اقوام متحدہ امن مشن کے 75 سال ;شہدائے پاکستان کیلئے اعزازات کا اعلان

 
0
64

پاکستان اور اقوام متحدہ , یو این قیام امن کی کوششوں کے 75 سال مکمل ہونے کاجشن منا رہے ہیں, پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز میں 4334 فوجی و پولیس اہلکاروں کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔امن مشن کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ نے شہدائے پاکستان کیلئے اعزازات کا اعلان کیاہے۔امن مشن کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر جنرل اسمبلی ہال میں خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا، امن مشن کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے 8 پاکستانی شہدا کو اعزاز سے نوازا گیا۔ پاکستان کے نمائندے محمد عامر خان اور کرنل افضال احمد نے شہدا کے میڈلز وصول کئے۔ 8 شہدا میں 6 وہ شہید بھی شامل ہیں جنہوں نے 29 مارچ 2022 کو ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں اقوام متحدہ کے سٹیبلائزیشن مشن کے ساتھ فرائض سرانجام دیتے ہوئے ہیلی کاپٹر حادثے کے دوران شہادت قبول کی۔ ان شہدا میں لیفٹیننٹ کرنل آصف علی اعوان، میجر فیضان علی، میجر سعد نعمانی، نائب صوبیدار سمیع اللہ خان، حوالدار محمد اسماعیل اور لانس حوالدار محمد جمیل خان شامل ہیں, حوالدار بابر صدیق اور نائیک رانا محمد طاہر اسلام نے سنٹرل افریقن ریپبلک میں اقوام متحدہ کے کثیر جہتی انٹیگریٹڈ سٹیبلائزیشن مشن کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کے دوران جام شہادت نوش کیا۔ پاکستان اور اقوام متحدہ (یو این) قیام امن کی کوششوں کے 75 سال مکمل ہونے کی خوشی منا رہے ہیں جس کیلئے وزارت خارجہ میں اقوام متحدہ کے تعاون سے خصوصی تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب میں سفارتی کور اور وزارت خارجہ کے افسران نے شرکت کی۔تقریب میں سال 1960ء سے اب تک اقوام متحدہ کے 46 مشنز میں خدمات سرانجام دینے والے 2 لاکھ پاکستانی مرد و خواتین کو خراج تحسین پیش کیا گیا، تقریب میں امن مشنز میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے 171 پاکستانیوں کو خصوصی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔ اس موقع پر دو پینل مباحثے ہوئے جن میں اقوام متحدہ کے قیام امن کے اثرات اور فوج میں سب سے زیادہ تعاون کرنے والے ملک کے طور پر پاکستان کے کردار کو اجاگر کیا گیا۔

اس موقع پر وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور سفارتی برادری نے پاکستان کے 8 امن فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے ڈیوٹی کے دوران اپنی جانیں گنوائیں اور انہیں اقوام متحدہ کی امن فوج کے 75 سال مکمل ہونے پر بعد از مرگ اعزاز سے نوازا گیا ۔

تقریب میں سال 1960ء سے اب تک اقوام متحدہ کے 46 مشنز میں خدمات سرانجام دینے والے 2 لاکھ پاکستانی مرد و خواتین کو خراج تحسین پیش کیا گیا، تقریب میں امن مشنز میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے 171 پاکستانیوں کو خصوصی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز میں 4334 فوجی و پولیس اہلکاروں کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔


وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھرکا کہنا تھا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے امن مشن میں اپنی دیرینہ وابستگی اور شراکت پر فخر ہے۔ وزیر مملکت نے پوری دنیا میں امن کے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے اقوام متحدہ کے امن دستوں کی خدمات اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور اقوام متحدہ کے قیام امن اور قیام امن کے لیے پاکستان کے مضبوط عزم اور حمایت کا اعادہ کیا وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے امن مشنز کے ساتھ اپنے دیر پا تعلق پر بڑا فخر ہے۔ وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے امن مشنز کے ساتھ اپنے دیر پا تعلق پر بڑا فخر ہے۔نمائندہ یو این ڈی پی پاکستان نٹ اوسٹبی کا کہنا تھا کہ ہم 80 ہزار سے زائد بہادر امن محافظوں کا دن منا رہے ہیں، یہ افراد دنیا میں قیام امن کیلئے انتہائی اہم کام سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں یو این ڈی پی کے نمائندے نٹ اوسٹبیکا کا کہنا تھا کہ “اقوام متحدہ کو تین ستونوں پر کام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں: امن، ترقی اور انسانی حقوق۔ ہم امن کو لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم، دنیا کو آگے لانے کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کے طور پر دیکھتے ہیں۔نمائندہ یو این ڈی پی پاکستان نٹ اوسٹبی کا کہنا تھا کہ ہم 80 ہزار سے زائد بہادر امن محافظوں کا دن منا رہے ہیں، یہ افراد دنیا میں قیام امن کیلئے انتہائی اہم کام سرانجام دے رہے ہیں۔
وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے حکومت، غیر ملکی سفارتخانوں، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور ترقیاتی شراکت داروں کے نمائندوں کی موجودگی میں پاکستانی امن دستوں اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے کام کی تصویروں کی نمائش کا افتتاح کیا۔تقریب میں اقوام متحدہ کےنمائندے، وزارت خارجہ اور آرمی جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کے پالیسی سطح کے اعلیٰ حکام اور اقوام متحدہ کے مشن میں خدمات انجام دینے والی پاکستانی خاتون امن دستہ کی شرکت کے ساتھ دو پینل مباحثے بھی شامل تھے۔ جمہوری جمہوریہ کانگو۔ پینلسٹس نے اقوام متحدہ کے قیام امن کے اہم کردار، سالوں کے دوران اس کے ارتقاء اور اس عظیم کوشش میں پاکستان کے تعاون کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
گزشتہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے 4,200 سے زائد اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کی یاد میں پھولوں کی چادر چڑھائی جنہوں نے 1948 سے لے کر اب تک امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں اپنی جانیں گنوائیں، جن میں 171 پاکستانی شہری بھی شامل تھے۔ سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس
نے تقریب کی صدارت کی جس کے دوران 103 فوجی، پولیس اور سویلین امن دستوں کو بعد از مرگ ڈاگ ہمارسک جولڈ میڈلز سے نوازا گیا – جن میں آٹھ پاکستانی بھی شامل ہیں – جنہوں نے گزشتہ سال امن برقرار رکھنے میں اپنی جانیں گنوائیں۔


سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نےاپنے پیغام میں کہا”اقوام متحدہ کے امن دستے زیادہ پرامن دنیا کے لیے ہمارے عزم کا دھڑکتا دل ہیں۔ 75 سالوں سے، انہوں نے دنیا بھر میں تنازعات سے لرزنے والے لوگوں اور کمیونٹیز کی حمایت کی ۔ اقوام متحدہ کے امن دستوں کے عالمی دن کے موقع پر، ہم بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے ان کی غیر معمولی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔” عالمی سطح پر، 87,000 سے زیادہ خواتین اور مرد افریقہ، ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے 12 تنازعات والے علاقوں میں امن برقرار رکھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن دستے سلامتی اور سیاسی اور امن سازی میں مدد فراہم کرتے ہیں تاکہ ممالک کو تنازعات سے امن کی طرف مشکل، ابتدائی منتقلی میں مدد ملے۔
1948 سے اب تک 125 ممالک کے 20 لاکھ سے زیادہ امن دستوں نے دنیا بھر میں 71 آپریشنز میں خدمات انجام دیں۔ اقوام متحدہ کے امن دستوں کا عالمی دن، ہر سال 29 مئی کو منایا جاتا ہے، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2002 میں قائم کیا تھا، امن مشن میں خدمات انجام دینے والی تمام خواتین اور مردوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے.اقوام متحدہ کا قیام 24اکتوبر 1945ء کو عمل میں آیا جس کا مقصد عالمی سطح پر امن کا قیام ، مختلف خطوں میں انسانی ہمدردی کے حوالے سے معاونت اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دے کر عملی اقدامات کرنا شامل ہیں۔ امن کوششوں کے حوالے سے اقوام متحدہ نے سب سے پہلے1948 میں فلسطین اور کشمیر کے مشنز سے آغازکیا تاہم اسرائیلی اور بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث دونوں خطوں میں 73برس گزرنے کے باوجود امن کا قیام ممکن نہ بنایا جا سکا اور آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر یہ دونوں طویل ترین مشنز بدستور حل طلب ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن کوششوں کے لیے دنیا بھر میں جاری مختلف امن مشنز میں اب تک 4138اہلکار قیام امن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔قیام امن کے مشنز میں آج بھی دنیا کے121ممالک کے 75ہزار 221اہلکار سرگرم عمل ہیں جن میں 69ہزار 775 تعدادمردوں اور 5ہزار 446 خواتین اہلکاروں کی ہے۔ پاکستان کے امن دستے جن میں خواتین اہلکار بھی شامل ہیں، عالمی امن فورس کا حصہ ہیں۔
دنیا میں امن کا قیام پاکستان کی ہمیشہ اولین ترجیح ہے اسی لیے پاکستان اپنی مسلح افواج کے ذریعے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لینے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔قیام امن کی کوششوں کے 75 سال مکمل ہونے کاجشن منا رہے ہیں.پاکستان نے اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں معاونت کا آغازاگست 1960سے کیا تھا جب کانگو میں پاکستان نے4سواہلکاروں پر مشتمل دستہ قیام امن کے لیے بھیجا اور پاکستان اس مشن میں مئی 1964تک اپنی خدمات سرانجام دیتا رہا۔ علاوہ ازیں اس میں پاکستان نے نیوگینی، نمیبیا، کویت، سریا لیون ہیٹی، ڈارفور سمیت بعض دیگر ممالک میں امن دستے بھیجے جو قیام امن کی کوششوں میں سرگرم عمل رہے۔ بوسنیا میں بھی پاکستان نے قیام امن کی کوششوں میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے بہترین خدمات انجام دیں۔
یاد رہے کہ افواجِ پاکستان کے امن دستے دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی تعینات رہے، ان کی کارکردگی انتہائی نامساعد حالات میں بھی بہترین رہی ہے۔ پاکستانی امن دستے نہ صرف وہاں امن ِ عامہ کی بحالی کے لئے کام کرتے ہیں بلکہ وہاں کے غریب شہریوں اور مہاجرین کے لئے میڈیکل کیمپس کے ذریعے انہیں طبی سہولیات اور مفت ادویات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستانی امن دستے ضرورت مند شہریوں میں راشن کی تقسیم بھی یقینی بناتے ہیں اور یہ سب ہماری افواج کے دستے اپنے ذرائع سے کررہے ہوتے ہیں۔ پاک فوج کے امن دستے مختلف ممالک میں تعلیمی پراجیکٹس بھی چلاتے ہیں۔ ان پراجیکٹس کے تحت مقامی بچوں کو نہ صرف تعلیم کی روشنی سے بہرہ ور کیا جاتا ہے بلکہ اُنہیں کتابوں اور سٹیشنری کی مفت فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی ہے۔پاکستانی امن دستے جہاں دنیا بھر میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قیامِ امن کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں وہاںیہ مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کی روز مرہ زندگی کو بہتر بنانے کے حوالے سے بھی کردار ادا کرتے ہیں جو یقینا لائقِ صد تحسین امر ہے۔
پاکستان خطے میں قیام امن کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا ہے اور اس ضمن میں پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار بھی ادا کرتا رہا ہے تاہم بھارت کی جانب سے پاکستان کے قیام امن کے لیے کوششوں کو ہمیشہ شبوتاژ کیا جاتا رہا ہے ۔ بھارت جو روز اول سے ہی پاکستان کو مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے بھارت جو 75برس سے کشمیر میں اپنے جارحانہ اور وحشیانہ اقدام سے ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے، بھارت نے افغانستان اور دیگر خطے کے ممالک میں بھی سازشیں شروع کر رکھی ہیں تاہم پاکستان کی مضبوط اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے لیس مسلح افواج بھارت کے ان مقاصد کو ہمیشہ ناکام بناتی آئی ہے۔ پاکستان اب تک کم و بیش تمام امن مشنزمیں حصہ لے چکا ہے اور ان امن مشنز میں پاکستان کی مسلح افواج کے علاوہ پیرا ملٹری فورس اور سویلین پولیس آفیسرز کی شرکت بھی قابل ذکر ہے ۔ پاکستان نے اب تک جن امن مشنزمیں خدمات سرانجام دی ہیں ان میں کانگو ، مغربی نیو گنی ، نمیبیا ، کویت ، ہیٹی ، کمبوڈیا ، بوسنیا ، صومالیہ ، روانڈا ، انگو لا ، مشرقی سلووینیہ ، سری لیون، لائبیریا ، برونڈی ،آئیوری کوسٹ اور سوڈان کے امن مشنزقابل ذکر ہیں,اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ مثلا سیاسی بحرانوں کا حل تلاش کرنا، انسانی حقوق، تعیلم و صحت کے مسائل پرتوجہ دینا اورموسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات اٹھانا۔ اقوام متحدہ کے مرکزی ڈھانچے میں 192 ممالک شامل ہیں۔ تنظیم کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہررکن ملک ایک ووٹ کا حقدارہے تاہم کسی اہم فیصلے لئے دو تہائی کی اکثریت انتہائی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے مختلف ادارے اور پروگرام سات مرتبہ نوبل انعام حاصل کرچکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر26 جون 1945کو سان فرانسسکو میں دستخط کئے گئے۔ جو اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والی اقوام کے لئے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اقوامِ متحدہ”آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچائے” کے مقصد کے تحت قائم کی گئی۔ اس کے بڑے مقاصد میں سے ایک بین الاقوامی امن و سلامتی ہےاقوام متحدہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو بین الاقوامی قانون، سیکورٹی، اقتصادی ترقی، سماجی ترقی اور دنیا بھر کے ممالک کے لئے انسانی حقوق کو نافذ کرنے کے لئے تیار کرنے کے لئے تیار ہے. اقوام متحدہ میں 193 ممبر ممالک شامل ہیں اور اس کا مرکزی ہیڈکوارٹر نیویارک شہر میں واقع ہے.


25 اپریل، 1945ء سے 26 جون، 1945ء تک سان فرانسسکو، امریکا میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر، 1945ء میں معرض وجود میں آئی, یاد رہےکہ لیگ آف نیشنز کا قیام پہلی عالمی جنگ کے بعد عمل میں لایا گیاتھا۔ جس کا مقصد بین الاقوامی امن و سلامتی کے حصول کے لئے بین الاقوامی تعاون کا فروغ تھا۔ اس مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ لیگ نے ان بین الاقوامی قوتوں میں دوریاں پیدا کردیں جو پہلی عالمی جنگ میں شکست کھا چکی تھیں۔ حتیٰ کہ لیگ آف نیشنز فاتح اتحادیوں کو بھی قابو میں نہ رکھ سکی‘ حقیقتاً امریکہ اس کا کبھی بھی ممبر نہیں بنا۔ 1920 سے1930 کے عشرے میں پہلی عالمی جنگ کے سابق اتحادی الگ لگ اور غیر مسلح ہوگئے۔ جبکہ لیگ سے باہر بین الاقوامی قوتیں دوبارہ مسلح ہونا شروع ہوگئیں اور دنیا کو دوسری عالمی جنگ سے بچانے کے لئے لیگ آف نیشنز بے اختیار ہوگئی۔ سلامتی کونسل اپنے فرائض اقوامِ متحدہ کے ممبران کی جگہ پر ادا کرتی ہے۔ سلامتی کونسل کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے سیکرٹری جنرل کو پلان مرتب کرنے کا کہتی ہے اور عمومی طور پر سلامتی کونسل کسی بھی پلان کو منظور کرنے کا اختیار رکھتی ہے کچھ خاص حالات میں فیصلوں کے لئے جنرل اسمبلی سے رجوع کیا جاتا ہے۔ جنرل اسمبلی کو خود اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ قیامِ امن کے لئے طاقت استعمال کرے۔ طاقت کے استعمال کا اختیار اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس ہے۔اقوامِ متحدہ کا سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ کے امن مشن آپریشن کو منظم کرنے‘ ان کے انعقاداور دیکھ بھال کے لئے سلامتی کونسل کو جوابدہ ہے۔ علاوہ ازیں آپریشن پلان کی تیاری اور منظوری کے لئے سلامتی کونسل کوپیش کرنے‘ میزبان ممالک کے ساتھ مذاکرات ‘متنازع پارٹیوں اور وہ ممالک جو اپنے دستے بھیج رہے ہوں یا جس اس میں مالی معاونت کررہے ہوں‘ ان کے ساتھ بات چیت کرنے کابھی ذمہ دار ہے۔ جنرل اسمبلی ایسے معاملات پر سوچ بچار کرتی ہے جو سلامتی کونسل کی جانب سے اسے بھیجے گئے ہوں۔ اگر چہ اس کی اکثر قرار دادیں کسی کو پابند نہیں کرتیں‘ تاہم یہ جنرل اسمبلی ہے جو اقوامِ متحدہ کا سالانہ بجٹ تقسیم کرتی ہے جس میں امن آپریشن سے متعلق تمام اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل47 ملٹری سٹاف کمیٹی کے قیام کے متعلق ہے۔ کمیٹی میں سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کے چیفس آف سٹاف شامل ہوتے ہیں۔ جو بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کے بارے میں ہدایات اور مدد دیتے ہیں۔ اگرچہ کمیٹی کا یہ کردار اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں واضح ہے مگر عملی طور پر ملٹری سٹاف کمیٹی نے چارٹر میں دیئے گئے کردار کے مطابق کام نہیں کیا۔ لیگ آف نیشنز کی طرح اقوامِ متحدہ کے قیام کی بنیاد بھی اسی مفروضے پر رکھی گئی کہ جنگ کے فاتحین بین الاقوامی امن قائم رکھ سکیں گے۔ تاہم لیگ کے برعکس اقوامِ متحدہ نے تجدید تعلق کی جانب کچھ قابل ذکر اقدام اٹھائے جس سے دوسری عالمی جنگ کی تلخی کچھ کم ہوگئی۔ مزیدبرآں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے سبب اس کے ممبران کی تعداد میں ہونے والے تیزی سے اضافے نے نئی قوموں کو وہ اثر اور وہ آواز دی جو ان کے پاس اس قبل نہ تھی۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر26 جون 1945کو سان فرانسسکو میں دستخط کئے گئے۔ جو اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والی اقوام کے لئے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اقوامِ متحدہ’’آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچائے‘‘ کے مقصد کے تحت قائم کی گئی۔ اس کے بڑے مقاصد میں سے ایک بین الاقوامی امن و سلامتی ہے۔ اگر چہ قیامِ امن کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں صراحت سے بیان نہیں کیا گیا تاہم یہ ایک ایسا اقدام بن چکا ہے جس کے استعمال سے اقوامِ متحدہ امن و سلامتی جیسے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ یہ چارٹر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو بین الاقوامی امن و سلامتی کی بنیادی ذمہ داری سونپتا ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے سلامتی کونسل کئی اقدام کر سکتی ہے جس میں اقوامِ متحدہ کے قیامِ امن آپریشن شامل ہیں۔ یہ امن مشن وہاں بھیجے جاتے ہیں جہاں کی حکومت تنازعات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے۔