے میں آکر رہ سکیں گے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ بھارت میں مسجدوں میں نمازیوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہوتا ہے، ہم بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں ہم سب سے بڑی اسلامی مملکت ہیں اور کلمے پر ہماری بنیاد ہے لیکن کیا ہمارے اعمال اس بنیاد کلمے کے مطابق ہے۔وزیردفاع نے کہا کہ مسجد کے اندر نماز کے دوران قتل عام نہ بھارت میں ہوتا ہے نہ اسرائیل میں ہوتا ہے جو ہمارے دشمن ہیں لیکن پاکستان میں ہوتا ہے جہاں جتنے فرقے ہیں، اتنی دینی جماعتیں اور وہ سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آج سے ڈیڑھ دو سال قبل اجلاس میں جو بھی فیصلے کیے گئے وہ اس ایوان سے منظور نہیں ہوئے تھے، یہاں پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی، ہمیں ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ یہ یہ سلسلہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کل جو خون پشاور میں بہایا گیا اس کا حساب کون دے گا، کون ان سپاہیوں کے لواحقین کو بتائے گا کہ ان کے پیارے کس طرح شہید ہوئے، یہ مرحلہ ایسا ہے یہاں پر ہمیں اپنے گریبان پر جھانکنا پڑے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور یہ لوگ کیوں لائے گئے۔ آج بھی اس واقعے کی جس طرح مذمت کی جانی چاہیے، اس طرح کی آواز نہیں آرہی ہے اور اس پر بھی مصلحت سے کام لیا جا رہا ہے، ساری قوم کو متحد ہونا چاہیے، پھر دہشت گردی کا مقابلہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ایک فرقے یا طبقے کی جنگ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی جنگ ہے، یہ کسی ایک مذہب کی بھی جنگ نہیں، ہماری اقلیتیں بھی اس جنگ کا شکار ہوئی ہیں، ہماری حالیہ تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اس جنگ میں کوئی تفریق نہیں ہے، ہر چیز کنفیوژن کا شکار ہوگئی ہے۔وزیردفاع کا کہنا تھا کہ کیا دنیا میں کہیں ہماری اس وجہ سے عزت ہوتی ہے یا دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے کیونکہ ہم آپس میں بھی دہشت گردی کرتے ہیں، اب تو سیاست میں بھی دہشت گردی آگئی ہے، الفاظ کی دہشت گردی آگئی ہے، طرز زندگی اور گفتگو میں دہشت گردی آگئی ہے۔یہ ایوان حکومت کو رہنمائی فرمائے کہ اس دہشت گردی کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے، ہماری افواج نے پہلے بھی امن دیا ہے قوم کو، 83 ہزار شہادتیں ہیں، عوام، فوج، پولیس اور پیرا ملیٹری کی شہادتیں ہیں اور 126 ارب ڈالر اس دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے۔پچھلے 6 سال کے اندر جس طرح قوم کا مزاج بدلا ہے اس کی گواہی سوشل میڈیا میں مل جائے گی، ہم نے 126 ارب ڈالر گنوایا اور ہم 400 اور 500 ملین ڈالر کے لیے ساری دنیا میں بھیک مانگتےہیں، ہم نے اپنا ملک گروی رکھا ہوا ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا اور آج ہماری اور ان کی معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، ہمیں سپرپاورز کا آلہ کار بننے کا شوق بڑا پرانا ہے، 60 اور 50 کی دہائی سے شروع ہوا جب یہاں سے یو ٹو اڑا تھا اور کیا وہ طاقتیں آپ کے ساتھ کھڑی ہیں، کوئی نہیں، اس جنگ میں پاکستان اکیلا ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے احتساب کی ضرورت ہے، بجائے یہ کہ ہم دہشت گردی کا شاخسانہ کہیں اور ڈھونڈیں، اگر انہوں نے بیسز بنائی ہیں یا افغانستان کی سرزمین استعمال ہوتی ہے تو اس میں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ وہ بھی ہماری لائبلیٹی بن جاتی ہے۔ ہم افغانستان کی بہتری چاہتے ہیں، ہمارا برادر ملک ہے، وہاں امن ہوگا تو ہمارے ہاں بھی امن ہوگا لیکن پچھلے 25 یا 30 سال کی تاریخ دیکھیں تو ہم نے وہاں کیا کچھ کیا ہے، ساڑھے 4 لاکھ افغان شہری مصدقہ دستاویزات پر پاکستان آئے اور واپس نہیں گئے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان میں کون دہشت گرد ہے اور کون دہشت گرد نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ تعداد سرکاری ہے، ہمارے یہاں ڈالر کا بحران ہوا تو بوریاں بھر بھر کر ڈالر افغانستان گیا اور ڈالر آسمان پر پہنچ گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ افغان شہری ہیں اور اس کے علاوہ 30 یا 35 لاکھ افغان شہری یہاں ہیں اور افغانستان کی تقریباً 50 لاکھ آبادی کا روزگار پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹرانزٹ ٹریڈ کی اجازت دی ہے، یہ سارا ایک بھائی دوسرے بھائی کے لیے مدد کے لیے کر رہا ہے، دوحہ معاہدے پر انہوں نے دستخط کیے ہوئے ہیں کہ ان کی سرزمین کسی ملک یا کسی ہمسائے کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ افغان طالبان کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ان کے ساتھ جنگ لڑ چکے ہیں اور وہ ان کا قرض اتار رہے ہیں، پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہے ہیں، سرحد پار سے جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اندرونی خلفشار وہ ہمیں لے بیٹھ گیا، کیا ہم اس ایوان میں ایک مقتدرہ ایوان کے اراکین ہیں لیکن کیا ہم اس بات کو دعوے سے سینے پر ہاتھ مار کر کہہ سکتے کہ ہم مقتدرہ ہیں، ہم تو ایک رہن اور گروی رکھی ہوئی قوم ہیں، جس کے اپنے ہاتھ میں اپنا مستقبل نہیں ہے اور ماضی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ تباہی کا یہ سلسلہ اور سفر ہم نے خود طے کیا، ہم نے خود اس منزل کا تعین کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج سے 25، 30 یا 40 سال پہلے ہم امریکا کے حواری نہ بنے ہوتے، میں ان کے ساتھ اچھے تعلقات کا حامی ہوں لیکن ان کے کہنے پر ہمیں جنگیں نہیں لڑنی چاہیے تھی، ان کے دوام یا اقتدار اور ان کے بین الاقوامی اثر و رسوخ کے لیے جنگیں نہیں لڑنی چاہیے تھی۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے اپنا گھر درست کرنا پڑے گا، یہاں اقتدار کے غم میں ایک شخص باولا ہوگیا اور ملک کی تباہی کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے لیکن ہم اس ایوان میں منتخب اور قوم کے رہنما ہیں، ہمیں وہ کردار ادا کرنا چاہیے، جس کا آج کے حالات تقاضا کر رہے ہیں۔ دریں اثنا دہشت گرد حملوں میں اضافے پر بحث کے دوران خاص طور پر پشاور دھماکے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیٹرز نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہیے تاکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی راہ نکالی جائے۔جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویز دی کہ ایک اِن کیمرا اجلاس بلایا جائے جہاں امن و امان کی موجودہ صورتحال کے لیے متعلقہ حکام کو جواب دہ ٹھہرایا جائے۔انہوں نے کہا کہ غریب عوام مسلح افواج، عدلیہ اور پولیس کو اربوں روپے دے رہے ہیں، اس لیے اس کا حق ہے کہ وہ سیکیورٹی اداروں سے پوچھیں کہ اس طرح کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کا تدارک کیوں نہیں کر سکیں۔`مشترکہ اجلاس کی استدعا کی توثیق کرتے ہوئے سینیٹر فدا محمد خان نے کہا کہ پختون کب تک میتیں اٹھاتے رہیں گے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گرد حملوں کے سلسلے اور انتخابات کے انعقاد کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ان سیاسی جماعتوں کو اپنا جائزہ لینا چاہیے جن کے وزرا کے دہشت گردوں سے بیک چینل رابطے تھے، انہیں بھتہ ادا کرتے رہے اور ان کے ساتھ سمجھوتہ بھی کیا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ اعظم نذیر تارڑ نے پی ٹی آئی سے اپیل کی کہ ریاست پر رحم کریں اور حکومت کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ان سے بات کریں۔سینیٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان لانے اور عوام کو اعتماد میں نہ لینے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پشاور سانحے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، حیرت کی بات ہے کہ دہشت گرد نے مسجد اور نماز کے وقت کا انتخاب کیا، ایک طرف ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور دوسری جانب حملے کے لیے مسجد کا انتخاب کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس دہشت گردی کی وجوہات کیا ہیں، حکومت نے جو ٹی ٹی پی کی بحالی کی پالیسی شروع کی یہ اس کی بنیاد ہے کیونکہ جب کابل میں طالبان آئے تو اس کے ساتھ چند ہزار لوگوں کو اسلحہ کے ساتھ پاکستان آنے دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آنے والے طالبان سے متعلق کہا گیا کہ یہ ’گڈ طالبان‘ ہیں اور یہ آئین و قانون کے مطابق کام کریں گے اس لیے ان کی بحالی کی جائے، مگر اس وقت اس سے متعلق نہ پارلیمان اور نہ عوام کو اعتماد میں لیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ اس وقت بھی پارلیمان یہ کہتی رہی کہ مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور یہ تمام باتیں رکھی جائیں تاکہ عوامی رائے سامنے آسکے۔یہ کہنا بھی غلط ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی سے اجازت لی گئی، قومی سلامتی کمیٹی سے اجازت نہیں لی گئی بلکہ صرف مطلع کیا گیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور ان مذاکرات پر پی پی پی اور اے این پی نے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی پارلیمانی اور قومی سلامتی کمیٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، لہٰذا مطالبہ کرتا ہوں کہ ٹی ٹی ٹی کو پاکستان لانے اور عوام کو اعتماد میں نہ لینے سے متعلق پارلیمانی انکوائری ہونی چاہیے۔

رضا ربانی نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کے وقت بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، حکومت اپنی طرف سے مذاکرات کرتی تو بھی اور بات تھی اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ جرگے کو سونپا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ 8 فروری کو ہونے والے مشترکہ اجلاس میں دہشت گردی کی پالیسی کو زیر بحث لایا جائے اور سینیٹ کی کمیٹی کا اجلاس بلا کر تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بلایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے بہت بڑا گلہ ہے، یہاں وفاق کی زندگی اور موت کا سوال ہے لیکن جماعتوں کو سیاست کرنے سے فرصت نہیں مل رہی، لہٰذا تمام سیاسی جماعتیں پارلیمان میں بیٹھ کر قومی ڈائیلاگ کریں۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گزشتہ روز پولیس لائنز کے قریب واقع مسجد میں ہونے والے دھماکے سے شہید ہونے والوں کی تعداد 100 ہوگئی۔ شہید ہونے والوں میں 90 فیصد سے زیادہ پولیس اہلکار تھے، دھماکے کے وقت 300 سے 400 اہلکار مسجد میں موجود تھے۔ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) کے ترجمان محمد عاصم نے 100 افراد کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتال لائے گئے تمام افراد کی شناخت ہوگئی ہے۔اس وقت ہسپتال میں بم دھماکے کے53 زخمی زیر علاج ہیں، جن میں سے 7 کو انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں مجموعی طور پر 157 زخمی لائے گئے تھے جن میں بیشتر کو طبی امداد فراہم کرنے کے بعد گھر بھیج دیا گیا ہے اور اس وقت ہسپتال میں موجود زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی بعد ازاں ایک بیان میں اس کی تردید کی تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس میں ٹی ٹی پی کا مقامی گروپ اس میں ملوث ہوسکتا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ’ایک خود کش بمبار‘ پولیس لائنز میں کیسے داخل ہوا اور مسجد میں چلاگیا۔ پولیس لائنز میں کوئی سینٹرل کمانڈ نہیں ہے اور گیٹ پر چیکنگ کا نظام بہت محدود ہے۔ آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ پولیس لائنز میں کوئی سینٹرل کمانڈ نہیں ہے اور گیٹ پر چیکنگ کا نظام بہت محدود ہے۔وہاں پر کینٹینز ہیں اور تعمیراتی کام بھی ہو رہا تھا اور بظاہر دھماکا خیز مواد کم مقدار میں لایا جاتا رہا ہے اور وہاں پر ایک شکایتی مرکز بھی قائم ہے، جس کی وجہ سے عام عوام کا وہاں آنا جانا رہتا ہے۔حملہ اور سول افراد کے بھیس میں داخل ہوا تھا، عوام کا پولیس لائن میں آنا جانا بہت زیادہ رہتا ہے، جس وقت آیا ہو گا خودکش جیکٹ نہیں پہنا تھا، اندر آنے کے بعد پہنا ہو گا اور مسجد میں گیا ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ 12 کلو سے زائد بارودی مواد استعمال ہوا ہے اور زیادہ نقصان چھت گرنے سے ہوا۔آئی جی کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعلیٰ اعظم خان نے حملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہےیہ ایک انٹر ایجنسی جے آئی ٹی ہوگی جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے حکام شامل ہوں گے، اس ٹیم کی قیادت سینئر ڈی آئی جی کریں گے جن کا تعلق پشاور پولیس سے نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کر رہے ہیں،ٹی ٹی پی کی جانب سے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کے بعد پولیس کو شبہ ہے کہ دہشت گردی میں جماعت الاحرار ملوث ہو سکتی ہے۔ جماعت الاحرار کسی حد تک کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کام کرتی رہی ہے لیکن عمر خالد خراسانی کی موت کے بعد سے دونوں عسکریت پسند گروپ الگ ہو گئے، اسی طرح سے داعش نے بھی کل رات حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا، ہم اس کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ اکثر مبالغہ آرائی پر مبنی دعوے کرتے ہیں، ہم اپنی تحقیقات کو آگے بڑھائیں گے، ہم ان کے دعووں پر اعتبار نہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں پاکستان مخالف عناصر اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گرد بزدلانہ حملوں کے ذریعےعوام میں خوف اور بے چینی پھیلانا اور انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہماری محنت سے حاصل ہوئی کامیابی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو میرا پیغام ہے کہ پاکستان مخالف عناصر کے خلاف متحد ہوجائیں، ہم اپنی سیاسی لڑائیاں بعد کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پشاور کی مسجد میں دہشت گردوں کے خودکش حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس انتہائی گھناؤنے اوربزدلانہ جرم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

15 رکنی سلامتی کونسل کے جنوری کے لیے صدر جاپان کے سفیر اشی کانے کیمی ہیرو کی طرف سے جاری بیان میں متاثرین کے لواحقین اور حکومت پاکستان سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا۔

بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ سلامتی کونسل کے نزدیک دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔

اشی کانے کیمی ہیرو نے کہا کہ اس سانحے کے ذمہ داروں، اس کے لیے مالی معاونت اور سرپرستی کرنے والوں کوانصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے۔

بیان میں تمام ممالک سے اپیل کی گئی کہ وہ بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اس معاملے میں پاکستان کی حکومت اور متعلقہ حکام کی مدد و معاونت کریں۔

سلامتی کونسل کے صدر نے کہا کہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیاں، خواہ ان کا کوئی بھی مقصد ہو اور وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں اور انہیں جس نے بھی انجام دیا ہو مجرمانہ کارروائیاں ہیں اور ان کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔