عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کو قرض کی قسط ملنے کی امیدیں بڑھ گئی جس کی وجہ سے ملک میں ڈالر آنے کی خبروں کے باعث رواں ہفتہ بھی روپے کے لیے بہتر رہا۔
پیر سے شروع ہونے والے کاروباری ہفتے کے آخری روز جمعے کو ایک امریکی ڈالر 263 روپے کی سطح پر رپورٹ کیا گیا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے پر وقتی طور پر دباؤ کم ضرور ہو رہا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں۔ پاکستان کو اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کرنا ہوگا اور ملک میں سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنا ہو گا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق نئے سال 2023 کا دوسرا مہینہ فروری ملکی کرنسی کے لیے بہتر ثابت ہو رہا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے روپے کی قدر میں بے قدری کا تسلسل ٹوٹا ہے اور ایک بار پھر امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔
کاروباری ہفتے کے آغاز پر ایک امریکی ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں 269 روپے 34 پیسے کی سطح پر تھا جبکہ کاروباری ہفتے کے آخری روز جمعے کو پہلے سیشن میں ایک امریکی ڈالر کی انٹر بینک مارکیٹ میں قیمت 263 روپے 38 پیسے رپورٹ کی گئی۔
ایکسچنج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ پاکستان میں وقتی طور پر روپے کی قدر میں بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
’گزشتہ ہفتے 6 روپے کی بہتری رپورٹ کی گئی تھی جبکہ رواں ہفتے اب تک 5 روپے سے زائد کی کمی ریکارڈ کی جا چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر دو ہفتوں کی بات کی جائے تو روپے کی قدر میں 11 روپے کی بہتری ہوئی ہے۔
ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط تسلیم کی ہیں جس کے بعد ملک میں ڈالر آنے کی امید تو بڑھ گئی ہے لیکن اس عمل سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ ’عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اشیا خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے اور آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس بلکہ اپر کلاس کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
معاشی امور کے ماہر سمیع اللہ طارق نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کے قرض سے زیادہ اپنی ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دے۔