پاک فوج سمندری طوفان سے نمٹنے کیلئےتیار

 
0
83

سمندری طوفان “بائپر جوائے سے نمٹنے کے لیے پاک فوج الرٹ ہے.آرمی چیف کی ہدا یت پرپاک فوج سمندری طوفان سے نمٹنے کیلئےتیارہے،جبکہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان کے نتیجہ میں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیاریاں کر لی گئی ہیں، لوگوں کو ساحلی علاقوں سے محفوظ مقامات تک منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے، بدھ کو اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ سمندری طوفان بپر جوائے کے کیٹی بندر سے ٹکراؤ کے امکانات کے باعث تمام متعلقہ حکومتی ادارے لوگوں کے پیشگی ریسکیو یقینی بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں ہدایت کر دی ہے کہ ساحلی علاقوں میں رہنے والے 50ہزار سے زائد لوگوں کو حفاظتی مقامات تک پہنچایا جائے جہاں ان کو پینے کا صاف پانی اور خوراک کے ساتھ ساتھ طوفان کے خاتمہ تک آرام دہ رہائش اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی کی سربراہی میں کمیٹی صورتحال کی نگرانی کرے گی۔کمیٹی میں وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی، وزیر پاور اور وفاقی وزیر آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام سید امین الحق شامل ہیں، کمیٹی میں متعلقہ اداروں کے سربراہان کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال کے پیش نظر فوری اقدامات اُٹھائے جاسکیں۔ کمیٹی سمندری طوفان کی صورتحال میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرے گی، کمیٹی سمندری طوفان بپر جوائے کے پاکستان کی ساحلی پٹی سے ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہونی والی صورتحال، نقصانات کا بھی جائزہ لے گی۔سمندری طوفان “بائپر جوائے”15 جون کوٹکرانے کا امکان ہے جس سے نمٹنے کے لیے پاک فوج الرٹ ہے. سمندری طوفان کے پیش نظر پاک فوج کے تازہ دم دستے ٹھٹھہ اور سجاول میں تعینات کر دئیے گئے۔جی او سی حیدر آباد ڈویژن نے سائیکلون کے سلسلے میں کیٹی بندر ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کے علاقوں کا دورہ کیا، انہوں نے سول انتظامیہ، پولیس اور رینجرز کو انخلاء کے جاری عمل کو تیز کرنے اور عقبی علاقوں میں قائم سیٹلمنٹ کیمپوں میں لوگوں کو رہنے کی ہدایت کی۔ ممکنہ سمندری طوفان سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کا جائزہ بھی لیا، ترجمان کا کہنا ہے کہ پاک فوج عوام کو مشکل وقت میں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑے گی۔ پاک فوج طوفان سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے افراد کی منتقلی کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔ پاک آ رمی کے جوان گاؤں موسیٰ تحصیل کھارو چن میں پھنسے افراد کو نکالنے میں کامیاب رہے ، علاقہ مکینوں کا اس صورتِ حال کے حوالے سے کہنا ہے کہ بر وقت ہمیں اس مصیبت سے نکالنے کے لیے ہم پاک فوج کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ پاک فوج نے گاؤں میں پھنسے لوگوں کو گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کردیاہے۔ گاؤں میں پھنسے افراد میں مرد، خواتین، کم عمر بچے اور بزرگ شامل تھے ، اس موقع پر متاثرہ افراد نے محفوظ مقام پر بروقت منتقلی پر پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا۔سمندر میں موجود حالیہ طوفان کا نام ’بائپر جوائے‘ بنگلہ دیش نے تجویز کیا ہے جس کا مطلب ’آفت‘ ہے۔ پاک آرمی کی کمانڈ نے فیصلہ کیا کہ پاک آرمی کے مزید دستے بھی ممکنہ ریسکیو آپریشنز کیلئے اپنے فرائض سرانجام دیں گے، پاک فوج عوام کو مشکل وقت میں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑے گی۔
پاک فوج کے تازہ دم دستے تعینات کر دیے گئےھیں۔ ممکنہ سمندری طوفان بپر جوئے سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات بارے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس میں ڈی جی رینجرز سندھ، جی او سی حیدرآباد گیریژن سمیت دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں ” ;طوفان ’بائپر جوائے‘ ” سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی بنائی گئی اور پاک فوج کی خدمات لیتے ہوئے تازہ دم دستے حفاظتی اقدامات کے طور پر تعینات کر دیے گئے، پاک فوج کے تازہ دم دستے ممکنہ سمندری طوفان ” بائپر جوائے” سے نمٹنے کے لیے روانہ ہو گئے۔دوسری جانب پاکستان نیوی کے غوطہ خوروں نے سمندر میں پھنسے درجنوں ماہی گیروں کو بحفاظت ریسکیو کر لیا اور انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد محفوظ مقام منتقل کر دیا۔ ساحلی علاقوں سے اب تک 64 ہزار سے زائد افراد کی محفوظ مقامات پر منتقلی عمل میں لائی گئی ہے۔ ہدایات کے باوجود بعض افراد اب بھی ساحلی علاقوں میں موجود اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمٰن اور چیئرمین این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور کراچی کا ضلع ملیر سمندری طوفان بائپر جوائے کے ٹریک پر ہیں۔ اربن فلڈنگ کا خطرہ برقرار ہے، کراچی میں سی ویو، ڈی ایچ اے کے رہائشی کل کا دن احتیاط سے گزاریں ،طوفان کی وجہ سے لوگوں کا انخلاء اختیاری نہیں، لازمی ہے۔ترجمان پاک بحریہ کا کہنا ہے کہ جوانوں نے شاہ بندر سے سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیاترجمان پاک بحریہ کے مطابق ماہی گیروں کی حفاظت کیلئے سمندرمیں پٹرولنگ جاری ہے، 64 ماہی گیروں کو سمندرسے ریسکیو کیا جا چکا ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ کراچی میں ہیڈ کوارٹرز کمانڈر کراچی کے زیرانتظام سائیکلون مانیٹرنگ سیل قائم کردیا گیا ہے، ساحلی علاقوں میں موجود پاک بحریہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جبکہ پاک بحریہ کے کمانڈر کوسٹ امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کررہے ہیں۔…بحیرۂ عرب میں موجود جس سمندری طوفان نے اس وقت پاکستان اور بھارت کے ساحلی علاقوں کے لوگوں کو اپنے خوف میں مبتلا کیا ہوا ہے، وہ اس طوفان کے نام ’بائپر جوائے‘ کے حوالے سے تجسس میں مبتلا ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے اور یہ نام کس نے رکھا؟’بائپر جوائے‘ رواں سال بجیرۂ عرب میں بننے والا دوسرا بڑا طوفان ہے جبکہ پہلا طوفان ’موچا‘ تھا جوکہ بنگلادیش سے ٹکرایا تھا۔ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے 6 علاقائی اسپیشلائزڈ میٹرولوجیکل سینٹرز اور 5 ریجنل ٹراپیکل اسٹارم وارننگ سینٹرز کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ طوفان کی نوعیت کےحساب سے اس کا نام رکھیں۔لہٰذا، انڈین میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (آئی ایم ڈی) کو ریجنل اسٹورم میٹرولوجیکل سینٹر کا درجہ دیا گیا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنوب اور جنوب مشرقی علاقوں کے قریب بننے والے طوفانوں کے لیے نام تجویز کرے۔پاکستان، قطر، سعودی عرب، سری لنکا، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات اور یمن شامل ہیں۔آئی ایم ڈی کی جانب سے اپریل 2020ء میں سمندری طوفانوں کو نام دینے کے لیے 169 ناموں کی لسٹ تشکیل دی گئی جس میں ہر ملک کی جانب سے 13، 13 نام شامل تھے۔پھر تمام ممالک کی جانب سے تجویز کردہ 169 ناموں کی 13 فہرستیں بنائی گئیں اور ان فہرستوں کو اس انداز میں ترتیب دیا گیا کہ ہر فہرست میں ہر ملک کی جانب سے تجویز کردہ ایک نام لازمی شامل ہو۔ان 13 فہرستوں میں شامل ناموں کا استعمال صرف بحرِ ہند اور ساؤتھ پیسیفک ریجن میں بننے والے طوفانوں کے نام تجویز کرنے کے لیے ہوتا ہے۔جب بحیرۂ عرب میں سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ آیا تو ناموں کی پہلی فہرست ختم ہوگئی تھی اور یہ دوسری فہرست کا پہلا نام ہے جسے بنگلادیش نے تجویز کیا ہے۔
واضح رہے کہ سمندری طوفانوں کے نام تجویز کرنے کے لیے بنائے گئے اس نظام کا مقصد ایک ہی ریجن میں بننے والے سمندری طوفانوں میں فرق کرنا ہے اور اسی لیے اس طریقے کار سے منتخب کیے گئے ہر نام کا استعمال صرف ایک ہی بار کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی سے سمندری طوفان بپرجوائے کا فاصلہ بڑھ گیا ہے۔سمندری طوفان کراچی کے جنوب میں 370 کلو میٹر دور ہے، اس سے قبل یہ 340 کلو میٹر کی دوری پر آ گیا تھا۔


سمندری طوفان ٹھٹھہ کے جنوب میں 355 کلو میٹر جبکہ کیٹی بندر کے جنوب اور جنوب مغرب میں 290 کلو میٹر دور ہے۔سمندری طوفان بپرجوائے کے اثرات کے تحت کراچی پر بادلوں کا راج ہے، تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔شہر کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے کہیں بوندا باندی اور کہیں بارش جاری ہے۔کراچی کے علاقے کلفٹن، کورنگی، ملیر، شارع فیصل ،گلستانِ جوہر، گلشنِ اقبال، نارتھ کراچی، نیو کراچی، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، آئی آئی چندریگر روڈ، صدر، لیاری، اولڈ سٹی ایریا سمیت مختلف علاقوں میں بارش ہوئی ہے۔موسم ابر آلود ہونے کے باوجود شہر کا موسم بدستور گرم ہے۔بارش کے چھینٹے پڑتے ہی مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔ محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی سے سمندری طوفان بپرجوائے کا فاصلہ بڑھ گیا ہے۔سمندری طوفان کراچی کے جنوب میں 370 کلو میٹر دور ہے، اس سے قبل یہ 340 کلو میٹر کی دوری پر آ گیا تھا۔سمندری طوفان ٹھٹھہ کے جنوب میں 355 کلو میٹر جبکہ کیٹی بندر کے جنوب اور جنوب مغرب میں 290 کلو میٹر دور ہے۔کراچی میں طوفان کے باعث سمندر کے قریبی گوٹھوں اور کریکس میں بلند لہروں کے باعث پانی آ سکتا ہے۔چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے بتایا ہے کہ مون سون کے موسم میں اکثر ہاکس بے کی سڑک تک پانی آ جاتا ہے۔ 15

جون کو سمندری طوفان بپرجوائے کے ٹکرانے کے بعد 17 جون تک اس کے اثرات باقی رہیں گے۔ چیف میٹرولوجسٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ طوفان کے باعث سندھ کی ساحلی پٹی پر تیز ہوا اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان رہے گا۔طوفان کے اثرات کے تحت کراچی پر بادلوں کا راج ہے، تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر سمندری طوفان بپرجوائے کے اثرات نظر آنے لگے، سمندر بپھرنے لگا، لہروں کا سائز بھی بڑھ گیا ہے۔طوفان کے مرکز و اطراف میں 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک ہواؤں کے جھکڑ چل رہے ہیں۔کیٹی بندر پر سمندر میں شدید طغیانی ہے، تیز ہواؤں کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش جاری ہے۔شہر کے حفاظتی بند پر دباؤ بڑھنے لگا، طوفان کا فاصلہ کیٹی بندر سے 275 کلو میٹر دور رہ گیا، سمندری طوفان کل کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔ سجاول میں تیز ہوائیں چلنے سے کچے مکانات کی چھتیں اڑ گئیں۔
دوسری جانب پاکستان نیوی کے غوطہ خوروں نے سمندر میں پھنسے درجنوں ماہی گیروں کو بحفاظت ریسکیو کر لیا اور انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد محفوظ مقام منتقل کر دیا۔ ساحلی علاقوں سے اب تک 64 ہزار سے زائد افراد کی محفوظ مقامات پر منتقلی عمل میں لائی گئی ہے۔ ہدایات کے باوجود بعض افراد اب بھی ساحلی علاقوں میں موجود اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمٰن اور چیئرمین این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور کراچی کا ضلع ملیر سمندری طوفان بائپر جوائے کے ٹریک پر ہیں۔ اربن فلڈنگ کا خطرہ برقرار ہے، کراچی میں سی ویو، ڈی ایچ اے کے رہائشی کل کا دن احتیاط سے گزاریں ،طوفان کی وجہ سے لوگوں کا انخلاء اختیاری نہیں، لازمی ہے۔ترجمان پاک بحریہ کا کہنا ہے کہ جوانوں نے شاہ بندر سے سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔سمندری طوفان گرم ہوا کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور ایک گول دائرے کی شکل میں آگے بڑھتے ہیں۔ ایسےسمندری طوفان اپنے ساتھ کافی تیز ہوائیں اور بارش لاتے ہیں جو سمندروں کے گرم پانی کے اوپر جنم لے کر آگے بڑھتے ہوئے شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔ جب سمندر کی گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے تو اس کی حدت میں کمی آتی ہے اور یہ بادل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسے زیادہ دباؤ کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ ہوا بلند ہوتی ہے سمندری سطح کے قریب ہوا میں کمی ہوتی ہے۔ اسے کم دباؤ کا علاقہ کہتے ہیں۔ اس کم دباؤ والے علاقے کی جانب خلا کو پُر کرنے کے لیے اور ہوا حرکت میں آتی ہے جو گرم ہو کر ایک گول دائرے کی صورت میں گھومتی ہے۔ ایسے سمندری طوفان جو گھومتے ہیں، ان کا ایک مرکزی نقطہ ضرور ہوتا ہے۔ اسے طوفان کی آنکھ یعنی ’آئی آف دی سٹورم‘ کہا جاتا ہے جو پرسکون حصہ ہوتا ہے۔ بائپر جوائے 1999 میں آنے والے سمندری طوفان کا ایکشن ری پلے ہے۔ یہ طوفان اسی روٹ پر سفر کر رہا ہے جس پر 1999 والے طوفان نے سفر کیا تھا۔ اس کی اس وقت رفتار بھی وہ ہی ہے جو کہ 1999 میں تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ طوفان کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔ 1999 والا طوفان بھی کیٹی بندر سے ٹکرایا تھا۔ بائپر جوائے بھی تقریبا اسی مقام پر وجود میں آیا جہاں 1999 والا طوفان وجود میں آیا تھا۔ ’ہمیں 1999 والے اور اب کے طوفان میں بہت سے مماثلتیں ملتی ہیں۔ واضح رہے کہ کہا جاتا ہے کہ 1999 والا سمندری طوفان اپنی تاریخ کا سب سے بدترین طوفان تھا۔ اس طوفان کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹھٹہ اور بدین کو ناقابل تلافی نقصاں پہنچا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 189 لوگ ہلاک جبکہ 150 لاپتہ ہوئے تھے

اور 138,000 گھر تباہ ہوئے تھے۔ اس طوفان کی وجہ سے 256,000 ایکٹر زرعی زمین تباہ ہوئی تھی اور متاثرین کو کافی عرصے تکعارضی ریلیف کیمپوں میں رہنا پڑا تھا۔ 1999 کے سمندری طوفان کی لہریں 28 فٹ اونچی تھیں جبکہ لہریں اس وقت 30 سے 40 فٹ اونچی ہیں۔1999 میں جب طوفان پاکستان کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تو حفاظتی اقدامات کی کمی کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا کے علاقے سے لے کر بدین تک بہت زیادہ نقصان ہوا تھا۔ وہ طوفان مئی میں آیا تھا جب کہ یہ جون میں ہے۔ تاریخوں کا معمولی فرق ہے مگر میں سیٹلائیٹ کے ذریعے سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ طوفان ان ہی راستوں پر چل رہا ہے جن راستوں پر 1999 کا طوفان چلا تھا۔‘ 1999 کے طوفان نے پاکستان کو ماحولیاتی، معاشی، معاشرتی طور پر ناقابل تلافی نقصاں پہنچایا تھا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یہ سمندری طوفان انتہائی خطرناک ہوتے ہیں، اگر ان سے بچاؤ کے لیے قبل از وقت مناسب اقدامات نہ ہوں تو نقصانات بڑھ سکتے ہیں۔‘ خیال رہے کہ حکام اور لوگ ذہنی طور پر اس طوفان سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘ پیشگی اطلاعات کی وجہ سے تیاری کرنا آسان ہوا ہے جبکہ 1999 میں بروقت اطلاعات دستیاب نہیں تھیں۔محکمہ موسمیات کے مطابق صوبے کے بیشتر اضلاع میں موسم گرم اور مرطوب رہے گا۔ تاہم مری، گلیات، خطۂ پوٹھوہا، نارووال، سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ، لاہور، ساہیوال، اوکاڑہ، سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، فیصل آباد، قصور، میانوالی، لیہ، بھکر، نور پورتھل، خوشاب، ملتان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں آندھی/گرد آلود ہوائیں چلنے اورگرج چمک کے ساتھ بارش اور چند مقا مات پر موسلا دھار بارش/ژالہ باری کا امکان ہے۔ جمعرات کے روز صوبے کے بیشتر اضلاع میں موسم گرم اور مرطوب رہے گا۔ تاہم مری، گلیات، خطۂ پوٹھوہار، نارووال، سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ، لاہور، ساہیوال، اوکاڑہ، سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، فیصل آباد،جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظہ آباد، قصور، میانوالی، لیہ، بھکر، نور پورتھل، خوشاب، ملتان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں آندھی/گرد آلود ہوائیں چلنے اورگرج چمک کے ساتھ بارش اور چند مقامات پر موسلا دھار بارش/ژالہ باری کا امکان ہے۔دوسری جانب پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے وزیرا علیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے فون پر رابطہ کیا اور انہیں سمندری طوفان سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنی حکومت کی جانب سے مکمل تعاون اور معاونت کا یقین دلایا۔ محسن نقوی نے کہا کہ ریسکیو 1122 اور پی ڈی ایم اے سمیت پنجاب کے دیگر متعلقہ ادارے سندھ کے بھائی بہنوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت حاضر ہیں اور صوبے کے ساحلی علاقون میں آبادی کے انخلا کے حوالے سے بھی سندھ حکومت کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔